”صحیح کیا ہے؟“اس کا اطمینان بخش جواب کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا،آپ جذباتی طو رپر خود سے کیسے نمٹتے ہیں،یہ ذاتی صلاحیتوں کا بہت بڑا امتحان ہے

 ”صحیح کیا ہے؟“اس کا اطمینان بخش جواب کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا،آپ جذباتی ...
 ”صحیح کیا ہے؟“اس کا اطمینان بخش جواب کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا،آپ جذباتی طو رپر خود سے کیسے نمٹتے ہیں،یہ ذاتی صلاحیتوں کا بہت بڑا امتحان ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:ڈاکٹر وائن ڈبلیو ڈائر 
ترجمہ:ریاض محمود انجم
 قسط:119
یہ اندازفکر کس قدر مختلف، نیا اور اچھا ہے۔ اگر آپ اپنے پسندیدہ لباس خرید لیتے ہیں تو پھر آپ کا یہ طرزعمل اس لباس کو زیب تن کرنے کے عمل سے کس قدر مختلف (بلاشبہ اچھا نہیں) ہے جب آپ بیکار، فضول اور اپنی ذات کی بے توقیری پر مشتمل ”صحیح یا غلط“ کے جال سے آزاد ہو جاتے ہیں تو پھر آپ محسوس کریں گے کہ تو پھر آپ کی طرف سے فیصلہ سازی کا مرحلہ اس امر کو متعین کرنے کا مرحلہ ثابت ہو گا کہ آپ اپنے موجودہ لمحات (حال) میں اپنے لیے کس قسم کے نتائج چاہتے ہیں اور پھر اگر آپ معذرت اور افسوس کو وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھنے کے فیصلے کے ذریعے اپنے فیصلوں پر معذرت اور افسوس کا اظہار کرنے کے بجائے ایک مختلف فیصلہ کرنے کا عزم کر لیتے ہیں جو آپ کے پہلے فیصلے کی نسبت آپ کے لیے مطلوبہ نتائج آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے لیکن آپ کو چاہیے کہ اپنے اس فیصلے کو ”صحیح یا غلط“ کے تناظر میں نہ دیکھیں۔
کوئی بھی کام کسی طرح بھی کم اہمیت اور بے وقعت نہیں ہے۔ ایک بچہ جو سیپیاں جمع کرتا ہے وہ صحیح یا غلط سے قطع نظر اسی طرح کام کر رہا ہے جس طرح ایک مشہور صنعتکار اپنے کام کے بارے بڑے اور اہم فیصلے کرتا ہے۔ ان دونوں کی سرگرمیوں میں کام کی نوعیت کا فرق ہے۔
ممکن ہے کہ آپ یہ سمجھتے ہوں کہ غلط نظریات و خیالات برے ہوتے ہیں جبکہ صحیح نظریات و خیالات کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ شاید اپنے بچوں، دوستوں یا شریک حیات کے ساتھ آپ یہ کہیں: ”اگر اس کام کو صحیح نہ کہا جائے یا صحیح طو رپر نہ کیا جائے تو یہ اس قابل نہیں کہ اس کے متعلق ذکر کیا جائے یا اسے انجام دیا جائے۔“ لیکن آپ کے اس روئیے میں بھی خطرہ موجود ہے۔ جب ہم تحکمانہ انداز کو قومی یا بین الاقوامی تناظر میں دیکھیں گے تو یہ انداز مطلق العنانیت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ ”صحیح کیا ہے؟“ اس کا فیصلہ کون کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مناسب اوراطمینان بخش جواب کبھی بھی نہیں دیا جا سکتا۔ قانون یہ فیصلہ نہیں کرتا کہ یہ غلط ہے لیکن وہ اس کی قانونی حیثیت کے متعلق ضرور فیصلہ کرتا ہے۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرا جان سٹوارٹ مل نے "On Liberty" کے موضوع پر لکھتے ہوئے یہ دعویٰ کیا:
”ہم کبھی بھی پُریقین نہیں ہو سکتے کہ ہم جس رائے کے ساتھ اختلاف کر رہے ہیں، ایک غلط رائے اور رویہ ہے اور اگر ہمیں یہ یقین ہوتا تو اختلاف رائے ایک بُری چیز ہوتی۔“
ایک انسان کی حیثیت سے آپ کی افادیت کا تعین آپ کی صحیح فیصلہ سازی کے ذریعے نہیں ہوتا۔ کسی فیصلہ سازی کے بعد آپ جذباتی طو رپر خود سے کیسے نمٹتے ہیں، آپ کے موجودہ لمحے (حال) میں ذاتی صلاحیتوں کا کہیں بہت بڑا امتحان ہے کیونکہ ایک صحیح فیصلہ ان ”کاش، اگر، مگر اور چاہیے“ پر مشتمل ہوتا ہے جسے آپ خود سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ اب دو امور کے متعلق سوچ وبچار مفید ثابت ہو گی…… یعنی پہلے یہ کہ آپ وہ احمقانہ ”اگر، مگر، کاش اور چاہیے“ ترک کر دیں گے اور زیادہ سے زیادہ حقیقت پسندہو جائیں گے اور دوسرے آپ ”غلط یا صحیح“ پر مبنی حال / پھندے سے آزاد ہو کر فیصلہ سازی کو اپنے لیے بہت کم مشکل پائیں گے۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -