سپیشل پرسنز اور عام افراد

سپیشل پرسنز اور عام افراد
سپیشل پرسنز اور عام افراد

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


َمیں آج تک اس بات کو ٹھیک سے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ معذور افراد کو ’’سپیشل پرسنز‘‘ کیو ں کہا جاتا ہے۔ ان پر الگ سے کوئی ’’ٹیگ‘‘ لگا کر انہیں معاشرے یا عام افراد سے الگ کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا ان کی توقیر میں ’’اضافے ‘‘ کے لئے ایسا کیا جاتا ہے؟ خیر وجہ کچھ بھی رہی ہو جسمانی یا ذہنی طور پر معذور افراد کو سپیشل پرسنز یعنی خصوصی افراد کہا جاتا ہے۔


محمد زبیر شیخ میرے بچپن کے دوست ہیں۔ ہم نے لڑکپن اور جوانی میں ایک ساتھ قدم رکھا اور آج بڑی تیزی سے بڑھاپے کی جانب گامزن ہیں۔برادرم محمد زبیر شیخ بچپن سے معذور ہیں اور بغیر سہارے کے چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔انہیں بیساکھیوں یا وہیل چیئر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ پچھلے پچیس سال سے میں ان کو بیساکھیوں اور وہیل چیئر پر دیکھ رہا ہوں۔ہم نے ایک ساتھ عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔

زبیر بھائی نے ذاتی کاروبار کا آغاز کیا۔کپڑے کی ایک چھوٹی سی دوکان تھی جو بڑھتے بڑھتے بازار کی سب سے بڑی دکان بن گئی۔ زبیر بھائی سماجی کاموں میں بڑی دلچسپی لیتے۔

وہ مختلف پروگراموں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے۔میں ان کو تقریبات میں آتے جاتے دیکھتا اور ان کی ہمت پر خوش ہوتا۔پتا نہیں کب ان کے دِل میں اس بات نے جڑیں پکڑیں اور انہوں نے معذور افراد کے لئے کچھ کرنے کی ٹھانی۔

محض پانچ سال پہلے انہوں نے ’’سپیشل پرسنز فرینڈ شپ سوسائٹی‘‘ کے نام سے ایک سماجی فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی۔اس میں ان کے رفیق کار کے طور پر جناب کاشف اپل اور مَیں ساتھ ساتھ تھے اور ہیں۔محمد زبیر شیخ تو بیساکھیوں کے سہارے چل پھر بھی لیتے ہیں مگر کاشف اپل اس سے بھی معذور ہیں۔انہیں وہیل چیئر پر بیٹھنے اور اترنے کے لئے بھی کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

مگر انہوں نے بھی زبیر بھائی کی طرح اپنی اس معذوری کو مجبوری نہیں بنایا اور دوسروں کے لئے کچھ کر گزرنے کے لئے عملی طور پر سر گرم ہوگئے۔ دونوں نے دیگر معذور افراد کو ساتھ ملایا اور ’’سپیشل پرسنز فرینڈ شپ سوسائٹی‘‘ کی بنیا د رکھی۔

اس تنظیم کا بنیادی مقصد معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا تھا۔ان کو جینے کا حوصلہ اور بنیادی وسائل فراہم کرنا تھا ۔انہوں نے دن رات محنت کی اور اپنی جیب اور مخیر حضرات کے تعاون سے متعدد افراد کو وہیل چئیرز فراہم کیں،جو لوگ معذور ہونے کی وجہ سے گھر کی چار دیواری کے اندر ’’قیدی‘‘ کی سی زندگی بسر کر رہے تھے۔

انہیں حوصلہ دیا، تھپکی دی اور باہر نکلنے کی جرات دی۔ان میں سے آج بہت سے افراد معاشرے کے کار آمد شہری کے طور پر کہیں نہ کہیں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔


ان دونوں احباب نے اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے معذور بچوں کے لئے ایک سکول قائم کیا ۔زبیر بھائی بتاتے ہیں اسکول بنانا اتنا مشکل نہیں جتنا اس میں طالب علموں کو لانا مشکل ہوتا ہے۔معذور بچوں کے والدین اپنے بچوں کو پڑھانا ہی نہیں چاہتے ۔

