”دِل کی تال پر رقصِ خیال“
آج سے تقریباً پندرہ بیس سال پہلے میرا صوفی تبسم پر مضمون مقامی اخبار کی زینت بنا، یہ میرا صوفی تبسم کے حالاتِ زندگی پر پہلا مضمون تھا جس کی تعریف میرے والد صوفی گلزار احمد نے کی تھی۔ اسی دن صبح سویرے میں گھر کے فون کی گھنٹی بجی اور ریڈیو کی پروڈیوسر عبیدہ نے کہا مبارک ہو، آپ کا مضمون بہت اچھا ہے تم نے تو ہم سب کو صوفی صاحب یاد کروا دیئے۔ انہوں نے بہت سی شخصیات کے نام بھی بتائے کہ سب نے مجھے فون کئے ہیں اور کہا ہے کہ صوفی تبسم کی پوتی کی یہ ایک اچھی کاوش ہے انہی لوگوں میں انہوں نے ناصر رضوی صاحب کا بھی ذکر کیا۔ان دنوں میں ریڈیو پاکستان لاہور میں براڈ کاسٹر کے طور پر پاسبان فوجی بھائیوں کا پروگرام کررہی تھی۔ کچھ ہی دن میں جب عبیدہ سے ریڈیو پاکستان لاہور میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے اسی مضمون کی کٹنگ میرے ہاتھ میں تھما دی اور کہا کہ ناصر رضوی صاحب جن کی صوفی تبسم سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں آپ سے ملاقات بھی کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے مضمون بغور دیکھا تو لکھا تھا مضمون بہت اچھا ہے صوفی تبسم صاحب پر ایک عرصہ بعد اچھا مضمون پڑھنے کو ملا اس سلسلہ کو جاری رکھئے گا۔
ناصر رضوی صاحب سے یہ میرا پہلا تعارف تھا پھر اچانک ایک دن ان سے ریڈیو پاکستان میں عبیدہ کے آفس میں ہی ملاقات ہو گئی، یوں ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا اور پھر ناصر رضوی صاحب سے اکثر ریڈیو پر ہی ملاقات ہو جاتی۔ ناصر زیدی ریڈیو پاکستان کے معروف شاعر ہیں ان کے گیت، ملی نغمے اور غزلیں ملک کے معروف گلوکار خوبصورت دھنوں میں گاتے اور فضاؤں میں بکھیرتے ہیں ان کے نغموں کا ایک زمانہ گرویدہ ہے۔ ان دنوں ان کی والدہ حیات تھیں اور نزاکت خانم صاحبہ سے مل کر بھی مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ مجھے یہ جان کربھی بے حدخوشی ہوئی کہ ان کی والدہ نزاکت خانم اور ان کی خالہ رضیہ خانم صوفی تبسم کی شاگرد ہیں اور اس پر دونوں بہنوں کو بہت فخر ہے۔ ناصر رضوی مجھے اکثر بتاتے کہ میں نے بھی صوفی تبسم کی زندگی میں ان سے بہت استفادہ کیا وہ شاعری کے رموز مجھے بہت پیارے سے سمجھاتے تھے۔ ان سے علم و ادب پر بات چیت رہتی اور وہ شاعری کے رموز بہت آسانی سے سمجھا دیتے تھے جس کا مجھے آج بھی فائدہ ہوتا ہے میرے ذہن سے ان کی یادیں کبھی محو نہیں ہوئیں۔ یوں ان کی ان یادوں کو باتوں کی ایسی تاثیر تھی کہ ہماری گفتگو طویل تر ہونے لگی۔
ناصر رضوی یوں تو واپڈا کے ڈائریکٹر جنرل کے پی آر او تھے مگر ادب کا شغف رکھنے کی وجہ سے اکثر ملاقاتیں رہتیں، پھر ہماری اس بزم میں انتظار حسین بھی اس علمی ادبی گفتگو میں ہمارے ساتھ شریک ہونے لگے اور مجھ جیسے نالائقوں کی جھولی میں علمی خزانے ڈال دیئے۔
