سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی قلت، مچھروں اور دیمک کا حملہ، کچے گھر مکمل تباہ، یونیسف کی وراننگ جاری

  سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی قلت، مچھروں اور دیمک کا حملہ، کچے گھر مکمل ...
  سیلاب زدہ علاقوں میں غذائی قلت، مچھروں اور دیمک کا حملہ، کچے گھر مکمل تباہ، یونیسف کی وراننگ جاری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 دادو، اسلام آباد،سکھر(مانیٹرنگ ڈیسک،نیوزایجنسیاں) سندھ کے ضلع دادو کے سیلاب سے متاثر ہ علاقوں میں دیمک کا حملہ متاثرین کیلئے وبال جان بن گیا۔ضلع جامشورو اور دادو کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مسلسل پانی کی موجودگی کے باعث بڑی تعداد میں دیمک نکل آئے،  دیمک نے متاثرین کے کچے مکانات اور لکڑیوں کے دروازوں اور کھڑکیوں کو چاٹنا شروع کر دیا جس نے متاثرین کودہرے عذاب میں مبتلاکر دیا ہے۔دیمک نے سیکڑوں کچے مکانات اور گھروں میں نصب لکڑی دروازوں اور کھڑکیوں کو چاٹ کر ناکارہ بنا دیا ہے جس کے باعث دیہی معیشت کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ سیلاب متاثرین نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا ہے کے دیمک  کے خاتمے کے لیے خصوصی طور پر سپرے کا اہتمام کیا جائے۔دوسری جانب یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں متاثرہ علاقوں میں بچوں میں شدید غذائی قلت اور صحت کی سہولیات کی صورتحال تشویشناک ہے، 70 لاکھ سے زائد بچوں تک پہنچنے کیلئے عالمی برادری سے تعاون کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ نو عمر لڑکیاں اور خواتین کو غذائیت سے بھرپور خدمات کی ضرورت ہے۔

مزید برآں پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی چینی ماہرین کی ٹیم نے سیلاب سے متعلق ابتدائی رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں مستقبل میں ایسی آفات سے بچنے کیلئے وسط مدتی اور طویل مدتی اقدامات بھی تجویز کیے گئے، رپورٹ میں بڑی ڈیٹا ٹیکنالوجیز پر مبنی قومی سیلاب کی پیشگوئی، قبل از وقت وارننگ سسٹم کی ترقی، سیٹلائٹ، راڈار اور دیگر مانیٹرنگ سسٹمز کی ایپلی کیشن اور قبل از وقت وارننگ کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے، کمیونٹی پر مبنی نیشنل مانٹین ٹورینٹ ڈیزاسٹر مانیٹرنگ اور قبل از وقت وارننگ سسٹم قائم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔چین کی ایمرجنسی مینجمنٹ کی وزارت کے محکمہ فلڈ کنٹرول اور خشک سالی سے نجات کے 11 رکنی وفد نے پاکستان کے مختلف سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد ابتدائی رپورٹ پیش کی۔ وفد میں چین کی وزارت آبی وسائل اور چین کی موسمیاتی انتظامیہ کے ماہرین بھی شامل تھے۔چینی ماہرین کی ٹیم کی جانب سے پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1961 ءکے بعد سب سے زیادہ شدید بارشیں ہوئیں جس سے84اضلاع یا پاکستان کے کل رقبے کا ایک تہائی متاثر ہوا،اس سے تقریباً 33 ملین افراد یا ملک کی کل آبادی کا ساتواں حصہ متاثر ہوا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تباہی کے بعد کی صورتحال سے تنہا نمٹنے کے قابل نہیں رہا۔ ملک کے جنوبی حصے اب بھی ڈوبے ہوئے ہیں اور پانی بھرے علاقے متعدی بیماریوں کا شکار ہیں اور لوگوں کو پینے کے صاف پانی تک رسائی نہیں۔ پناہ گاہوں میں رہنے والے بے گھر افراد کو ہنگامی امداد کی اشد ضرورت ہے۔