قاہرہ ایئرپورٹ پر ہوبہو پاکستانی ماحول تھا، ہر طرف افراتفری اور ہاہا کار مچی تھی، امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچنے کیلئے ہر کسی کو اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنا پڑتا تھا

قاہرہ ایئرپورٹ پر ہوبہو پاکستانی ماحول تھا، ہر طرف افراتفری اور ہاہا کار مچی ...
قاہرہ ایئرپورٹ پر ہوبہو پاکستانی ماحول تھا، ہر طرف افراتفری اور ہاہا کار مچی تھی، امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچنے کیلئے ہر کسی کو اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنا پڑتا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:9
کوئی تین چار گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد جہاز گھوما، اس کی رفتار کم ہوئی اور وہ قاہرہ شہر کے اوپر سے ایک چکر لگا کر آہستگی سے رن وے پر جا اُترا۔ قاہرہ ایئرپورٹ پر ہوبہو پاکستانی ماحول تھا۔ ہر طرف افراتفری اور ہاہا کار مچی ہوئی تھی اور یہاں بھی قطار کا کوئی تصور نہ تھا۔ امیگریشن کاؤنٹر تک پہنچنے کے لیے ہر کسی کو اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنا پڑتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں سے سب سے آخر میں فارغ ہونے والا شخص یا تو انتہائی کمزور ہوتا تھا یا بے حد صابر و شاکر اور شریف انسان، جس کو قطار میں کھڑا ہونے کے باوجود پلے پلائے مصری ڈشکرے ہر بار بے دخل کر کے پیچھے بھیج دیتے تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم غیر ملکیوں کا کاؤنٹر وہاں سے تھوڑا ہٹ کر تھا، ویسے بھی وہ مہمانوں کے ساتھ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آ رہے تھے۔ ملکی قانون کے تحت تمام غیر ملکیوں کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنے ساتھ لائی جانے والی غیر ملکی کرنسی میں سے کم از کم 200 ڈالر ایئرپورٹ پر واقع سرکاری بینک سے تبدیل کرائیں۔ جہاں 100   ڈالرکے بدلے اسے صرف 60 پاؤنڈ دیئے جاتے تھے جبکہ باہر منی چینجرز سے پاؤنڈ خریدنے پر اس کے بدلے پورے 110 ملتے تھے۔ گویا خسارہ سیدھا سیدھا 100 پاؤنڈ کا تھا جو اس وقت مصری معیار کے مطابق ایک بڑی رقم ہوتی تھی۔ ان کا نظام اتنا مؤثر تھا کہ سرکاری بینک کی رسید دکھائے بغیر غیر ملکی مسافر ایئرپورٹ سے باہر ہی نہیں نکل سکتے تھے۔ گویا یہ شہر میں داخلے کا اجازت نامہ تھا۔ اس ساری کارروائی میں کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تو لگ گیا ہوگا۔ پھرہوٹلوں اور پرائیویٹ گاڑیوں کے دلالوں سے بچتا بچاتا میں باہر نکل آیا۔ گھوم کر ایئرپورٹ کی عمارت کو ایک نظر دیکھا تو ذرا بھی مزہ نہ آیا۔ یہ ایک پرانی اور سادہ سی عمارت تھی جس کا سیمنٹ اُدھڑ رہا تھا اور رنگ بھی جگہ جگہ سے جھڑ رہا تھا۔ سیکیورٹی کے نام پر وہاں سفید وردی میں ملبوس ڈھیلے ڈھالے چند پولیس والے مصری مسافروں کو معنی خیز نظروں سے گھور رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح ان سے پیسے بٹور رہے تھے۔
شہر خموشاں 
باہر ٹیکسیوں کی ایک طویل قطار مسافروں کی منتظر تھی۔ میرے حصے میں ایک موٹا سا باتونی ٹیکسی ڈرائیور آیا۔ جو باقاعدگی سے انگریزی کے کچھ الفاظ بول کر اپنے آپ کو اس کام کا اہل ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اپنی دانست میں مجھ جیسے بے علم کو اپنے بے فیض علم سے مسلسل فیض یاب کر رہا تھا۔
میں نے اسے پرچی تھما دی جس پر اس ہوٹل کا پتہ درج تھا جہاں راویہ نے اپنے ذرائع سے میرے لیے رہائش کا بندوبست کیا ہوا تھا۔ اس نے دیکھ کر اپنا سر ہلایا اور دروازہ کھول کر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا، ساتھ ہی ایک اچھی خاصی رقم بطور معاوضہ طلب کرلی۔ میں بڑی عاجزی سے تھوڑی بہت رعایت کا طالب ہوا تو اس نے ترس کھا کرایک د م مطلوبہ رقم نصف کر دی جو غالباً مناسب کرایہ تھا۔ایسی دریا دلی کا ثبوت یا تو کوئی انتہائی دریا دل شخص ہی دے سکتا تھا، یا پھر بے حد پہنچا ہوا شاطر۔میں نے شک کا فائدہ دیتے ہوئے اسے دوسری کیٹگری میں ہی رکھا، کیونکہ ضرورت سے کہیں زیادہ بولنے کے علاوہ اس کی آنکھیں بھی مسلسل ناچ رہی تھیں۔
ایئرپورٹ کی رونقیں کم ہوتی گئیں اور اب گاڑی قاہرہ کے مضافاتی علاقے میں سے گزر کرفراٹے بھرتی ہوئی اپنی منزل کی طرف بھاگی چلی جا رہی تھی۔ پہلی نظر میں قاہرہ مجھے بھوتوں کا ہی کوئی شہر نظر آیا۔ جس میں سوائے اینٹوں اور سیمنٹ کی عمارتوں کے کچھ نظر نہ آتا تھا اور یہ عمارتیں بھی وقت کیساتھ ساتھ سیاہی مائل ہوگئی تھیں۔ بے ترتیبی سے بنے ہوئے مکانوں پر مشتمل بل کھاتے محلوں میں لوگ اِدھر سے اُدھر دوڑتے پھر رہے تھے اور یوں زندگی کے رواں دواں ہونے کا تاثر دیا جا رہا تھا۔ (جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -