’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘

’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کونسل کے نو منتخب رکن اور معروف صحافی رانا شفیق پسروری سے خصوصی نشست
محمد نصیرالحق ہاشمی
’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ پاکستان کا ایک اہم آئینی ادارہ ہے جس کی ذمہ داری ہے کہ نظریہ پاکستان کی صحیح تعبیر و تشریح کو پاکستانی معاشرہ میں فروغ دیا جائے۔ وطن عزیز میں بنائے گئے اور نافذ کئے گئے قوانین کی تشکیل میں اسلامی تعلیمات سے روگردانی نہ ہونے پائے اور نئی قانون سازی میں قانون ساز اداروں کی رہنمائی کی جا سکے یا ممکنہ تعاون فراہم کیا جا سکے۔
پاکستانی عوام کی اکثریت اس ادارے کی تاریخی و آئینی حیثیت اور اہمیت سے واقف نہیں۔ اس لے ہم نے ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے نو منتخب رکن اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ سے تعلق رکھنے والے، معروف صحافی و دینی اسکالر جناب رانا محمد شفیق خان پسروری سے ایک معلوماتی ملاقات کی اور کونسل کے حوالے سے کئی سوالات کئے، تاکہ ہمارے قارئین اور عوام اس اہم آئینی ادارے اور اس کے دائرہ کار کے بارے بخوبی آگاہ ہو سکیں۔
روزنامہ پاکستان:سب سے پہلے تو اسلامی نظریاتی کونسل جیسے عظیم آئینی ادارے کی رکنیت پر مبارک قبول فرمائیں۔ ہم آپ کے لئے اس عظیم ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے اللہ سے توفیق اور استقامت کے لئے دعا گو ہیں۔
رانا شفیق خان پسروری:بہت شکریہ۔ یہ آپ کی محبت ہے۔ مجھے مبارک سے زیادہ واقعی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ جس عظیم ذمہ داری کیلئے قائدین بالخصوص محترم حضرت پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ نے میرا نام دیا، یہ واقعی بہت بھاری اور بڑی ذمہ داری ہے۔ ان شاء اللہ کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز اور سیکرٹری جناب ڈاکٹر اکرام الحق جیسی علمی شخصیات کی رہنمائی،جید علماء کرام کے تعاون اور آپ جیسے محبت کرنے والوں کی دعاؤں سے اس ذمہ داری کو نبھانے کی توفیق مل ہی جائے گی۔
روزنامہ پاکستان:ہمارے قارئین کو اسلامی نظریاتی کونسل کا مختصر تعارف کروائیں؟
رانا شفیق خان پسروری: اسلامی نظریاتی کونسل نظریہ پاکستان کی تعبیر و تشریح کا اعلیٰ ترین ریاستی ادارہ ہے۔ اور ریاست پاکستان کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر نو کا فکری امین ہے۔ یہ 1973ء کے آئین کے باب نہم احکام اسلام(دفعات 227تا231)کے تحت وجود میں آیا۔
روزنامہ پاکستان:اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام کب،کیسے اور کیوں عمل میں آیا؟
رانا شفیق خان پسروری:قیام پاکستان کے بعد کچھ لوگو ں نے انگریزی پریس میں اسلامی مملکت کیلئے دی گئی تمام قربانیوں کو ضائع کرنے اور لوگوں کی وجہ اصل مقصد سے ہٹانے کے لئے تین شوشے چھوڑے، نمبر ایک ’’پاکستان کسی نظریے پر نہیں بلکہ معاشی ضرورتو ں کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا‘‘۔ نمبر دو’’ پاکستان میں پٹ سن اور کپا س دو معیشتیں ہیں‘‘ (بد قسمتی سے یہ نظریہ اتنا پھیلا کہ محض25سال کے بعد پاکستان ٹوٹ گیا)۔ اور نمبر تین’’قومیتوں کا شوشہ تھا، لسانیت کا طوفان تھا‘‘۔ ان لوگوں نے نظریاتی خلاء پیدا کرنے کی کوشش کی۔