چھبیسویں آئینی ترمیم: قوم مبارکباد قبول کرے
چھبیسویں آئینی ترمیم کا مرحلہ بخیر و خوبی انجام پا گیا۔ حکمران اتحاد اور پارلیمان کی بالادستی پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں، سیاسی رہنماؤں اور سیاستدانوں نے اس ترمیم کی تیاری، اس کی نوک پلک سنوارنے اور اسے عوامی آدرشوں کے مطابق ڈھالنے میں حصہ لیا۔ پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے آئینی ترمیم کی منظوری میں حصہ لیا۔ صرف تحریک انصاف کے ممبران نے نہ ترمیم کے حق میں اور نہ ہی اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ تحریک انصاف نے بطور سیاسی جماعت انتخاب میں حصہ نہیں لیا، لیکن تحریک انصاف کے آٹھ اراکین نے ترمیم کی منظوری کے لئے اپنا ووٹ ڈالا۔ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جے یو آئی(ف)، مسلم لیگ (ق) و دیگر تمام جماعتوں نے ترمیم کی منظوری کے لئے ووٹ دیا۔ سینیٹ میں بھی ایسا ہی ہوا۔ پی ٹی آئی بطور جماعت، ترمیم کے حوالے سے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے قائدین سے بھی ملاقاتیں کرتی رہی۔ مولانا فضل الرحمن پی ٹی آئی کے ساتھ مسلسل رابطے اور مذاکرے میں رہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت فضل الرحمن کے ذریعے اور ان کے ساتھ مل کر آئینی ترمیم کے تناظر میں سیاست سیاست کھیلتی رہی، لیکن کیونکہ عمران خان بنیادی طور پر دنگا فساد، انتشار اور دشنام کے فروغ کے لئے یکسو ہیں اور وہ اپنی جماعت کی قیادت کو ایسے احکامات بھی دیتے پائے گئے ہیں اس لئے ان سے کسی قسم کی خیر کی توقع رکھنا عبث تھا، یہی وجہ ہے کہ ان ایام کے دوران ان پر کسی قسم کی ملاقاتوں پر پابندی عائد رہی جبکہ ان کی جماعت کی آزاد قیادت کے پاس کیونکہ کوئی مثبت تجویز یا ملک و قوم کی بھلائی کا منصوبہ یا پروگرام ہی نہیں ہوتا اور وہ صرف مرشد کی رہائی کا واویلا مچاتے پائے گئے ہیں۔ ویسے آئینی ترمیم کو 25اکتوبر تک غیر موثر کرانے کے لئے انہوں نے کافی خفیہ و اعلانیہ کاوشیں کیں لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ 25تاریخ تک موخر کرنے کامطلب موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ اور ان کے پسندیدہ جسٹس منصور علی شاہ کی چیف جسٹس کے لئے تقرری تھا۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی ساری حکمت عملی یہی رہی کہ وہ مذاکرات میں شریک رہیں۔ حکومت کو بات چیت میں الجھائیں۔مختلف قسم کی لایعنی تجاویز کے ذریعے پی ٹی آئی کی قیادت نے معاملات کو طول دینے کی حکمت عملی اختیار کی۔ دوسری طرف حکومت اور اس کے اتحادی بالعموم اور پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو بالخصوص ترمیم کو قابل قبول بنانے اور طے شدہ پلان کے مطابق آگے بڑھنے کے لئے سرگرداں رہے۔ پی ٹی آئی اپنی منصوبہ بندی کو کامیاب کرانے کے لئے مولانا فضل الرحمن کے ذریعے مصروف عمل رہی۔ حکمران ترمیم کے لئے مطلوبہ ووٹوں کو جمع تفریق کرنے اور محتاط انداز میں آگے بڑھتے رہے۔ اندر خانے فضل الرحمن اور پی ٹی آئی کے ووٹوں کے بغیر نمبر گیم پوری کرنے کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ حکومت نے سینٹ میں بھی مطلوبہ ووٹ پورے کرلئے اور قومی اسمبلی میں بھی معاملات طے پا گئے۔ اس طرح حکومت آئین میں مطلوبہ ترامیم (26ویں ترمیم کے ذریعے) کرانے میں کامیاب رہی۔