ناصر رضوی میرے ان ہمعصر شعراء میں سے ہیں جنہیں ہم نے مشاعروں میں کم کم ہی سنا ہے مگر ان کے گیت، ملی نغموں اور غزلوں کو سادہ آواز کے ساتھ ریڈیو پر ہی سنا ہے اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ انہیں دنیاوی شہرت سے زیادہ اپنے کام اور کلام سے بہت محبت ہے۔ میں نے جب بھی ان کا کلام پڑھا مجھے ہربار ان کے ایک ایک مصرعے نے چونکا دیا۔ ہم دوستوں نے کئی بار ان سے کلام کے یکجا کرنے اور چھپوانے پر اصرار کیا مگر وہ آفس کی مصروفیات کا ایسا ذکر فرماتے کہ ہم خاموش ہو جاتے ہمیں ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اس معاملے میں لاپرواہ ہیں آج کے اس نفسانفسی کے دور میں جب بھی کوئی شاعر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو اپنی لکھی کتاب وہ چھپوا کر بغل میں دبائے حاضر ہوتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ اس کا اپنا کلام ہے یانہیں۔ بات یہاں تک ختم نہیں ہوتی ہمارے اپنے ٹیلی ویژن، ریڈیو اور بہت سے فیسٹیولز پر بھی ایسے بہت سے شاعر شاعروں میں دیکھے جاتے ہیں۔
آج خوش قسمتی سے ناصر رضوی کا کلام حرف و صدا کے شعری مجموعے کی صورت میں میرے سامنے ہے جو ان کے گیتوں، ملی نغموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ناصر رضوی نے اپنے کلام کو حرف و صدا کے علامتی پیکر میں شعر بند کیا ہے اور اکثر جگہوں پر قلم سے موئے قلم کا کام لیا ہے۔ ناصر رضوی شعور اور آگہی کا نمائندہ شاعر ہے وہ انسانی معاشرے کے حسنِ فطرت کے رویوں کوسمیٹ کر بیان کرتے ہیں۔ ان کا ایک گیت ملاحظہ ہو:
دنیاکی حقیقت اتنی ہے یہ حرص و ہوا کا ڈیرا ہے
سب اپنی غرض کے بندے ہیں کوئی میرا ہے تیرا ہے
ہے مہر و وفا اک افسانہ اور پیار بھی ایک کہانی ہے
یہ دنیا آنی جانی ہے
ان کے گیتوں میں دیپک راگ، سُر، بہار، چھن چھن پائل، رنگ، موسم، ہوا،کوئل، ندیا، جھرنے، رم جھم، پھول خوشبو نے ان کے کلام میں سوز و ساز کی کیفیات کو جنم دیا ہے دراصل ان کا کلام دل کی تان پر رقص خیال ہی تو ہے
رنگ ہوا خوشبو ہریالی
کوکتی کوئل ڈالی ڈالی
ہر منظر شاداب
دھندلے سے کچھ خواب
ناصر رضوی صاحب کے ملی نغموں میں پاکستان کی سوندی سوندی مٹی کی خوشبو ہے انہیں جذبات و احساسات کی سچائی اور بے ساختہ منظر نامہ پیش کرنے کا قرینہ آتا ہے جو ان کی بے پایاں تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرتی ہے۔
ملی نغمی ملاحظہ ہو:
اونچے اونچے پربت اس کی موجیں بہتے دریا
لہراتے بل کھاتے جنگل پھول کھلاتے صحرا
سبز دنوں، رنگوں کا مسکن خوشبوؤں کا گہوارا
ہم کو اپنی جان سے پیارا پاکستان ہمارا
ناصر رضوی کی غزلوں میں ایک مسلسل تلاش اور پیہم جستجو ہے:
گھبرانہ ساخت کی طوالت سے خطر سے
رستے کے ہر ایک موڑ پر منزل کا نشان دیکھ
وہ دوستوں کی پہچان کچھ یوں رکھتے ہیں:
دشمنوں کی خیر مانگو وہ کھلے دشمن تو ہیں
پیٹھ میں خنجر لگے تو دوستوں کو دیکھنا
ان کی غزلوں کی زبان نہایت سلیس، دلکش اور شیریں ہے:
یہ صوت و صدا کا ہی تناسب نہیں ناصر
کچھ اور مراحل بھی ہیں نعمات کے پیچھے
ناصر رضوی کے ہاں داخلی کرب کی کہانی بھی ہے وہ خلش، غم و یاس کی کیفیات سے بھی گزرتے ہیں:
در قفس کا تو رکھ کھلا ضیاد
کہ اسیر انتقال کرتے ہیں
عام قاری کی حیثیت سے ناصر رضوی کی شاعری کی کتاب ”حرف و صدا“ پڑھنے کے بعد ان کے اشعار نے دل کو چھوا اور ان کے احساسات کو کس طرح محسوس کیابیان کردیا کالم کا اختتام ان کے اس شعر پر کرتی ہوں
آدم اور اتنا بے مول دیکھ مگر شرماتا جا
ناصر آج نہیں تیرا کل کی آس لگاتا جا