ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔ ۔ ۔ آخری قسط
تحریر: پیر ابونعمان
حضرت اخندزادہ مبارکؒ کے فیضان کی بدولت بہت سے ناقصاں بھی پیرکامل بن گئے۔ شریعت مطہرہ پر عمل کر کے انہوں نے طریقت کا مقام بلند کر دیا۔ حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی اپنے پیرومرشد حضرت پیر محمد عابد سیفی کی راہنمائی میں حضرت اخندزادہ مبارکؒ کی خدمت میں پیش ہوتے اور آپؒ کی توجہات سے مستفیض ہوتے رہے، اس وقت آپؒ کی شفقت سے جو ذکر حاصل ہوا، اسے عام کرنے میں حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی نے روز و شب ایک کر دئیے۔
حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی کا کہنا ہے کہ ’’حضرت مبارکؒ کے فیضان نے ہمیں ذکر کی نعمت سے مالامال کیا تو آج اس ذکرکا ذکر عام ہوچکاہے۔ یہ بدعقیدہ اور گمراہ مسلمانوں کو بھی لگ چکا ہے اور وہ توبہ کر کے راہ راست پر آ گئے ہیں۔ اس ذکر کے اعجاز و عرفان کے سامنے بہت سے غیر مسلموں نے بھی سر جھکا دئیے اور کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنی عاقبت بچا لی۔ جو لوگ درودسلام کی اہمیت نہیں سمجھتے تھے انہیں حضرت مبارکؒ کے عطا کردہ ذکر نے اپنا ذاکر بنا لیااور وہ بھی محسن کائنات رسول عربیﷺ پر درودسلام بھیجنے والوں میں شامل ہوگئے ۔ پچھلے ماہ شیخوپورہ میں ایک عیسائی خاندان ذکر کی محفل میں آیا اور وجدوحال، استغفراق و کیفیات اور مشاہدات باطنی دیکھنے کے بعد کلمہ پڑھنے پر مجبور ہو گیا۔ اخبارات و ٹی وی میڈیا میں ان کے تاثرات بھی دئیے گئے کہ کیا وجہ تھی کہ عیسائی خاندان کو ذکر قلبی لگ گیا تو وہ اپنے ذہنوں کو بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ اسی طرح ہندوستان سے آئے ہوئے ایک عامل سکھ کی حالت بگڑ گئی تو اسے میرے پاس لایا گیا۔ وہ کالے عملیات کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ شیطانی کاموں کے رسیا پر کوئی عمل الٹا پڑ گیا تو اس کی جان پر بن گئی۔ میرے پاس آیا تو اس وقت اس نے پورے بدن پر منکوں والی مالائیں پہن رکھی تھیں۔ اس کے پورے بدن سے بو آ رہی تھی۔ میں نے اس کا علاج کیا تو وہ توبہ کرنے پر مجبور ہو گیا اور اس نے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں نے اسے غسل کرایا اور وضو کے بعد کلمہ طیبہ پڑھایا پھر ذکر و توجہ سے اس کے باطن کو صاف کیا تو اس کی حالت چند گھنٹوں میں ہی بحال ہو گئی۔ اس نے بہت سے لوگوں کی زندگیاں اجاڑی تھیں مگر اب اس کا کفارہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ بھارت واپس جانے سے پہلے اس نے عہد کیا کہ وہ حضرت مبارکؒ کے اس ذکر کی نعمت کا پرچار کرے گا اور اس سے اپنا تعلق مضبوط تر کرے گا۔
ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 13 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرے پاس حضرت مبارکؒ کے محبوب خلیفہ حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی کے عطا کردہ فیضان وعلوم کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے پاس جو کچھ ہے وہ اس ذکر کی دولت میں ہے۔ اس دولت نے ہمارے سینوں کو خزانۂ نور سے روشناس کرایا اور اسی کی بدولت اللہ تعالٰی ہم پر رحم فرماتا اور اپنے مشائخ کی لاج رکھ لیتا ہے‘‘
حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی کے حسن و اخلاق اور صوفیانہ طریق کی وجہ سے دوسرے سلاسل کے جیّد علما و مشائخ اور اساتذہ بھی انکے حلقہ ارادت میں شامل ہیں اور اکثر ان کی زیارت کیلئے حاضر ہوتے ہیں۔ علامہ قاری محمد طارق چشتی گولڑوی خوشاب میں دربار بادشاہاں میں محکمہ اوقات کے مدرس ہیں۔ وہ قاری محمد نواز سیالوی کے بھی استاد ہیں اور ہزاروں معروف علماء نے ان سے تدریس حاصل کی ہے۔ ان کا ایک بڑا حوالہ استاذالعلما عطا اللہ بندیالوی ہیں۔ استاذالعلما عطا اللہ بندیالوی اپنے عہد کے ممتاز ترین عالم دین تھے۔ انہوں نے پچاس ساٹھ سال تک بندیال شریف، سیال شریف، گولڑہ شریف اور فیصل آباد میں بحیثیت مدرس ایسے نابغہ علماء و پیران عظام کو پڑھایا تھا جو آج بہت شہرہ رکھتے ہیں۔ آپ کے شاگردوں میں حضرت پیر خواجہ حمید الدین سیالوی، مولانا غلام حسین تونسوی، غلام محمد اشرف سیالوی، حضرت پیر محمد عابد حسین سیفی، علامہ مقصود احمد قادری (داتا دربار والے) جیسی بے شمار شخصیات موجود ہیں جنہوں نے اپنے عہد کی ممتاز مذہبی شخصیت سے اکتساب فیض پایا۔ استاذالعلما عطا اللہ بندیالوی گولڑہ شریف کے مرید تھے۔ حضرت پیر سید نصیر الدین نصیرؒ نے ان کے احترام میں ایک کوٹھی وقف کر دی تھی جہاں وہ قیام کرتے تو ان کے دنیا بھر میں پھیلے شاگرد اور علماء وہاں حاضر ہوتے۔ حضرت سید مہر علی شاہؒ تاجدار گولڑہ شریف کے صاحبزادہ حضرت لالہ جی بھی استاذالعلما عطا اللہ بندیالوی کا بے حد احترام کرتے اور ان سے ملاقات کیلئے ان کی قیام گاہ میں تشریف لے جاتے تھے۔
علامہ قاری محمد طارق چشتی گولڑوی اسی عظیم ہستی کے شاگرد اور عزیز ہیں۔ علامہ صاحب کی نانی اور استاذالعلما عطا اللہ بندیالوی خالہ زاد تھے جبکہ علامہ قاری محمد طارق چشتی گولڑوی کے ماموں استاذالعلما عطا اللہ بندیالوی کے داماد ہیں۔
ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ علامہ قاری محمد طارق چشتی گولڑوی حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی سے ملاقات کیلئے حسنین آباد تشریف لائے ہیں تو مجھے بھی اس عظیم خانوادہ کے عالی مرتبت عالم دین سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ علامہ قاری محمد طارق چشتی گولڑوی نے حضرت پیر محمد رمضان رضوی سیفی سے ملاقاتوں کے حوالے سے بتایا ’’میں برسوں سے پیر صاحب کا قدر دان ہوں۔ اللہ نے انہیں بہت اعلٰی اخلاق اور سادگی عطا کی ہے۔ ان کا روحانی مقام بلاشبہ بہت افضل ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ پیر صاحب غریبوں، مسکینوں ، سائلین اور طالب علموں کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ میں ان کے علوم معرفت کا مداح ہوں اور اگر کبھی ضرورت محسوس ہو تو ان سے استخارہ وغیرہ کیلئے بھی رابطہ کرتا ہوں۔ پیر صاحب نے دنیا سے کچھ نہیں مانگا اور صرف اپنے اللہ اور اپنے مشائخ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔اسکے طفیل انہیں بے شمار نعمتیں حاصل ہو گئی ہیں، میری دعا ہے اللہ کریم اس فقیر اور درویش کو دین کی خدمت کیلئے صحت و وسائل عطا فرمائیں۔ ختم شد