اب ذرا دیکھتے ہیں کہ اس ترمیم کے نتیجے میں فوری طور پر کیا ہونے جا رہا ہے؟ ایک بات تو طے ہو گئی ہے کہ تحریک انصاف کا حمایت یافتہ یا پسندیدہ جج چیف نہیں بنے گا۔ ویسے توجسٹس منصور علی شاہ کے بارے میں عمومی رائے یا تاثربرا نہیں ہے وہ ایک اچھے، محنتی جج مانے جاتے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حمایت اور ان کے مقابل کی مخالفت کرنے کی پالیسی کے باعث ان کے بارے میں تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ تعصب رکھتے ہیں انہوں نے کچھ ایسے فیصلے بھی کئے جس سے ان کے تعصب کا تاثر پختہ ہوا۔ پھرانہوں نے بیان بازی بھی کی جو غیر ضروری تھی جج خود نہیں بولتا بلکہ اس کے فیصلے بولتے ہیں منصور علی شاہ نہ صرف اپنے کچھ فیصلوں میں تحریک انصاف اور عمران خان کے حق میں ایسے بولے کہ ان کا تعصب ظاہر ہوا۔ سونے پر سہاگا عمران خان اور ان کے حواریوں نے منصور علی شاہ کی حمایت کرنا شروع کر دی انہیں اپنا حمایتی کہنا شروع کر دیا اس سے جسٹس منصور علی شاہ کی شخصیت مکمل طور پر جانبدار تصور کی جانے لگی۔ ویسے عمران خان کے بارے میں بھی ایک تاثر بڑا پختہ ہے کہ ”بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہوتا ہے“ کے مصداق، خان صاحب جس کی حمایت کرتے ہیں وہ ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ ان کی حمایت، اس کے جوڑوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ جنرل باجوہ کی مکرر ایکسٹینشن کا معاملہ ہو یا موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کا مسئلہ۔ عمران خان کی جنرل باجوہ کو تاحیات ایکسٹینشن دینے کی پیشکش اور جنرل عاصم منیر کی بطور چیف تعیناتی کی کھل کھلا کر مخالفت، جنرل باجوہ عمران خان کی حمایت کے باوجود چیف نہ رہ سکے اور جنرل عاصم منیر،عمران خان کی مخالفت کے باوجود چیف بن گئےّ جنرل فیض حمید، عمران خان کی آنکھوں کا تارا تھے وہ نہ تو اپنی آئی ایس آئی کے سربراہ کی پوزیشن برقرار رکھے سکے اور نہ ہی چیف بن سکے بلکہ عمران خان کی حمایت انہیں جیل لے جا چکی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو عمران خان اپنے تعصب اور دشمنی کے باعث بطور جج سپریم کورٹ ہی ملازمت سے نکلوانا چاہتے تھے اس کے لئے انہوں نے ریفرنس کا حتمی تیر بھی چلایا لیکن فائز عیسیٰ سرخرو ہوئے اور عمران خان کی تمام تر کاوشوں اور خواہشوں کے برعکس چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے اورمدت ملازمت پوری کرکے 25اکتوبر بروز جمعہ رخصت ہو جائیں گے۔
منصور علی شاہ ایک اچھے،دیانتدار اور محنتی جج ہونے کے باوجود، عمران خان کی محبت اور ان کی حمایت کے باعث اس مقام تک نہیں پہنچ پائیں گے جہاں انہیں پہنچنا تھا۔ منصور علی شاہ نے عمران خان کی محنت میں تعصب کا مظاہرہ کیا، متنازع ہوئے اور عمران خان کی حمایت کے باعث مکمل طور پر جانبداری کے تاثر کا شکار ہوئے۔ چیف جسٹس نہیں بن پائیں گے۔ اگر وہ جانبداری کا مظاہرہ نہ کرتے، عمران خان کھلے عام انہیں اپنا چیف نہ کہتے تو پھر شاید وہ 26اکتوبر بروز ہفتہ چیف جسٹس آف پاکستان ہوتے۔
باقی جہاں تک سوال ہے تحریک انصاف کا تو وہ 26ویں آئینی ترمیم کے عمل کے دوران ایک بار پھر ذلیل و خوار ہوئی ہے جنہیں چور، ڈاکو اور فارم 47کی پیداوار کہتی تھی انہی کے ساتھ مذاکرات کرتی رہی جس مولانا کے خلاف قائدتحریک غلیظ زبان استعمال کرتے تھے اس کے پیچھے تحریکی قائدین صفیں باندھ کر نماز ادا کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ حکومت نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر نہ صرف مطلوبہ ووٹ پورے کئے بلکہ تحریک انصاف کے لوٹوں کو بھی استعمال کیا۔