یہ لوگ جغرافیائی طور پر تو پاکستان کو تسلیم کر لیتے ہیں مگر نظریاتی طور پر پاکستان کو تسلیم کرنا ان کی فکری موت کا سبب ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اسلام کے بغیر پاکستان قائم ہی نہیں رہ سکتا۔اس نظریاتی دھندلکے میں اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود عمل میں آیا۔یہاں میں آپ کو ایک اور بات کی طرف نشاندہی کروں کہ ’’1962ء کے آئین میں سے ملک کے نام سے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ نکال کر صرف ’’جمہوریہ پاکستان‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ مگر بعد میں لوگوں کے شدید احتجاج کی وجہ سے دوبارہ ’’اسلامیہ‘‘کے لفظ کو شامل کیا گیا۔اور دوسری طرف اسلامی نظریئے کی مشاورتی کونسل قائم کی گئی اور اسے محض مشاورتی حیثیت ہی دی گئی یعنی اس کی کوئی آئینی حیثیت نہ تھی۔
ان حالات میں1973ء کے آئین میں (جو اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے دستخط سے 14اگست1973ء کو نافذ العمل ہوا)باب نہم’’اسلامی احکام ‘‘کے تقاضوں کیمطابق صدر پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 228کے تحت مورخہ 2فروری1973ء کواسلامی نظریاتی کونسل قائم کی ۔ یہ پہلی اسلامی نظریاتی کونسل تھی جس کی مدت یکم فروری1977ء کو ختم ہوئی اوراس کے 15اراکین تھے جن کی سربراہی چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس حمود الرحمان کے ذمے لگی۔
روزنامہ پاکستان:اسلامی نظریاتی کونسل کے اہداف ومقاصد پر روشنی ڈالیں؟
رانا شفیق خان پسروری:1973ء کے آئین پاکستان کے تحت اس کونسل کے ذمہ دو بڑے کام لگائے گئے ہیں۔ پہلا تویہ کہ وطن عزیز میں بنائے اور نافذ کئے جانے والے قوانین کی تشکیل میں اسلامی تعلیمات سے روگردانی نہ ہونے پائے یعنی آسان لفظوں میں قوانین کی اسلامی تشکیل ہے۔ اس کی مزید وضاحت ایسے کی جاسکتی ہے کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ موجود ہ قوانین کی جانچ پڑتال کر کے انہیں اسلامی احکامات کے مطابق بنانے کیلئے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کو تجاویز دینا اور دستور73ء کے بعد بننے والے قوانین کے بارے میں صدر مملکت،کسی گورنر یا قومی اسمبلی کی طرف سے پوچھے گئے سوالات کی روشنی میں سفارشات پیش کر نا ہے، کونسل کا دوسرا بڑا کام پاکستان میں اسلامی معاشرے کی تشکیل کے بارے میں سفارشات پیش کرنا ہے، جس میں پاکستان کے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق بنانے کی ترغیب اور طریق سب کچھ شامل ہے۔
پاکستان:اچھا رانا صاحب! یہ بتائیے کہ جب دستور پاکستان میں وطن عزیز کو اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کے تمام تقاضے پورے کر دئیے گئے ہیں، پھر تو اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کی کیا ضرورت ہے؟
رانا شفیق خان پسروری:دیکھئے پاکستان کے سیکولر حلقے ایک تسلسل سے یہ بات دہرا رہے ہیں کہ پاکستان کا وجود اسلامی نظریہ پر قائم نہیں ہوا بلکہ یہ ایک معاشی ضرورت تھی اسلئے یہاں اسلامی نظا م کو نافذ کرنے کا مطالبہ عبث ہے۔ان حلقوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ تحریک پاکستان میں اسلامی نفاذ کا نعرہ محض ایک سیاسی نعرہ تھا جس کے لئے قائدین پاکستان کے ذہن میں کوئی عملی تعبیر نہ تھی۔ اس بے بنیاد اور غیر معقول مؤقف کی تردید اور حقیقت واضح کرنے کیلئے بھی یہ ضروری تھا کہ ایک ایسا ادارہ موجود رہے جو پاکستان کی نظریاتی اساس کی حفاظت کرتا رہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی پر نظر رکھے اور آئین پاکستان کے تقاضوں کے مطابق کوئی ایسی قانون سازی نہ ہو پائے جو اسلامی احکامات اور قرآن و سنت کے خلا ف ہو۔ اس لئے یہ ادارہ قائم کیا گیا۔
