6 دریاؤں کے خوبصورت ملاپ نے بحری سفر کو سہل بنا دیا،کراچی سے ملتان کا دریائی سفر40 دن میں مکمل ہوتا تھا، مسافر اپنا راشن وغیرہ ساتھ ہی لاتے تھے
مصنف:محمدسعیدجاوید
قسط:18
ان سب دریاؤں کا ذکر کرتے وقت میں نے قصداً ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے کیوں کہ 1960ء کے سندھ طاس کے ایک معاہدے کے بعد سب کچھ ویسا نہیں رہا۔دریائے بیاس تو تقسیم ہند سے قبل پاکستانی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا تھا۔ پھر اس معاہدے کے مطابق پاکستان کو2 دریا یعنی راوی اور ستلج کلی طور پر ہندوستان کے حوالے کرنا پڑے تھے اور پاکستان کے حصے میں آنے والے تیسرے دریا یعنی چناب میں سے بھی وہ آبنوشی اور بجلی گھروں کے لئے حسب ضرورت پانی لے سکتا تھا۔ اس شق کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس نے دریائے چناب پر بے شمار چھوٹے بڑے ڈیم اور بندتعمیر کر کے اْن کا پانی ہندوستان میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اب عملی طور پر 6میں سے صرف 2دریا یعنی جہلم اور سندھ پاکستان کے پاس ہیں اور چناب کا پانی بھی ہندوستان کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔پاکستان نے ان بچ جانے والے دریاؤں میں سے بڑی بڑی رابطہ نہریں نکال کر چناب، راوی اور ستلج کوبہت کم پانی کیساتھ رواں دواں تو رکھا ہوا ہے،لیکن پانی کی اس کمی کے باعث دریاؤں کی رونقیں بھی اب قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔
بحر کیف 6 دریاؤں کے اس خوبصورت ملاپ نے بحری سفر کو بہت سہل بنا دیا تھا۔اْس وقت ان سارے دریاؤں کے راستے میں کہیں بھی کوئی پْل، ڈیم، بیراج یا ایسا کوئی مقام نہیں آتا تھا جو ان جہازوں اور سٹیمروں کے راستے میں رکاوٹ بنتا۔ اس لیے یہ آزادانہ طور پر سب دریاؤں میں گھومتے پھرتے تھے۔
کراچی سے ملتان کے لیے آتا ہوا جہاز کوٹ مٹھن کے پاس اپنا روایتی دریائے سندھ والا راستہ چھوڑ کر ستلج کی طرف مڑ جاتا اور پھرکچھ دور اور چل کر پنجند کے قریب دریائے چناب میں داخل ہو جاتاتھا اور اسی میں سفر کرتا ہوا بالآخر ملتان کے مضافات میں شیر شاہ کی بندرگاہ پر پہنچ جاتا تھا۔ ملتان سے سامان چھکڑوں اور بیل گاڑیوں وغیرہ پر لاہور اور بعد ازاں دہلی کی طرف روانہ کر دیا جاتا تھا۔ بعد میں جب لاہور اور ملتان کے درمیان ریل کی پٹری بچھا دی گئی تو سامان کی ترسیل بھی قدرے سہل ہو گئی۔
کراچی سے ملتان کا یہ دریائی سفر کوئی 40 دن میں مکمل ہوتا تھا۔ اس لیے اس کے مسافر اپنا دالیں، آٹا، چاول اور راشن وغیرہ ساتھ ہی لاتے تھے اور بوقت ضرورت دریا کنارے بسے ہوئے شہروں اور قصبوں سے بھی خریداری کر لیتے تھے۔ دریا میں تیرتے پھرتے چھوٹی کشتیوں والے بھی ان کو ضرورت کا سامان فروخت کر دیا کرتے تھے۔یہیں پنجند ہی سے تھوڑا آگے سے یہ سٹیمر اور جہاز براہ راست لاہور جا سکتے تھے۔ دریائے جہلم، ستلج اور بیاس وغیرہ میں بھی یہیں سے داخل ہوا جا سکتا تھا اور ان دریاؤں کے کنارے واقع شہروں تک پہنچا جا سکتا تھا۔ ایک مربوط نظام کے تحت یہ سٹیمر اور جہاز مختلف منازل کی طرف سفر کرتے تھے۔ تاہم اگر کسی جہاز یا سٹیمر نے دریائے سندھ میں سے ہوتے ہوئے اٹک کی طرف جانا ہوتا تھا تو وہ کوٹ مٹھن سے سیدھا اس دریا میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے وہاں تک جا پہنچتے تھے۔ اٹک کا علاقہ مکھڈ اس دریا پر آخری بندرگاہ تھی کیونکہ اس سے آگے دریائے سندھ کے ساتھ دریائے کابل اور کئی چھوٹے بڑے دریا آ کر ملتے تھے اس لیے پہاڑوں سے نیچے آتے ہوئے پانی کا بہاؤ بہت شدید ہوتا تھا اور پھرپہاڑی چٹانوں کی وجہ سے اس طرف جہاز رانی ممکن بھی نہ تھی۔ اس لیے ہموار سفر اٹک تک ہی محدود رہتا تھا۔گویا اس وقت تک دریائی سفر کے ذریعے کراچی سے ملتان، لاہور، بہاولپور، جہلم اور اٹک وغیرہ تک با آسانی پہنچا جا سکتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