وہ سمجھتے ہیں کہ ایک معذور بچہ پڑھ لکھ کر کیا کر لے گا ؟وہ اپنے معذور بچے کو چار دیواری سے باہر نکالنے کو تیار نہیں ہوتے۔ زبیر بھائی کا کہنا ہے کہ اکثر ما ں باپ انہیں یہ کہتے ہیں کہ آپ پڑھانے کی بات کرتے ہو ہم تو دُعا کرتے ہیں کہ اللہ اس ’’ بوجھ‘‘ کو ہی ’’اٹھا‘‘ لے تاکہ دوسرے بہن بھائی تو سکھی ہوں۔

زبیر بھائی کے بقول وہ والدین کو حوصلہ دیتے ہیں۔ان کو اپنی اور کاشف اپل کی مثالیں دے کر قائل کرتے ہیں۔انہیں بتاتے ہیں کہ آپ کو کچھ نہیں کرنا آپ کے بچے کوپک اینڈ ڈراپ کی سہولت ہم دیں گے۔ کتابیں ، کاپیاں ، سکو ل بیگز سمیت تمام ضروری اشیاء کی فراہمی ہماری ذمہ داری ہو گی اور آپ کو ایک پائی بھی خرچ نہیں کرنا پڑے گی۔ان کا کہنا ہے اس کے باوجود ماں باپ ہمارے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہو پاتے اور یوں ہمیں اپنا سکول چلانے میں بڑی دقت کا سامنا ہے۔


پچھلے دنوں برادران محمد زبیر شیخ اور کاشف اپل نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک مقامی ہوٹل میں ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا۔شہریوں کی بڑی تعداد کو اس تقریب میں مد عو کیا گیا۔ڈی آئی جی سلطان اعظم تیموری ، ایم پی اے عمران خالد بٹ سمیت کئی سرکاری اداروں کے سربراہان ، این جی اوز کے عہدیداران ، تاجروں، صنعت کاروں اور سماجی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس تقریب کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جن گھروں میں معذور بچے ’’قیدیوں‘‘ کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کے ماں باپ کو قائل کیا جائے، وہ اپنے بچوں کو مفید اور کار آمد شہری بنانے کے لئے ادارہ کے ساتھ تعاون کریں۔اس مو قع پر تنظیم کی طرف سے معذور افراد میں وہیل چیرز ، ٹرافیز اور سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کئے گئے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور ان میں آگے بڑھنے کی لگن میں اضافہ ہو۔ تلاوت ، قرآن پاک اور نعت رسول مقبولؐ سے لے کر تمام کارروائی معذور افراد نے ہی آگے بڑھائی (سٹیج سیکرٹری خواجہ آفتا ب عالم تھے) جو خوبصورت ٹیبلو پیش کیا گیا اس میں شامل تمام افراد معذور تھے۔ بچوں کی پرفارمنس دیکھ کر ہال میں بیٹھے تمام افراد کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔


معزز مہمانوں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے محمد زبیر شیخ ، کاشف اپل اور ان کے رفقاء کے کام کو سراہا۔ میں حیران تھا کہ زبیر بھائی نے معذور ہونے کے باوجود ہم سب دوستوں کو مات دے دی اور جو کام ہم دوست نہیں کر سکے زبیر بھائی جسمانی معذوری کے باوجود وہ کام سرانجام دے رہے ہیں۔

میں سوچ رہا تھا کہ معذور یہ افراد ہیں یا ہم لوگ؟اپنی ٹانگوں پر اپنی ذات کے لئے چلنا کون سا بہادری کا کام ہے مزہ تو تب ہے جب آپ معذور ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے لئے چلیں، آگے بڑھیں۔ مجھے احساس ہوا ہم پلے بڑھے تو ایک ساتھ ہیں مگر زبیر بھائی قد میں مجھ سے بہت بڑے ہیں ۔

انہوں نے دوسروں سے سہارا لینے کی بجائے دوسروں کا سہارا بننے کا راستہ چنا۔سوچتا ہوں اگر زندہ رہا تو بڑھاپے میں چھڑی کا سہارا تو مجھے بھی لینا پڑے گا، لیکن جو انی چھڑی کے سہارے گزارنے والے زبیر بھائی کا مقابلہ نہ جوانی میں کر سکا اور نہ بڑھاپے میں کر پاؤں گا۔زبیر بھائی !آپ واقعی ایک عظیم انسان ہیں جو کسی مقصد کے لئے جی رہے ہیں۔ آپ کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کر تا ہوں۔

مزید :

کالم -