کتاب کا عالمی دن
کتاب کی اہمیت ہر دور اور ہر خطہ میں مسلم ہے علم دوست معاشروں میں کتب بینی کا رواج عام ہوتا ہے اور جن معاشروں کے اذہان بوسیدہ ہو جاتے ہیں وہاں کتب بینی کا رجحان ختم ہونے لگتا ہے کتب بینی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو نے 1995ء میں ہر سال 23 اپریل کو جملہ حقوق محفوظ بنانے کا دن منانے کا فیصلہ کیا۔
اس دن کو منتخب کرنے کی وجہ ولیم شیکسپیئر کی برسی اور دیگر مصنفین کا یوم پیدائش یا یوم وفات تھا دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں کتاب کے عالمی دن کے طور پر ہی منایا جاتا ہے پاکستان میں بھی کتابوں کا عالمی دن 23 اپریل کو ہی منایا جاتا ہے مگر یہاں اس دن کی پذیرائی یورپ اور امریکہ کی طرح نہیں ہوتی یہ دن سوائے چند ادبی حلقوں جیسا کہ قائد اعظم لائبریری، گورنمنٹ پنجاب پبلک لائبریری، پاک ٹی ہاؤس الحمراء، پیلاک اور ایوان اقبال کے اور خبروں میں بحیثیت خبر نشر کرنے سے زیادہ نہیں منایا جاتا۔
اس لئے یہ کہنا بے جا نا ہوگا کہ یہ دن خاموشی سے گزر جاتا ہے حکومتی سطح پر اس دن کی پذیرائی نہ ہونا بھی اس کے خاموشی سے گزر جانے کی ایک وجہ ہے۔
کتاب انسانی زندگی کا لازمی جز وہے جو اس کی ذہنی استعداد اور صلاحیتوں کو ابھارتی ہے انسان کی سوچوں کو وسعت دیتی ہے اور غور و فکر کے نئے در کھولتی ہے یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے کہ کتب بینوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ مہنگائی جبکہ دوسری اہم وجہ کتابوں کی آن لائن موبائل اور انٹرنیٹ پر دستیابی ہے اس کے ساتھ ساتھ دور جدید میں ای بک ریڈر کنڈل Kindal جیسی ڈیوائس بھی کتابوں کو خریدنے میں کمی کا باعث ہے۔ کیونکہ کنڈل میں بیک وقت پانچ ہزار کتابیں آسکتی ہیں جس طرح انٹرنیٹ کا عروج خطوط و رسائل کے ذریعے پر حاوی ہو گیا ہے اسی طرح کتابوں کی رونمائی، نمائش اور اشاعت میں کمی آتی جا رہی ہے یہ بات بھی حقیقت ہے کہ موضوع اچھا ہو تو کتاب اپنی طرف توجہ مبذول کرا لیتی ہے پاکستان میں شاعری کی کتب زیادہ شائع ہوتی ہیں جبکہ سنجیدہ موضوعات پر کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بھی کم ہے تحقیقی موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کی اتنی پذیرائی نہیں ہے فلسفہ، تاریخ، نفسیات، اور سائنس پر لکھی گئی کتابیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
صرف چند ادارے جن میں اردو سائنس بورڈ اور پاکستان سائنس اور ٹیکنالوجی انفارمیشن سنٹر وغیرہ شامل ہیں کتابوں کی اشاعت میں خاطر خواہ کام کر رہے ہیں زیادہ تر بین الاقوامی مصنفین کی کتب ہی کے تراجم شائع کر دیئے جاتے ہیں ان کتابوں کے نوٹ یا خلاصے بنا کر طلبہ کی آسانی اور کاروباری مفاد کے لئے کم قیمت پر مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں اس طرح کے مواد کی دستیابی سے طلبہ میں بھی کتب بینی کے رجحان میں کمی آئی ہے۔
پاکستان میں کتاب لکھنا ایک مشکل عمل بن چکا ہے اور اس سے بھی مشکل اس کتاب کو شائع کروانا ہے۔ عمومی مشاہدہ ہے اگر کسی نے کتاب لکھ لی ہے تو وہ کتاب یا تو بطور تحفہ دی جاتی ہے یا مصنف سے مانگ لی جاتی ہے اس رویئے سے کتاب کے مصنف کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے یہ رواج مصنفین اور کتب کے ساتھ نا انصافی ہے کتابوں کی اشاعت میں کمی کا اثر اس طرح پڑا ہے بہت سے ناشرین اس کاروبار کو بند کر چکے ہیں لاہور کے رہنے والوں کے لئے مال روڈ پر فیروز سنز کی دکان اہم مرکز تھی جو کہ کتب بینی کا شوق معدوم ہوتے ہی بند ہو گئی ہے وطن عزیز میں جید مصنفین اور ادیبوں کی کمی نہیں مگر ان کو مواقع اور وسائل فراہم نہیں کئے جا رہے۔
