سیاسی توازن اور گڈ گورننس (حصہ پنجم)

سیاسی توازن اور گڈ گورننس (حصہ پنجم)
سیاسی توازن اور گڈ گورننس (حصہ پنجم)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

   اگر آپ کو  موقع ملے تو۔مریخ مشن  کے چھ سو ساٹھ  فائنالسٹ  میں کچھ کے انٹرویوز  پڑھیے گا۔ یہ مشن ون  وے ٹریول ٹو مریخ ہے۔ مریخ کے یہ مسافر واپس نہیں آئیں گے۔ مریخ پر  زندگی گزاریں  گے  اور مریخ  پر مریں گے۔ ایک خاتون کہتی ہیں کہ جب اسے  ایراق سے اپنی فیملی چھوڑ کر جو شاید جنگ میں سرواییو نہیں کرسکی۔ امریکہ جانا  پڑا ہے تو اب فرق نہیں پڑتا کہ وہ  مریخ پر چلی جاے اور وہاں پر مرے اور  ڈسپوز کی جاے۔
 ایک دوسرے صاحب کہتے ہیں کیونکہ انہیں بچپن سے ہی والدین نے چھوڑ  دیا تھا اور  انکی زندگی میں محبت کبھی آئی ہی نہیں اور موصوف کو یقین ہے کہ محبت اس کی زندگی اب کبھی نہیں آے گی۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مریخ  پر جاے اور  وہیں اس کا  اختتام ہو۔ ایک تیسرے صاحب نے کہا کہ اس زمین پر مشکلات اس قدر  زیادہ  ہوگئی ہیں اور  اتنے مسائل ہیں کہ اسے یقین ہے کہ ان مسائل کا  تدارک نا ممکن ہے۔ اس لیے موصوف کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مریخ کے لیے ون وے سفر کرے اور  وہیں پر اسکی  وفات ہو۔ہاں اپنے سیارے سے ہجرت کرنا تکلیف دہ بات ہے۔ اپنے گھر کو  اچھا نہیں رکھیں گے تو ایک دن آپکو وہ گھر چھوڑنا ہوگا۔ یہ ملک آپکا گھر ہے۔ ہمارا ملک ہے۔ آئیے کوشش کریں جو چلے گیے وہ  واپس آئیں جو جانے کے لیے بے چین ہیں وہ  اپنا  ارادہ  ترک کردیں۔

