یہ بیٹے ہم نے دفنائے نہیں ہیں۔۔۔

یہ بیٹے ہم نے دفنائے نہیں ہیں۔۔۔
یہ بیٹے ہم نے دفنائے نہیں ہیں۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کسی سے جیت کر آئے نہیں ہیں
کسی نے ہار پہنائے نہیں ہیں

کھلونے دے کے بہلائے نہیں ہیں 
یہ بیٹے ہم نے دفنائے نہیں ہیں

لہو سے لال خود ہی ہو گئے ہیں
یہ کپڑے ہم نے رنگوائے نہیں ہیں

 سمجھے ہیں یہ خود  میری کہانی
یہ بچے میں نے سمجھائے نہیں ہیں

جو لکھا ہے وہ کاغذ نے پڑھا ہے
کسی کے کان تو کھائے نہیں ہیں

ابھی مت بالیاں تم لے کے آنا
ابھی یہ کان چھدوائے نہیں ہیں

جنہوں نے پیڑ سارے کاٹ ڈالے
وہ کہتے ہیں کہیں سائے نہیں ہیں

جو دھوکے ملتے ہیں سب لڑکیوں کو
وہ دھوکے آپ نے کھائے نہیں ہیں

یہ سارے پھول قدرت کی عطا ہیں
یہ غنچے تم نے مہکائے نہیں ہیں

یہ زیور پھول اور پیلے دوپٹے
تمہاری سمت  سے آئے نہیں ہیں

بنارس سے جو تم لے کے تھے آئے
وہ میں نے سوٹ سلوائے نہیں ہیں

تمہیں پا کر بھی کچھ پایا نہیں تھا
تمہیں کھو کر بھی پچھتائے نہیں ہیں

جو آنسو ہجر میں تیرے بہائیں
وہ آنسو آنکھ میں آئے نہیں ہیں

صدا ہو گی کسی کی سسکیوں کی 
یہ کنگن میں نے کھنکائے نہیں ہیں

ابھی روشن ہیں میری دونوں آنکھیں 
ابھی یہ چاند گہنائے نہیں ہیں

عدالت نے سزا ان کو سنائی 
مگر وہ پھر بھی شرمائے نہیں ہیں

وہ روئے ہیں مری بے چارگی پر
اگرچہ نیک ہمسائے نہیں ہیں

جنہیں سن کر میں پھر ہو جاؤں زندہ
کسی نے گیت وہ گائے نہیں ہیں

جو چھلنی کر دیں گے سینہ تمہارا
وہ میں نے تیر برسائے نہیں ہیں

شکایت جن کی تم سے کررہی ہوں
تو کیا وہ تیرے ماں جائے نہیں ہیں

وہ جو ناسور اب تک بن چکے ہیں
تمہیں وہ زخم دکھلائے نہیں ہیں 

کلام :ثمینہ رحمت منال

مزید :

شاعری -