روزنامہ پاکستان:رانا صاحب یہ بتائیے کہ قیام پاکستان سے قبل قائدین پاکستان کے ذہن میں اسلامی پاکستان کا کیا نقشہ تھا؟
رانا شفیق خان پسروری:برصغیر کے مسلمانوں کواسلامی نظامِ حیات سے جوڑے رکھنے کیلئے قیامِ پاکستان سے قبل بھی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور قیام پاکستان کے بعد بھی اس پر سنجیدہ کام جاری رہا ۔ ہم تاریخ کے صفحات پر نظر دوڑائیں تو علم ہوتا ہے کہ قائد تحریک پاکستان اور مصور پاکستان علامہ محمد اقبال اپنے خطبات میں بار بار اس طرف عمائدین ملت کی توجہ کرواتے رہے، میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا مگر چند ایک اشارہ جات ضرور کروں گا تا کہ قارئین کے لئے بات واضح ہو جائے۔
سید سلیمان ندویؒ کے نام علامہ محمد اقبال اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ’’میرا پختہ یقین ہے کہ جو شخص بھی قرآنی نقطہ نگاہ سے جدید’’جورس پروڈنس‘‘ پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر اس کی تشکیل نو کر دے اور احکام قرآنیہ کی حقانیت اور ابدیت کو ثابت کر دے، وہی اسلامی نشأۃ ثانیہ کا حقیقی راہبر اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم ثابت ہو گا۔یہی وقت عمل ہے، کیونکہ میری عاجزا نہ رائے میں اسلام پر یہ آزمائش کا وقت ہے اور اپنی طویل تاریخ میں اسے کبھی ایسے حالات سے پالا نہیں پڑاجن سے وہ اس وقت دوچار ہے‘‘۔اسی طرح علامہ محمد اقبالؒ کا 29دسمبر1930ء کا خطبہ الٰہ آباد بھی اس بات کا شاہد ہے کہ ان کے ذہن میں ایسی اسلامی ریاست کا سوچا سمجھا تصور موجود تھا جو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ علامہ اقبالؒ کی نظر میں پارلیمنٹ ایک اجتماعی اجتہاد کا ادارہ تھا اور اسی لئے وہ اس پارلیمان میں زیادہ سے زیادہ علماء کو شامل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے خطبہ الٰہ آباد کے بعد 21 مارچ 1932ء کو آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے خطا ب کرتے ہوئے ’’مسلم وکلاء پر مشتمل علماء کی آئینی مجلس ‘‘کی تجویز بھی پیش کی۔ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نام 28 مئی1937ء کو لکھے گئے خط میں بھی یہی بات واضح کی، فرمایا’’اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جا سکتا ہے ؟مسلم لیگ کے مستقبل کا تمام تردارو مدار اسی بات پر ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لئے کیا اقدامات کرتی ہے؟۔اگرمسلم لیگ اس طرح کے عہد نہیں دے سکتی تو مجھے یقین ہے کہ مسلم عوام لیگ سے اسی طرح لا تعلق رہے گی جس طرح پہلے رہی تھی۔خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ ، جدید افکار کی روشنی میں اس کی مزید ترویج و ترقی میں اس کا حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور محتاط مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس قانونی نظام کو اچھے طریقے سے سمجھا جائے اور نافذ کر دیا جائے تو ہر فرد کا کم از کم حق بقا محفوظ ہو سکتا ہے‘‘۔