یہ بیٹے ہم نے دفنائے نہیں ہیں۔۔۔
کسی سے جیت کر آئے نہیں ہیں
کسی نے ہار پہنائے نہیں ہیں
کھلونے دے کے بہلائے نہیں ہیں
یہ بیٹے ہم نے دفنائے نہیں ہیں
لہو سے لال خود ہی ہو گئے ہیں
یہ کپڑے ہم نے رنگوائے نہیں ہیں
سمجھے ہیں یہ خود میری کہانی
یہ بچے میں نے سمجھائے نہیں ہیں
جو لکھا ہے وہ کاغذ نے پڑھا ہے
کسی کے کان تو کھائے نہیں ہیں
ابھی مت بالیاں تم لے کے آنا
ابھی یہ کان چھدوائے نہیں ہیں
جنہوں نے پیڑ سارے کاٹ ڈالے
وہ کہتے ہیں کہیں سائے نہیں ہیں
جو دھوکے ملتے ہیں سب لڑکیوں کو
وہ دھوکے آپ نے کھائے نہیں ہیں
یہ سارے پھول قدرت کی عطا ہیں
یہ غنچے تم نے مہکائے نہیں ہیں
یہ زیور پھول اور پیلے دوپٹے
تمہاری سمت سے آئے نہیں ہیں
بنارس سے جو تم لے کے تھے آئے
وہ میں نے سوٹ سلوائے نہیں ہیں
تمہیں پا کر بھی کچھ پایا نہیں تھا
تمہیں کھو کر بھی پچھتائے نہیں ہیں
جو آنسو ہجر میں تیرے بہائیں
وہ آنسو آنکھ میں آئے نہیں ہیں
صدا ہو گی کسی کی سسکیوں کی
یہ کنگن میں نے کھنکائے نہیں ہیں
ابھی روشن ہیں میری دونوں آنکھیں
ابھی یہ چاند گہنائے نہیں ہیں
عدالت نے سزا ان کو سنائی
مگر وہ پھر بھی شرمائے نہیں ہیں
وہ روئے ہیں مری بے چارگی پر
اگرچہ نیک ہمسائے نہیں ہیں
جنہیں سن کر میں پھر ہو جاؤں زندہ
کسی نے گیت وہ گائے نہیں ہیں
جو چھلنی کر دیں گے سینہ تمہارا
وہ میں نے تیر برسائے نہیں ہیں
شکایت جن کی تم سے کررہی ہوں
تو کیا وہ تیرے ماں جائے نہیں ہیں
وہ جو ناسور اب تک بن چکے ہیں
تمہیں وہ زخم دکھلائے نہیں ہیں
کلام :ثمینہ رحمت منال