مَیں ایک گدا گر ہوں 

 مَیں ایک گدا گر ہوں 
 مَیں ایک گدا گر ہوں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


مَیں ایک گداگر ہوں۔ شہر کے ایک معروف چوراہے پر بھیک مانگنے کا ”کام“ کرتا ہوں۔ دیکھنے والے مجھے بے کار سمجھتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ مانگنا بھی ایک کام ہے بلکہ یوں کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہو گا کہ مانگنا ایک فن ہے اور مَیں اِس فن میں طاق ہوں۔ ٹریفک کا اشارہ سرخ ہوتے ہی مستعد ہو جاتا ہوں اور اپنے قریب آ کر رُکنے والی گاڑی کے قریب کھڑا ہو جاتا ہوں۔ بعض لوگ خود ہی مجھے دیکھ کر گاڑی کی کھڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہیں اور دس بیس روپے میری طرف بڑھا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ مجھے نظر انداز کرتے  اور اشارہ سبز ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ تب مَیں اُن کی گاڑی کے شیشے پر ہلکی سی دستک دیتا ہوں۔ پھر بھی وہ شیشہ نیچے نہ کریں تو میں دوسری طرف والی سیٹ کی طرف چلا جاتا ہوں جہاں کوئی خاتون بیٹھی ہوتی ہے۔ عورتیں عام طور پر رحم دل ہوتی ہیں اِس لئے وہ میری حالت ِ زار پر رحم کھا کر میرا حصہ میرے حوالے کر دیتی ہیں۔ گاڑی میں سوار جو شخص مجھے خودبخود بھیک دے دیتا ہے۔ مَیں سمجھ جاتا ہوں کہ یا تو یہ شخص کہیں سے تازہ تازہ مال کما کر لایا ہے یا کہیں مال بنانے جا رہا ہے۔ وہ بڑے بڑے لوگ جو مجھے کبھی اپنے گھر میں گُھسنے کی اجازت دینے کے بھی روادار نہیں، وہ مجھے بھیک دینے کے لئے خود چل کر اور اپنا پٹرول صرف کرکے مجھ تک پہنچتے ہیں۔ مجھے یہ حق بھی حاصل ہے کہ اپنے قریب رکنے والی کسی بھی گاڑی میں ”جھاتیاں“ مار سکتا ہوں۔ جھاتیاں مارتے ہوئے مجھے بہت شرم آتی ہے لیکن کیا کروں۔ میرے پیشے کی مجبوری ہے۔ ایک بار  ایک شخص اپنی گاڑی میں میرے جھاتی مارنے پر اتنا سیخ پا ہوا کہ اُس نے گاڑی سے باہر نکل کر مجھے گالیاں دینا شروع کر دیں۔ چاہے میں گداگر ہوں لیکن عزت تو سب کو پیاری ہوتی ہے مگر میں نے صبر اور ضبط کیا۔ اُس کے بعد میں نے اپنی ”پالیسی“ بدل لی۔ اب میں کسی گاڑی میں جھاتی نہیں مارتا۔ میں نے سنا ہے کہ امریکہ میں آپ کی گاڑی کو آپ کے گھر کا درجہ حاصل ہے۔ وہاں کی پولیس بھی آپ کی گاڑی میں آپ کی اجازت کے بغیر جھانک نہیں سکتی لیکن یہ پاکستان ہے، یہاں ہمیں ہر طرح کی آزادی حاصل ہے اور ہم کسی بھی آدمی کے ساتھ کوئی بھی ناانصافی کرنے میں آزاد ہیں۔
ہمارے ہاں جب بھی ٹریفک پولیس کا نیا افسر آتا ہے تو وہ جہاں دوسرے احکامات دیتا ہے اِن میں ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ جو راہوں پر بھیک مانگنے والوں کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ چند روز کے لئے میں بھی اپنے دوسرے ”رفقائے کار“ کی طرح اِدھر اُدھر ہو جاتا ہوں۔ اُس کے بعد پھر وہی چوراہا اور وہی گاڑیاں ہوتی ہیں۔ میں حکمرانوں کا یہ دعویٰ سُن سُن کر تنگ آ چکا ہوں کہ ہم غربت ختم کر دیں گے۔ دل ہی دل میں ہنستا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اگر غربت ختم ہو گئی تو اسلام کے پانچویں رکن زکوٰۃ کا کیا بنے گا؟ چونکہ اسلام کے سارے ارکان  ہمیشہ رہنے کے لئے ہیں اِس لئے ہمارے ہاں غربت بھی ہمیشہ رہے گی۔ غربت رہے گی تو زکوٰۃ ہو گی، اگر تمام لوگ امیر ہو گئے تو وہ زکوٰۃ کِسے دیں گے؟
میں اگرچہ کوئی پڑھا لکھا آدمی نہیں  ہوں لیکن مجھے اپنی ”فن کارانہ“ صلاحیتوں پر بہت اعتماد ہے۔ ہمارے حکمران کشکول اٹھا کر ملکوں ملکوں جاتے ہیں، کبھی اِن کے کشکول میں خیرات پڑ جاتی ہے اور کبھی بابا معاف کرو کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے۔ میری حکمرانوں سے درخواست ہے کہ آپ جب بھی اپنا کشکول لے کر کسی دوسرے ملک جایا کریں تو مجھے بھی ساتھ لے جایا کریں انشاء اللہ! آپ کبھی خالی ہاتھ نہیں آئیں گے آخر تجربہ بھی کوئی چیز ہے۔ جن لوگوں کے سامنے میں دستِ سوال دراز کرتا ہوں اُن سے تو مجھے کوئی گلہ نہیں وہ میری دامے درمے مدد کرتے ہیں لیکن جب میں دامے درمے بینک میں اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرانے جاتا ہوں تو پہلے تو وہاں موجود لوگ مجھے عجیب عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں، پھر یہ کہ کاؤنٹر پر بیٹھا ہُوا کیشیئر بھی میری طرف بار بار یوں دیکھتا ہے جیسے یہ رقم میں چوری کرکے لایا ہوں حالانکہ یہ میری خون پسینے کی کمائی ہوتی ہے۔ گرمی سردی اورآندھی طوفان میں سڑک پر کھڑے ہو کر بھیک مانگنا کوئی آسان کام ہے۔ کسی ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاؤں تو وہاں بھی لوگ مجھے گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔ ایک خیرخواہ کے مشورے پر بینک اور ریسٹورنٹ میں جانے کے لئے میں نے دو تین نئے سوٹ سلوا لیے ہیں۔
آخر میں مجھے ٹریفک پولیس کا شکریہ ادا کرنا ہے کہ اِس کے جوانوں نے کبھی مجھے معروف چوراہوں پر بھیک مانگنے سے نہیں روکاحالانکہ وہ چاہیں تو ٹریفک کے بہاؤ میں خلل ڈالنے کے الزام میں مجھے جیل بھیج سکتے ہیں۔ آخر خدا خوفی بھی تو کوئی چیز ہے، شاید یہ اُن جوانوں کی خداخوفی ہی ہے کہ میں آج بھی اپنے کام میں مصروف ہوں۔

مزید :

رائے -کالم -