علامہ محمد اقبال ؒ کی طرح قائد اعظم محمد علی جناح بھی اس معاملے میں یکسو تھے۔مختلف خطابات میں وہ فرماتے ہیں کہ ’’مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں جہاں وہ اپنے تہذیبی ارتقاء، اپنی روایات اور اسلامی قانون کے مطابق حکمرانی کر سکیں‘‘۔ پاکستان کا مطلب آزادی و خود مختاری نہیں بلکہ اس کامطلب مسلم نظریہ ہے جس کا تحفظ ہر حال میں ضروری ہے اور یہ ہمارے پاس ایک قیمتی تحفے اور بڑی دولت کی شکل میں پہنچا ہے‘‘۔مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ پا کستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟پاکستان کا طرز حکومت تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں؟یہ کام پاکستان کے رہنے والوں کا ہے اور میرے خیال میں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے ساڑھے تیرہ سو سال قبل قرآن حکیم نے فیصلہ کر دیاتھا‘‘۔قائدین پاکستان کے یہ بیانات اور ان کے عزائم تھے جن کی بناء پر قیامِ پاکستان کے ابتدائی دنوں سے ہی وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کے تعین کیلئے کوششیں شروع کر دی گئی تھیں۔
روزنامہ پاکستان:کیا اس ادارے کا خیال 1973ء کے بعد ہی آیا یا اس پہلے بھی کوئی ایسا ادارہ موجود تھا جو پارلیمنٹ کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہا تھا؟
رانا شفیق خان پسروری:جی ہاں قیام پاکستان کے فوراََ بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نواب افتخار حسین ممدوٹ نے علامہ محمد اسد کی سربراہی میں ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کا نام ’’ادارہ احیائے ملت اسلامیہ ‘‘تھا۔اس ادارے کے قیام کا بنیادی مقصد زندگی کی اسلامی خطوط پر تعمیر نو کیلئے معاشرے کی مدد کرنا تھا، اسی لئے اس کا نام ادارہ احیائے ملت اسلامیہ رکھا گیا۔ یہ ادارہ تقریباََ تین سال قائم رہا ۔اسی طرح خواجہ ناظم الدین نے بطور گورنر جنرل اور لیاقت علی خان کے دور وزارت عظمیٰ میں بھی ایک ادارہ موسوم بہ ’’بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ‘‘ قائم کیا گیا۔یہ 1949تا1954ء کا دورانیہ تھا ۔ اس ادارے کے صدر علامہ سید سلیمان ندویؒ تھے ۔ اس ادارے کے مقاصد میں قرار داد مقاصد سے معلوم ہونے والے دینی مقاصد کی تکمیل کیلئے مشورہ دینا شامل تھا۔اسی بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ کے تحت مشہورِ عالم 31علماء کے بائیس نکات ہیں جو صدر بورڈ کی دعوت پر دستورِ پاکستان کیلئے تمام مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ طور پر پیش کئے جو بعد میں دستور پاکستان کا حصہ بنے۔ان علماء کرام میں مولانا سید داود غزنویؒ بطور صدر مرکزی جمعیت اہلحدیث مغربی پاکستان اور مولانا محمد اسماعیل سلفی ناظم جمعیت اہلحدیث مغربی پاکستان بھی بطور رکن شریک تھے۔بعد میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ بھی اس مجلس علماء کا حصہ بنے۔اسی دورانیہ (1950تا1954ء)میں ایک لاء کمیشن بھی تشکیل دیا گیا جس کا مقصد بھی پاکستان کے قوانین کو اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا تھا۔