صاحب کو بہت سی خصوصیات اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھیں، آبائی گھرہر لحاظ سے وسیع تھا،منشی جی سارے کاروبار کا حساب کتاب رکھتے تھے

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:298
دھمیال ہاؤس؛
صاحب کا آبائی گھرہر لحاظ سے وسیع گھر تھا۔ڈیرہ اور صاحب کی رہائش گاہ جس کے ہمسائے ایک طرف ان کے سگے چھوٹے بھائی راجہ ناصر کی رہائش تھی تو سامنے ان کے تایا زاد بھائی راجہ حامد نواز کا وسیع و عریض بنگلہ تھا۔ یہ ان کے پر کھوں کی جگہ تھی۔ ان کی کو ٹھی سے آ بائی گاؤں دھمیال پانچ سات کلو میٹر کی دوری پر تھا جہاں ان کا خاندان ابتداء سے ہی آباد تھا۔ ان کی ہمشیرہ، بھانجے، کزن، وغیرہ ابھی بھی گاؤں میں ہی رہتے تھے اور آپس میں ان کی محبت اور بھائی چارہ مثالی تھا۔ صاحب کا سبھی بہت احترام کرتے کہ وہ خاندان کے بڑے تھے۔ وہ بھی اپنے بھائیوں سے مشورہ سے ہی فیصلے کرتے تھے۔
منشی جی صاحب(سبھی بھائیوں) کے سارے کاروبار کا حساب کتاب رکھتے تھے۔ کس کو خرچے کے کتنے پیسے دینے ہیں، بل، سبزی گوشت وغیرہ۔ وہ گھر کے فنانس سیکرٹری تھے۔ یہ دوسری نسل تھی جو دھمیال کے راجگان کی خدمت میں لگی تھی۔ اس سے پہلے منشی جی کے والد راجہ لال خاں کے منشی تھے۔ راجہ لال خان علاقے کی معزز اور ہر دلعزیزشخصیت تھے۔ بہت عرصہ کینٹ بورڈ کے ممبر رہے۔ وہ شاندار انسان اپنی رحم دلی اور شرافت کی وجہ سے علاقے میں خوب جانے جاتے تھے۔ صاحب کو بہت سی خصوصیات اپنے والد سے ورثہ میں ملی تھیں۔
دھمیال ہاؤس کا ایک کردار نوید بڑا معصوم اور سیدھا سادہ نوجوان تھا۔ یہ صاحب کے چھوٹے بھائی راجہ ناصر کا سیکرٹری تھا۔ اس کی بچگانہ اور معصوم حرکتیں محفل کو کشت زعفران بنا دیتی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ دنیا داری کے داؤ پیچ سیکھ گیا۔ مشہود کے نشانے پر رہتا۔ مسکراتا چہرہ، وفاداری اور مروت اسے دوسروں سے منفرد کرتی تھی۔ یہ آج بھی راجہ ناصر کے ساتھ اپنی وفاداری اور ذمہ داری خوش اسلو بی سے نبھا رہا ہے۔ اللہ اسے خوش رکھے۔ آمین۔ اس سے کبھی کبھار رابطہ ہو جا تا ہے۔یہاں ایک اور نوجوان راشد کا ذکر کرنا بھی لازمی ہے کہ یہ بڑا ambitiousخوش پوش، خوش گفتار، بااعتماد، مسکراتا چہرہ تھا۔2001ء کے الیکشن کے دوران صاحب سے متعارف ہوا۔ صاحب اپنے آبائی حلقے سے الیکشن ہار گئے تھے۔ بعد میں ضمنی الیکشن میں پرویز الٰہی کی گجرات سے چھوڑی سیٹ سے منتخب ہو ئے اور اسی شام وزیر بلدیات اور قانون پنجاب کا حلف اٹھایا۔منتخب ہو نے سے پہلے صاحب مشیر قانون تھے۔ پرویز الٰہی نے گجرات کے عوام کو ضمنی الیکشن میں ”راجہ بشارت میرا چوتھا بھائی ہے“ کہہ کر اپنی اور صاحب کی قربت پر مہر ثبت کر دی تھی۔راشد نے بڑی جلدی ترقی کی منزلیں طے کیں۔ راشد نے اپنی خوش خلقی اور رکھ رکھاؤ سے جنرنیلوں اور افسر شاہی تک میل ملا پ اور اپنا مقام بنا لیا۔ شاید اسے کسی حاسد کی بری نظر لگی۔ افسوس چکوال سے راولپنڈی آتے ہوئے کار حادثہ میں ہلاک ہو گیا اور پیچھے اپنی خوش کن یادیں چھوڑ گیا۔ اللہ اُس کی لحد کو منور کرے۔ آمین۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