پاکستان کا عمومی ماحول کتب بینی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں ایک عالم کی عزت میں بھی بے پناہ کمی آئی ہے دوسری طرف صاحب علم بے روز گار ہیں اور بحیثیت قوم ہم اتنا ذوق نہیں رکھتے کہ کتابوں کا مطالعہ کرنے کے لئے وقت نکالیں۔ اس لئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ادبی محفلوں کے انعقاد میں خاطر خواہ کمی آ چکی ہے۔
بحیثیت قوم ہماری کتابوں سے دوری کی بڑی وجوہات غربت بے روز گاری اور شرح خواندگی میں کمی ہے۔ لوگوں کی ترجیحات میں کتب کی خریداری یا کتابوں کی نمائش دیکھنے کا شوق نسبتاً کم ہے آج سے پندرہ بیس سال پہلے تو کتب بینی ایک قابل ذکر عادت تھی لوگوں میں مطالعہ کا شوق تھا اکثر دوران سفر لوگوں کے ہاتھوں میں کتابیں نظر آ جاتی تھیں ایک دور میں بذریعہ ریلوے سفر کرتے ہوئے یہ نظارے تو دیکھے گئے مگر اب ایسا کوئی مسافر شاذو نادر ہی نظر آتا ہے جو کتاب ہاتھ میں لئے پڑھ رہا ہو۔ ریلوے اسٹیشن اور بسوں کے اڈوں پر اخبار و رسائل اور کتب کی دکانیں بکثرت موجود ہوا کرتی تھیں جو اب ناپید ہو چکی ہیں اس کی وجہ ہاتھوں میں موبائل فون کی موجودگی کو بھی کہا جا سکتا ہے جو دوران سفر مسافروں کا دل بہلانے کا سبب بن چکے ہیں۔ اب کتابوں کی جگہ مسافروں کے ہمسفر موبائل فون ہو چکے ہیں۔
کتب بینی کی روایت معدوم ہونے کی بہت سی وجوہات میں قابل ذکر وجہ حکومت کی عدم توجہی بھی قراردی جا سکتی ہے ایک دور تھا جب گلی محلوں میں چھوٹے چھوٹے کتب خانے موجود ہوا کرتے تھے جو اب تقریباً معدوم ہو چکے ہیں عوامی لائبریریوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئی ہے بڑے شہروں میں ابھی بھی بہت شاندار لائبریریاں ہیں مگر چھوٹے شہروں میں ایسی سہولیات کم میسر ہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے نیز کتابوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لئے موثر قوانین کی تشکیل بھی ضروری ہے اس امر پر زور دیا جانا چاہئے کہ سکول کالجوں کی سطح پر کتابوں کی نمائش کا اہتمام کیا جائے جس میں اس بات کو مد نظر رکھا جائے کہ بچے با آسانی اپنی جیب خرچ سے کتابیں خرید سکیں تاکہ ان میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو۔
عالمی یوم کتاب کو منانے کا مقصد معاشرے میں کتب بینی اور علم کو عام کرنا ہے، اس کے رجحان کو فروغ دینا ہے اس سلسلے میں یہ ضروری امر ہے کہ اس دن کو حکومتی سطح پر منایا جائے۔ خاص طور پر ڈیجیٹل دور میں پیدا ہونے والی نسل کو کتاب کی اہمیت سے روشناس کرانا ضروری ہے بحیثیت قوم یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو کتب بینی کا عادی بنائیں تاکہ عہد رفتہ کی اس روایت کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے جب انفرادی، اجتماعی اور قومی سطح پر ادبی و علمی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ ادبی تقریبات یا کتب کی نمائش کو سالانہ سطح پر کرنے کی بجائے انہیں تین یا چھ ماہ کے وقفے کے بعد منعقد کیا جانا چاہئے اور اس طرح کہ تقریبات کی خاطر خواہ تشہیر کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت یقینی ہو۔ کتب بینی کے شوق کو تسکین دینے کے لئے لائبریریز کے استعمال کو فروغ دینا بہت ضروری ہے تاکہ کتب بینی کے شائقین کو مہنگی اور نایاب کتابوں تک با آسانی رسائی حاصل ہو۔ ان سب تجاویز پر عمل درآمد ضروری ہے کیونکہ کتاب دوست قوم ہی ترقی کے زینے طے کر سکتی ہے۔