لاہور کے عالی شان ایوانوں میں وکالت کرتے ہوئے کبھی اپنے پسماندہ گاؤں اور دیہات کو نہیں بھولا، کوشش رہی کہ اس مٹی کا قرض ادا کرتا رہوں 

 لاہور کے عالی شان ایوانوں میں وکالت کرتے ہوئے کبھی اپنے پسماندہ گاؤں اور ...
 لاہور کے عالی شان ایوانوں میں وکالت کرتے ہوئے کبھی اپنے پسماندہ گاؤں اور دیہات کو نہیں بھولا، کوشش رہی کہ اس مٹی کا قرض ادا کرتا رہوں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:32
تعلیمی اداروں کا قیام
لاہور شہر میں ایک وکیل کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے مجھے موقع ملا کہ میں قانون کے طلباء کو تعلیم دینے میں مدد کر سکوں۔ 1984ء سے 1999ء تک میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں جزوقتی پڑھاتا رہا ہوں۔ لاء سے متعلق مختلف مضامین پڑھائے۔ مجھے خوشی ہے کہ میں بڑی تیاری کر کے خلوص دل کے ساتھ طلباء کو ان ہی اصول و ضوابط کے مطابق پڑھاتا رہا جیسا کہ ہم نے انگلینڈ میں لنکنز ان میں اپنے انتہائی قابل اور لائق اساتذہ سے پڑھا تھا۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ طلباء میری محنت اور دل جمعی سے دی گئی تعلیم کا جواب بڑی گرم جوشی سے دیتے رہے اور جو مضامین میں پڑھاتا رہا ان سے استفادہ کرنے والے طلباء کو اُس کی یاد ہمیشہ رہی اور ان کے نتائج بھی بہت حوصلہ افزاء رہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں وکالت کے دوران اور اس کے بعد میری مصروفیات میں مختلف قسم کی سماجی خدمات اور سوشل ورک بھی شامل تھا۔ میں لاہور میں رہتے ہوئے اور یہاں کے عالی شان ایوانوں میں وکالت کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے پس ماندہ گاؤں اور دیہات کو نہیں بھولا۔ مجھے اپنے علاقہ کے رہنے والے محنت کش، کاشت کار، کسان اور کھیت مزدور ہمیشہ یاد رہے اور میری کوشش رہی ہے کہ اپنے معاشرہ کے ان پس ماندہ طبقات کی ترقی اور خوش حالی کے لئے کوئی مؤثر اور دیرپا کردار سرانجام دیا جائے۔ ویسے تو پورے پاکستان کے ہر گاؤں اور پس ماندہ علاقہ کی ترقی و خوشحالی ہماری آپ کی اور سب کی خواہش ہے اور ہم سب کو اس کے لئے حتی المقدور کام کرنا چاہئے اور اگر ہر شخص جو ترقی و خوشحالی کی منازل پر ہو اپنے آبائی علاقہ کی خوشحالی اور ترقی کے لئے بھی کوئی کام کرتا ہے تو اس کا فائدہ پورے ملک کو پہنچتا ہے۔ میں نے ضلع ساہیوال میں موضع ٹھٹھہ بہادر سنگھ کے پرائمری اور قصبہ نور شاہ سے مڈل تک تعلیم حاصل کی۔ نہایت پسماندہ علاقہ ہے میری ہمیشہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ میں اس مٹی کا قرض اور حق جو مجھ پر ہے وہ ادا کرتا رہوں اور اس علاقے کے لئے کوئی فلاحی خدمت سرانجام دوں۔
جس عرصہ میں میں ساہیوال میں وکالت کرتا تھا اس وقت ٹھٹہ بہادر سنگھ میں وہ پرائمری سکول جہاں میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ایک کمرہ اور ایک برآمدہ پر مشتمل تھا۔ کوئی چار دیواری نہیں تھی۔ میں نے اس طرف توجہ کی۔ سکول کے احاطہ میں چند پرانے درخت تھے جو بوسیدہ ہو چکے تھے۔ گاؤں کے لوگ ان کی لکڑیاں توڑ توڑ کر ایندھن کے لئے استعمال کر رہے تھے۔ میں نے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر ساہیوال جاوید احمد قریشی سے رابطہ کیا۔ جو ایک بہت صاف ستھرے سی ایس پی افسر تھے۔ وہ اعلیٰ درجہ کے شاعر اوربڑے ہی معاملہ فہم تھے۔ ان سے میں نے عرض کیا کہ یہ درخت اب ناکارہ ہیں اگر سرکار اجازت دے تو ہم انہیں بیچ دیں اور منصوبہ بندی سے نئے درخت لگا لئے جائیں۔ ان درختوں کو بیچنے سے جو آمدنی ہو گی اس میں کچھ مزید روپے شامل کر کے سکول کی تعمیر و ترقی کے لئے خرچ کر لیا جائے۔ اس تجویز کو جاوید احمد قریشی اور ان کے معاون حکام جن میں جنگلات کے متعلقہ افسر بھی تھے نے بہت پسند کیا۔ جس پر میں نے ڈپٹی کمشنر کا تحریری حکم حاصل کیا اور یہ درخت کٹوا کر نیلام کرا دیئے۔ ان سے جو رقم حاصل ہوئی وہ حوصلہ افزاء تھی میں نے کچھ رقم اپنے عزیز و اقرباء اور علاقہ کے کھاتے پیتے لوگوں سے بطور عطیہ حاصل کی۔ سکول کے دو کمرے، برآمدہ اور چار دیواری تعمیر کرائی۔ سکول کے لئے ایک مضبوط آہنی گیٹ نصب کرایا۔ بچوں کی ضروریات اور پینے کے صاف پانی کے لئے بندوبست کیا۔ سکول میں ٹوائلٹ وغیرہ بھی تعمیر کرایا اس گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کوئی بندوبست نہیں تھا۔ میں نے اس سکول کے قریب ہی ایک رہائشی مکان خرید کر اسے لڑکیوں کا پرائمری سکول بنوا دیا۔ لڑکوں کے پرائمری سکول کو مڈل سکول کا درجہ دلوا دیا۔ حکومت نے اب اس میں چار کمرے مزید بنوائے ہیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -