معلوماتی سفرنامہ۔۔۔بائیسویں قسط
اومنی میکس تھیٹر
اومنی میکس تھیٹر، انٹاریو سائنس سنٹر کا ایک حصہ ہے۔ یہاں آئی میکس(IMAX) فارمٹ میں فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔یہ دور جدید کی ایک ایسی ایجاد ہے جس میں دیکھنے والا حقیقت سے زیادہ حقیقی چیزدیکھتا ہے۔ اس میں نت نئی اختراعات ہورہی ہیں جس کی بنا پر دیکھنے والوں کا لطف بڑھتا چلا جارہا ہے۔مثلاََ ’’تھری ڈی ‘‘ اثرات سے دیکھنے والا یہ تاثر لیتا ہے کہ اسکرین پر جو کچھ نظر آرہا ہے وہ حقیقی زندگی کی طرح سہ جہتی ہے۔ ایک اختراع یہ بھی ہوتی ہے کہ اسکرین گنبد کی طرح بنایا جاتا ہے ۔ یہاں پر ایسا ہی کیا گیا تھا۔
پندرہ ملین ڈالر سے تعمیر شدہ یہ تھیڑ 320سیٹوں پر مشتمل ہے۔یہ سیٹیں عام سینماکی طرح افقی سمت میں اوپر اٹھتی چلی گئی ہیں۔اسکا اسکرین عام ٹی وی سے 4500گنا بڑا ہے جو دیکھنے والوں کے دائیں بائیں، اوپر اور سامنے سب جگہ پھیلا ہے۔ سکرین کاقطر 24میٹر ہے۔اس پر نظر آنے والی تصویر آخری حد تک واضح اور شفاف ہوتی ہے۔ ساؤنڈ سسٹم کو اسکرین کے ساتھ متعلق کرنے کے لیے چھ اسپیکر اسکرین کے اندر اس طرح لگائے گئے ہیں کہ یہ فلم چلتے وقت نظر نہیں آتے ۔ مگر تاثر سو فیصد یہی بنتا ہے کہ آواز اسکرین سے آرہی ہے۔ نیو یارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں بھی MAX)ٰI) تھیٹر موجود تھا مگر میں اس کے بجائے اسپیس شو میں گیا تھا۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔اکیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سولر میکس (Solar Max)
یہاں سارا دن وقفے وقفے سے مختلف فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ اس وقت دو فلمیں دکھائی جانی تھیں۔ پہلی فلم سولر میکس تھی جو سورج سے متعلق تھی۔ سورج جو ہماری زمین کے لیے روشنی، حرارت اور توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، ہر دور میں انسانوں کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے۔زمانۂ قدیم سے اسے بہت بڑا دیوتا مانا گیا ہے ۔ جاپان میں توآج تک بادشاہ کو سورج دیوتا کی اولاد یا اوتار مانا جاتا ہے۔ ماہ و سال کی گردش سے لے کر تہواروں تک میں سورج کا کردار بنیادی رہا ہے۔ فلم میں ان تمام پہلوؤں کے ساتھ ساتھ دورِ جدید میں سورج پر کی جانے والی تحقیقات کا بھی احاطہ کیا گیاتھا۔ مثلاً سورج پر اٹھنے والے مقناطیسی طوفان وغیرہ۔ یہ بتایا گیا کہ زمین کے ارد گرد ایسا مدافعتی نظام موجود ہے جو ان طوفانوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ دیگر ستاروں پر ایسے طوفان اٹھتے ہیں کہ اگر وہ سورج پر اٹھیں تو زمین کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے۔ مگر خو ش قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔
فلم میں سورج کے بالکل قریبی اور حقیقی مناظر بھی دکھائے گئے۔ سورج سے اٹھنے والے آگ کے شعلوں کی ہیبت ناکی کو (IMAX) کے انتہائی تاثر انگیز ماحول نے بہت دہشتناک بنادیا تھا۔میں چونکہ معروف معنوں میں تفریحاًفلم دیکھنے نہیں آیا تھا اس لیے فلم دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے غور و فکر کے عمل کو بھی جاری رکھا۔ مجھے اندازہ ہو اکہ دورِ قدیم میں سورج پرستی کے اثرات کتنے ہمہ گیر تھے۔ ان کی ہی بنا پر سورج چڑھنے کے اوقات میں کوئی نماز نہیں رکھی گئی۔ نیز سورج طلوع و غروب کے وقت ساری نمازیں ممنوع ہیں۔ سورج کا قریبی منظر دیکھتے ہوئے اندازہ ہوا کہ جہنم کی آگ کتنی شدید ہوگی جس کی دھمکی قرآن میں اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کو جگہ جگہ دی گئی ہے۔ یہ فلم عام ٹی وی پر شاید اتنی مؤثر نہ ہوتی مگر (IMAX) کے ماحول نے اس کی تاثیر کو کئی گنا بڑھادیا تھا۔
انسان کا سفر(Journey of Man)
دوسری فلم انسان کے بارے میں تھی۔ اس میں انسانیت کا تہذیبی ارتقا ایک تمثیل کی شکل میں دکھایا گیا تھا۔ انسان کو ایک بچے سے ادھیڑ عمر شخص تک پہنچتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس پوری فلم کی تھیم وہی تھی جس کو میں امریکا کے سفر میں نیچرل ہسٹری میوزیم کے تذکرے میں زیرِ بحث لاچکا ہوں۔ اس پر مجھے جو کچھ تنقید کرنی تھی میں وہاں کرچکا۔ جن قارئین کے ذہن میں وہ تازہ نہ ہو اسے ایک دفعہ پھر دیکھ لیں۔ بہرحال فلم کا خلاصہ یہ تھا کہ انسان نے نامعلوم سے اپنا سفر شروع کیا۔ پانی سے اس کی زندگی کی تخلیق ہوئی۔ پھر وہ جنگلوں میں آن بسا۔بچپن میں خوف وانبساط کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس نے جنگلوں میں اپنا وقت گزارا۔ اس سے مراد دورِ وحشت یا دورِ شکار تھا۔ نوعمری کا زمانہ اس نے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں گزارا۔ وہ تحیر ، تجسس اور دریافت کی وادیوں میں گھومتا رہا۔ اشارہ زراعتی دور کی طرف تھا۔ اور آخر میں اس نے تہذیب و تمدن کا موجودہ محل تعمیر کرلیا۔ یعنی اس نے موجو دہ صنعتی دور میں قدم رکھ دیا۔ اس پورے عرصے میں میرے ذہن میں وہ شعر گھومتا رہا جسے پیچھے بھی نقل کرچکا ہوں۔
سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
یہ تو سائنس کا حال ہے۔ اگر فلسفے کی بھول بھلیوں پر مبنی کوئی فلم بنتی تو شعر میں بس اتنافرق پڑتا۔
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا سوال کہ ہم ہیں تو یہ بھی کیا معلوم
خوش قسمتی اور اتفاق
میں اس سوچ پر تنقید کرچکا ہوں۔ البتہ ایک اور پہلو پر یہاں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ خدا کا انکارکرکے یا اس سے اعراض کرکے انسان کی جو بھی کہانی بنائی جائے گی اس میں دو پہلو بڑے نمایاں نظر آئیں گے۔ ایک اتفاق اور دوسرا خوش قسمتی۔ ان دونوں فلمو ں میں ان الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا گیا تھا۔ میں انسان کی اس کہانی کو جو ارتقا کے نام پر پیش کی جاتی ہے ہمیشہ سائنس فکشن کہتا ہوں۔ ایک ایسی فلم جس کا اسکرپٹ مصنف نے گھر بیٹھے ناظرین کے ذہن اور خواہشات کے مطابق لکھ دیا۔ اس فلم کی طرح جس میں ہیرو اتفاقات اور خوش قسمتی کے سہارے اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔مگر ان واقعات کا حقائق کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس دور میں انسانوں کی جو کہانی ، انکار خدا کے بعد گھڑی گئی ہے، وہ بھی پورے طور پر ایک ایسی ہی کہانی ہے۔ اس میں زندگی قدم قدم پر بخت واتفاق کی سیڑھیاں چڑھتی اور خوش قسمتی کے موڑ مڑتی نظر آتی ہے۔ اس کہانی کا کل پیغام یہ ہے کہ ہم زمین کے باشندے ہیں جن کا سلسلۂ نسب جانوروں سے ہوتا ہوا ایٹموں تک جاپہنچتا ہے۔ آج ہم کسی ستارے میں موجود ایٹم نہیں جیتے جاگتے انسان ہیں ؛ تہذیب وتمدن تخلیق کرنے والے، احساس و شعور رکھنے والے، فکر و تدبر کرنے والے، ایجادودریافت کرنے والے، تو اس کی دو ہی وجوہات ہیں۔ اول اتفاق اوردوسری خوش قسمتی۔
یہ محض ایک اتفاق ہے کہ سورج ہم سے ایک خاص فاصلے پر ہے، یہ محض ایک اتفاق ہے کہ زمین پر پانی پایا جاتا ہے، یہ محض ایک اتفاق ہے کہ فضا میں آکسیجن موجود ہے، یہ محض ایک اتفاق ہے کہ اس دنیا میں دن و رات کا سلسلہ قائم ہے، یہ محض ہماری خوش قسمتی ہے کہ انسانوں میں مرد وزن ایک خاص تناسب سے پیدا ہوتے ہیں، یہ محض ہماری خوش قسمتی ہے کہ انسان صاحبِ عقل و شعور ہستی ہے، یہ محض ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس دنیا کی ہر چیز آخری حد تک اسی اعتبار سے بنی ہے جیسی ہمارے وجود کی ضروریات ہیں۔ یہ اور ان جیسے انگنت اتفاقات ہیں جواگر نہ ہوتے تو کارخانۂ ہستی وجود میں نہیں آتا اور آجاتا تو برقرار نہ رہ پاتا۔ یہ واقعہ ہے کہ جس طرح اتفاق اور خوش قسمتی کے الفاظ اس کہانی میں استعمال ہوتے ہیں، اس کے بعد لغت میں ان کے معنی بدل دینے چاہییں۔
مجھے خیال آیا کہ میں اس عظیم الشان میوزیم پر ایک فلم بناؤں۔ جس میں دکھاؤں کہ یہ ایک عظیم الشان سائنسی مرکز ہے۔ جو اتفاق سے اس شاندار عمارت میں قائم ہے۔ اتفاق سے عمارت میں کئی بڑے بڑے ہال وجود میں آگئے۔ خوش قسمتی سے وہاں روشنی اور پانی کا بھی انتظام ہوگیا۔خوش قسمتی سے وہاں واش رومز بھی ہیں۔ اور اتفاق سے سائنس کا شاہکار یہ تھیٹر بھی یہاں بن گیا ہے۔ پھر یہ فلم اسی تھیٹر میں سارے سائنسدانوں اور ملحدوں کو بٹھاکر دکھاؤں اور کہوں کہ اب فرمائیے آپ کا کیا خیال ہے۔ مگر پھر خیال آیا کہ اس طرح کے سنٹروں میں داخل ہونے سے پہلے ٹکٹ لینا پڑتا ہے اور اندر داخل ہوتے وقت اسے چیک کیا جاتا ہے۔اس کے بغیرکسی کواندر داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جس سے پتا چل جاتا ہے کہ یہ اتفاق نہیں ہے۔مگر خدا نے جو عظیم الشان کائنات بنائی ہے اس کا ٹکٹ لینا ضروری تو ہے مگر یہ اس وقت چیک ہوتا ہے جب آنے والا جانے لگتا ہے۔ یہاں قرآن کا کاؤنٹر بناہوا ہے۔ جہاں بڑا بڑا لکھا ہوا ہے کہ ایمان و عمل صالح کا ٹکٹ لیے بغیر یہاں گھومنے پر سزا ہے۔ مگر وہ لوگ جن کی پیشانی پر مادیت کی صرف ایک آنکھ بنی ہوئی ہے وہ اس کی حقانیت پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔ وہ دل جو پتھرکے ہوچکے ہیں، یہاں سے لوٹتے وقت ان کا انجام وہی آگ ہوگی جو سورج میں دہک رہی ہے۔ جو دل آج پگھلنے کے لیے تیار نہیں وہ کل اس آگ میں موم کی طرح پگھلیں گے۔ جو آج خدا کے منکر ہیں وہ کل خدا کو ضرور مانیں گے۔ آہ مگر اب مانا تو کیا مانا۔ اب جانا تو کیا جانا۔اب سمجھا تو کیا سمجھا۔ ٹکٹ خریدنے کا وقت تو گزر گیا۔ ہاں ایک بات اور بھی ہے جس کا فیصلہ میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ آپ ان لوگوں کے لیے کیاسزا تجویز کرتے ہیں جنہیں ٹکٹ کاؤنٹر پر ٹکٹ بیچنے کی ذمہ داری کے ساتھ کھڑا کیا گیا تھا مگر وہ کاؤنٹر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ پہلوں کے لیے اگر آگ ہے تو دوسروں کے لیے پھول کیوں ہوں گے؟
سائنس سنٹر
سائنس سنٹر دیکھنے کے لیے کافی عرصے بعد آناہوا۔ لیکن ترتیب برقرار رکھنے کے لیے یہیں تذکرہ کررہا ہوں۔ اس وقت تک گرمیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں اس لیے کافی رش تھا۔شام چھ بجے یہ سنٹر بند ہوجا تا ہے اور اس وقت تین بج رہے تھے۔ میں ٹکٹ خرید کر اندر داخل ہوا۔ اس سنٹر کے کئی فلور تھے۔ گراؤنڈ فلور بی تھا۔اس سے اوپر اے تھا۔ جبکہ نیچے زیرِ زمین سی، ڈی اور ای فلور تھے۔ میں یہ خیال کررہا تھا کہ یہ نیویارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم جیسی ہی چیز ہوگی۔ مگر اندازہ ہوا کہ یہ ایک بالکل مختلف نوعیت کی جگہ ہے۔اُس میں معلومات کا عنصر زیادہ تھا۔ لاتعداد اشیا نمائش کے لیے رکھی ہوئی تھیں جبکہ یہاں سائنسی حقائق کو عملی انداز میں تجربات کے ذریعے واضح کیا گیا تھا۔ مثلاً نیوٹن کے قوانین ، آواز کا خلا میں ختم ہوجانا، ساؤنڈ پروف کمرے کی ٹیکنیک وغیرہ۔
اندر داخل ہوا توسب سے پہلے ایک طویل راہداری تھی۔جس میں زمین کے ابتدائی دورکے پتھر رکھے ہوئے تھے۔ سب سے قدیم پتھر چار اعشاریہ چھ بلین سال پراناتھا۔ اس کے بعد بتدریج نئے اور بعد میں تشکیل پانے والے پتھر زمانی ترتیب کے حساب سے رکھے ہوئے تھے۔ اس راہداری میں چلتے ہوئے مجھے اندازہ ہوا کہ خدا اس دنیا کی زندگی کو کیوں اتنا مختصر کہتا ہے۔جہاں اربوں سال کی کوئی اہمیت نہیں وہاں ساٹھ ستر سال کی انسانی زندگی کی کیا اہمیت ہے۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں اپنی اس مختصر زندگی کو اربوں سال پر محیط کرلوں۔ چنانچہ اربوں سال پرانے ان پتھروں کو میں نے خدا کی توحید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی اپنی شہادت پر گواہ ٹھہرالیا۔ مجھے امید ہے کہ کل قیامت کے دن میرے ایمان کی زندگی اربوں سال پر محیط ہوجائے گی۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)