چائے کی شاندار ثقافت
ابھی حال ہی میں اکیس مئی کو چائے کا عالمی دن منایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2019 میں ہر سال اکیس مئی کو چائے کے عالمی دن کے موقع پر منانے کا اعلان کیا تھا۔یہ ایک خاص دن ہے جو دنیا بھر میں چائے کی تاریخ اور گہری ثقافتی اور معاشی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پانی کے بعد چائے دنیا میں دوسرا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا مشروب ہے اور اس کی پیداوار اور پروسیسنگ نے انتہائی غربت کے خاتمے، بھوک کے خلاف جنگ، خواتین کو بااختیار بنانے اور زمینی ماحولیاتی نظام کے پائیدار استعمال میں کردار ادا کیا ہے۔ دریں اثنا، دیہی ترقی اور پائیدار معاش کے لئے چائے کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنا اور چائے کی ویلیو چین کو بہتر بنانا پائیدار ترقی کے لئے 2030 کے ایجنڈے کے نفاذ کے مطابق ہے۔
تاریخی اعتبار سے چائے کی پتیاں سب سے پہلے چین میں دریافت کی گئی تھیں۔ وسیع چینی سر زمین پر ہزاروں سالوں سے چائے کی مقبولیت میں کبھی کمی نہیں آئی ہے۔جدید چین میں ، جہاں روزمرہ زندگی کی رفتار تیز سے تیزتر ہوتی جارہی ہے، چائے کے فروغ کو بھی ایک نمایاں قوت ملی ہے۔ منفرد جغرافیائی حالات اور ٹھوس اور گہرے تاریخی ماخذ کی بدولت چین دنیا بھر میں چائے کے اہم پیداواری ممالک میں سے ایک ہے، جہاں چائے کے باغات 32 لاکھ ہیکٹر سے زائد رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور چائے کی پیداوار 30 لاکھ ٹن سے بھی زائد ہے۔ یہ پیمانہ دنیا بھر میں چائے کے تمام باغات کے مجموعی رقبے اور پیداوار کے نصف کے مساوی ہے۔علاوہ ازیں چائے کی کھپت کے لحاظ سے بھی چین سب سے بڑا ملک ہے۔ چین میں چائے کی سالانہ کھپت 23 لاکھ ٹن سے بھی زائد ہے ، جو دنیا کی مجموعی کھپت کا 40 فیصد ہے۔چائے کی فروخت کا حجم 300 بلین یوان تک پہنچ سکتا ہے، جس سے کروڑوں چینی خاندانوں کی پسندیدگی اور مانگ کی عکاسی ہوسکتی ہے۔
یہی وجہ ہےکہ چائے کے عالمی دن کی مناسبت سے چین بھر میں مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔اس حوالے سے چائے کی ثقافتی، سماجی اور معاشی قدر کے بارے میں عوامی شعور اجاگر کرنے کے لیے اسٹیج پرفارمنس، چائے کی ثقافت پر سیمینارز اور نمائشوں سمیت دیگر تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر مہمانوں ، اسکالرز اور غیر مادی ثقافتی ورثے سے وابستہ افراد نے چائے کی ثقافت کی تخلیقی تبدیلی اور ترقی، دیہی زندگی، اور بین الاقوامی سطح پر چائے کی ثقافت کو مقبول بنانے پر وسیع تبادلہ خیال کیا ، جس کا مقصد چین کی طویل المیعاد اور رنگا رنگ چائے کی ثقافت کو غیر معمولی ثقافتی ورثے کے تحفظ اور فروغ کے نقطہ نظر سے ظاہر کرنا ہے۔یہ امر بھی قابل زکر ہے کہ چین کی روایتی چائے پروسیسنگ تکنیک اور اس سے وابستہ سماجی روایات کو اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) کے غیر مادی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔
حالیہ برسوں میں چین میں چائے کی فروخت میں مستحکم طور پر اضافہ جاری ہے۔ملک میں چائے کی بڑی تجارتی منڈیوں کی تعداد تیس سے بھی زائد ہے ، اور جہاں تجارتی حجم 30 ارب سے تجاوز کرچکا ہے۔ صوبہ جہ جیانگ، چائے کی پیداوار کے لحاظ سے نمایاں ترین علاقہ ہے۔ جہاں چائے کا تجارتی حجم ملک کے مجموعی حجم کے نصف سے زائد ہے۔ ای کامرس کی ترقی کے ساتھ چائے کی بہت سی منڈیاں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صارفین کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں تاکہ صارفین آسانی سے اچھی قیمت میں معیاری چائے خریدیں۔حالیہ برسوں میں چین میں چائے کے اہم پیداواری علاقوں میں چائے سے وابستہ سیاحت کو بھی فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ حیاتیاتی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے چائے سے وابستہ سیاحتی پروگراموں میں مستقل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یوں چائے کے باغات نہ صرف چائے کی پیداوار بلکہ تفریح اور سیاحت کے لیے بھی قابل دید مقام بن چکے ہیں۔ چائے کی ثقافت کی نمائش اور چائے سے متعلق معلومات کی فراہمی، ایسی سرگرمیاں لوگوں کو چائے کے بارے میں جاننے کے مواقع فراہم کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ چائے کی چھوٹی پتیوں کی قدر لامحدود ہے۔
چین میں چائے کی یہ چھوٹی سی پتی ، نہ صرف باغات سے کروڑوں گھروں تک پہنچائی جاتی ہے ، بلکہ چین سے دنیا بھر کو بھی جا رہی ہے۔ چین چائے کی برآمد کے لحاظ سے کینیا کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔ حالیہ پانچ سالوں میں چین نے چائے کی برآمد کا پیمانہ 3 لاکھ 5 ہزار ٹن برقرار رکھا ہے۔برآمدی حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور مالیت 2 ارب امریکی ڈالرز سے بھی زائد ہے۔ درجنوں ٹن چائے چین سے دنیا کو فروخت کی جاتی ہے، جن میں سے افریقہ ، ایشیا اور یورپ تین اہم منڈیاں ہیں۔2013 میں چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے "شاہراہ ریشم اقتصادی پٹی " اور 21 ویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ " کی مشترکہ تعمیر کے اہم انیشٹیو پیش کئے تھے۔ اس کی روشنی میں چین اور دی بیلٹ اینڈ روڈ کے رکن ممالک کے درمیان چائے کی تجارت بھی بڑھ رہی ہے۔قدیم زمانے کی شاہراہ ریشم کی پرانی تاریخ نئے عہد میں ایک نئی کہانی بیان کر رہی ہے۔آج چین کی برآمد کردہ چائے کا 25 فیصد دی بیلٹ اینڈ روڈ کے رکن ممالک کو جاتا ہے۔وسیع پیمانے پر چائے کی کاشت ، مشینی چنائی ، بہتر پراسیسنگ اور چائے کی بین الاقوامی فروخت نہ صرف چین کی چائے کی صنعتی جدیدیت کی رفتار کو تیز کر رہی ہے بلکہ نئے دور میں چائے کی ثقافت کو نئی توانائی بھی فراہم کر رہی ہے ، جس سے چائے کے ورثے کو نئی پہچان مل رہی ہے۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