سیاست پر بات کرنا کتنا مشکل ہوچلا ہے وطن عزیز  میں۔کیا سامعین  اور قارئین بے چین ہیں کہ آپکی سیاسی راے کو ایک باکس میں ڈال  کر اس  پر مہر لگائیں کہ آپ فلاں سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ فلاں شخصیت کے زیادہ قریب ہیں اور یہ کہ آپکی بات یا  نقطہ نظر فلاں کیٹاگیری میں آتی ہے۔ ہم آپکو پورے یقین سے بتاتے ہیں کہ جو لوگ دوسرے سیاروں پر چلے گیے ہیں۔ وہ  ان سیاروں پر رہنے اور  انکو دیکھنے کے بعد اپنے پچھے سیارے سے بہت مخلص ہیں اور  انہیں کچھ زیادہ نہیں چاہیے اپنے پچھلے سیارے سے۔نہ تو وہ  زیادہ  پچھلے سیارے کے اندر موجود  پاور گیم کا حصہ بننے کے خواہاں ہوتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے اس پاور گیم میں پڑنا انکے لیے ایک مشغلہ تو ہوسکتا ہے لیکن انکے لیے کوئی بڑی فائدہ مند چیز نہیں ہے۔ لیکن وہ بے چین رہتے ہیں ان عوامل پر جو اس سیارے کے مکینوں کے لیے مشکلات کا شامیانہ بجا رہے ہوتے ہیں۔ آپکا دل کرتاہے کہ آپ حق کا ساتھ دیں۔ حق کی بات کریں۔ اپنا کوئی سا کنٹریبوشن دیں لیکن یہ بات آسان نہیں ہے۔ اصل کنٹریبوشن اور کردار سیاست کا ہی ہوتا ہے۔ پالیسی سازی کا ہوتا ہے۔ ملک کا بجٹ اور عوام کا  پیسہ کہاں اور کدھر لگنا ہے۔ کتنا لگنا ہے؟ اور یہ جو عوام کا پیسہ ہے یہ مسلسل قرضے کی صورت میں آ  رہا ہے؟ مسلسل بیل آوٹ  ہو رہے ہیں ہم؟  تو اس کا درست مصرف اور درست فیصلہ کتنا  نازک اور حساس بات ہے؟ 
کرونا وبا نے دنیا کو  ایک نئے موڑ  پر  لا کھڑا کیا ہے۔ میں چونکہ دنیا کے ایک ترقی  یافتہ  ترین  ملک میں زندگی کا  بیشتر حصہ گزار آیا  ہوں مجھے ایک بات کی اتنی سمجھ نہیں آئی۔  دو عشرے پہلے تک انٹرنیٹ ترقی یافتہ دنیا میں ایک غیر ترقی  یافتہ شکل میں موجود تھا۔  انٹرنیٹ ترقی  یافتہ دنیا میں اسی طرح  بیچا جاتا  تھا جس طرح ہمارے ہاں آج کل بیچا جاتا ہے۔ اتنا  ڈاون لوڈ  اتنے سیکنڈ میں۔ قیمت  اتنی ۔ جب  انٹرنیٹ کی بینڈ  وڈتھ بہت محدود  ہو تو کیسے ممکن ہے ملک بھر کے طلبا  انٹرنیٹ پر کلاسیں لے سکیں۔ اگر آپ نے انٹرنیٹ پر کوئی فلٹر بھی لگایا ہوا ہے تو لازمی بات ہے اسکی سپیڈ  مزید کمپرومائیز ہوتی جاتی ہے۔  
ٓٓآئیے آپ کو یہاں ناروے میں ایک آفس میں لے چلتے ہیں آپ کے خیال میں آفس  کے اندر سب سے اہم  چیز کیا پڑی ہے؟ کرسیاں ِ  میز، گھومنے  والی کرسی،  الماری میں پڑی فائیلیں۔ ان کے  علاوہ  ایک  چیز ہے جس سے  یہ آفس چلتا ہے۔ یہ  ایک کمپیوٹر  یا  لیپ ٹاپ ہے جو میز پر کسی جگہ موجود ہے۔ اسے یہاں سے اٹھالیجے آفس نہیں چلے گا۔ آپ کے آفس میں کمپیوٹر ہے؟
   اگر نہیں ہے تو  اس کا مطلب ہے تو آپ اپنا آفس اس طرح نہیں چلا  رہے جس طرح ایکسویں صدی میں آفس کو چلنا چاہیے۔ پرسنل کمیونیکیشن تو موبائل سیلز پر ہوتی ہے۔ لیکن آفیشل کام سارا کا سارا  مینول پیپر ورک پر ہوتا ہے۔ آپ نے اس  بارے میں کیوں نہیں سوچا کہ اپنے آفس میں دکھاوے کے لیے ہی سہی ایک کمپیوٹر سیٹ رکھ دیا جاے۔ یا  ایک لیپ ٹاپ رکھ دیا جاے۔ ہمیں معلوم ہے آپ کے محکمے یا ادارے کا انٹرانیٹ اور  ڈیجیٹیل انفراسٹرکچر بننے اور چلنے میں ابھی بہت سی رکاوٹیں ہیں۔لیکن ایک لیپ ٹاپ خریدئیے اور اپنی گھومتی کرسی کے بلکل سامنے نہ سہی سائیڈ  پر رکھ دیجیے۔
اس سے تو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ۔ٹیکنالوجی کو استعمال میں لانا  مارڈن گورننس کی بنیاد ہے۔ ٹیکنالوجی کا استعمال  لیبر کو  انہانس کرتا ہے۔آپ جو بھی دماغی مصروف رہتے ہیں۔ دماغی کام کرتے ہیں۔ یہ مینٹل لیبر ہے۔محکمے  یا  ادارے کا  ڈیجیٹل  انفراسٹرکچر  اگر پہلے سے موجود نہیں ہے تو  اسکی شروعات کیجیے۔ اس کے بغیر مارڈن  اور گڈ گورننس ممکن نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو ترقی یافتہ ممالک  ایسا  نہ کرتے۔ اپنے  بجٹ کا معقول حصہ اس سمت میں نہ لگاتے۔  َ
ٓٓآپ سیاستدان ہیں۔ آپ بھی کسی دفتر میں بیٹھتے ہیں۔ اپنے ساتھ کمپیوٹر رکھیے۔ یہ بات نوجوان نسل کو بتاے گی کہ آپ ایکیسوی صدی کے سیاستدان ہیں۔ جس دن ٹیکنالوجی ٹیک اوور کرلے گی تب آپ بہت  محتاط ہوجائیں گے۔ تب سب قانون سے ڈریں گے۔ آپ اس  وقت کو کب تک روکیں گے؟شاید آپ نہیں روک رہے۔ وقت خود آہستہ چل رہا ہے۔ ایسا ہی ہوگا۔
عرب بہت امیر مانے جاتے ہیں۔بقول  ہمارے ناروے کے ایک دوست کے انکے ہاں تیل تھوڑی سی کھدائی سے نکل آتا ہے۔ یورپ کے سمندر کی طرح ایک میل گہرائی سے کھدائی کرکہ نہیں نکالنا پڑتا۔ ایک عرب انوسٹر میکسیکو گیا اور کچھ ہوٹلز خرید نے کی آفر دی۔ جن لوگوں کے وہ  ہوٹلز تھے انہوں نے کہا کہ قیمت پر بارگین تو ہوگی ہی لیکن ہم آپکو مشورہ دیتے ہیں کہ ہوٹلز کی قیمت  ادا کردیجیے۔بزنس ہم کریں گے۔ کیونکہ آپ براہ  راست اس ملک میں ہوٹلز کا بزنس نہیں کرپائیں گے۔ انوسٹر پوچھنے لگے ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ؟ میکسیکن کہنے لگے۔ اس ملک میں آپ کو بزنس کرتے ہوے گورنمنٹ کو سروائیو کرنا پڑے گا۔ ڈرگ کارٹیلز کو سروائیو کرنا پڑے گا۔ اور تیسرا  نمبر قانون کی پاسداری ہے  وہ  تو سیدھی سادھی بات آپ کرہی لیں گے۔ گورنمنٹ کو سروائیو کرنے سے مراد  یہ تھی کہ انوسٹرز  یا تاجروں کو  بیوروکریسی  اور سیاستدانوں کے ساتھ اس کلچر کے مطابق ہینڈل کرنا پڑے گا جو وہاں کا مقامی کلچر ہے۔ میکسیکن ہوٹل مالکان کو پتہ تھا کہ عرب انوسٹرز  قانون  اور  دستور کی مکمل پاسداری کے باوجود  وہاں کی ڈرگ  مافیا،  بیوروکریسی،  اور  سیاستدانوں کو سروائیو نہیں کرپائیں گے۔
عربوں نے اپنی دولت کا بیش بہا حصہ ٹورازم کے لیے خرچ کردیا ہے۔ان کا  ویژن درست ثابت ہوا  اور دنیا بھر سے لوگ اپنی تجارتی  اور کاروباری میٹنگز تک مڈل ایسٹ جاکر کرتے ہیں۔یورپ کے امیر ترین ممالک بھی  ٹورازم کو  پروموٹ کرنے کے لیے یوں مصروف  کار نظر آتے ہیں گویا ٹورازم نہ  ہوا  تو وہ بھوکے مرجائیں گے۔ہم بھی کریں گے۔ باقی معاملا ت سے فرصت ملے تو ضرور کریں گے۔ آپ کے خیال میں بے روزگاری ہماری نوجوان نسل کو کس سمت لے جاے گی؟ آپ دیکھ تو رہے ہیں کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں  اور  لاکھوں نوجوان  یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر نکل رہے ہیں۔ چند برس لگتے ہیں انہیں جاننے میں کہ وہ ایک پناہ گاہ سے ایک گھنے اور  خطرناک جنگل میں داخل ہوگیے ہیں۔ یہاں انہوں اپنے سر پر چھت خود بنانی ہے۔ اس انسانی جنگل میں وہ مارے مارے پھریں گے۔  آپ نے کوئی لائحہ عمل سوچا ہوگا  اس بارے میں۔ سیاستدان ہیں آپ تو۔ آپ سیاست میں اس لیے آے کیونکہ آپ کو لگا کہ ملک درست سمت میں نہیں چل رہا۔ عوام کی خدمت کا جذبہ تھا آپ کے دل میں۔ وہی آپ کو سیاست میں لے آیا ہوگا۔ آپ نے بے روزگاری کو ہینڈل کرنا ہے یا حل کرنا ہے؟  ہینڈل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ مخالفین پر الزام لگائیں۔ انکی طرف موڑ  دیں۔ کوئی نیا  حکم نامہ جاری کریں،  مثلاً  پچھلے سو سال میں جائیداد کی تقسیم کا قانون درست نہیں تھا۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ دیکھیں تو سہی آپکے والد نے، آپکے بھائی نے یا آپکے چچا نے کس نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے؟ لوگوں کو کہاں فرصت ملے گی کہ آپکی کرسی پر خدانخواستہ چڑھائی کرنے کا سوچیں۔ڈائی ورژن اور  بلیم گیم میں مہارت آپکے سکل سیٹ میں شامل ہونی چاہیے۔ سیاست میں سروائیو کرنا ہے تو آپ میں یہ سکلز بدرجہ اتم موجود  ہونا  لازم ہے۔
  اللہ ہمارا  حامی  اور  ناصر  ہو۔

۔

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

.

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.   ‎

مزید :

بلاگ -