پھر1954ء سے1960ء کے دورانئے میں ’’مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی‘‘کے نام سے بھی ایک ادارہ قائم کیا گیا۔اسی طرح 28 ستمبر 1950ء کوایک ادارہ’’اسلامی تعلیمات و امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘کے نام سے قائم ہوا۔ ریاستی سطح پر پانچ رکنی علماء بورڈ کا قیام بھی عمل میں آیا۔پھر1956ء کے آئین میں بھی ایک ’’ادارہ تحقیق و تدریس اسلامی‘‘قائم کیا گیا۔ان تمام اداروں کے مقاصد صرف اور صرف پاکستان میں اسلامی نظریۂ حیات کے تحفظ او ر مسلمانوں کی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں گزارنے کے اسباب مہیا کرنا تھا۔اس کے بعد1962ء کے آئین میں بھی ’’اسلامی نظریے کی مشاورتی کونسل‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا۔اور یہی وہ ادارہ ہے جو آج اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے معروف ہے۔
روزنامہ پاکستان:اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت کیلئے کیا طریقہ کار ہے؟
رانا شفیق خان پسروری:اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کا تقرر صدر مملکت کرتے ہیں۔یہ کونسل کم از کم 8اور زیادہ سے زیادہ 20ارکان پر مشتمل ہو تی ہے۔اس کی رکنیت کیلئے بنیادی شرائط جو آئین پاکستان میں درج ہیں اور ا ن کے مطابق ہی صدر مملکت ارکان کا تقرر کرتے ہیں ان میں ایسی شخصیات ہیں جو اسلام کے اصولوں اور فلسفے کا جس طرح کے قرآن و سنت میں ان کا تعین کیا گیا ہے علم رکھتے ہوں۔یا جنہیں پاکستان کے اقتصادی،سیاسی، قانونی اور انتظامی مسائل کا فہم و ادراک ہو۔اس کونسل میں کم از کم دو ارکان ایسے ہوتے ہیں جو عدالت عظمیٰ یا عدالت عالیہ کے رکن رہے ہوں۔کم از کم ایک تہائی ارکان ایسے ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک کم از کم پندرہ سال کی مدت سے اسلامی تحقیق یا تدریس کے کام سے وابستہ رہا ہو۔
روزنامہ پاکستان:لیکن رانا صاحب آپ جو شرائط بتا رہے ہیں وہ تو بہت سخت ہیں مگر بعض لوگوں کا خیا ل ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں نمائندگی بطور سیاسی رشوت کے دی جاتی ہے جیسے کشمیر کمیٹی کی چیئر مین شپ وغیرہ اس میں کتنی صداقت ہے؟
رانا شفیق خان پسروری:میں نہیں سمجھتا کہ اس بات میں معمولی سی بھی صداقت ہو۔اسلامی نظریاتی کونسل کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہم یہی دیکھتے ہیں کہ یہاں اپنے اپنے شعبہ کے ماہرین ہی موجود ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار یا کوئی ایک آدھ رکن ایسا آجاتا ہو تو کچھ کہانہیں جا سکتا مگر عمومی صورتحال ایسی نہیں ہے۔
روزنامہ پاکستان:کیا ماضی میں آپ اسلامی نظریاتی کونسل کی کاکردگی سے مطمئن ہیں؟
رانا شفیق خان پسروری: کچھ مطمئن بھی ہیں اور کچھ غیر مطمئن بھی۔ بعض اوقات تو اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے سے ایسی خبریں بھی سننے کو ملتی رہی ہیں جو خالصتاََ سیکولر عناصر کی ترجمانی کرتی تھیں یا ایک مخصوص مکتبہ فکر کی حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل کے قوانین میں اسلام اور قرآن و سنت ہی مرکز ہیں۔ مگر پھر بھی کچھ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کی کوششیں کرتے رہے ہوں گے ۔ لیکن الحمد للہ! عموماََ ایسے لوگ کامیاب نہیں ہو پاتے ۔
روزنامہ پاکستان:بطور رکن اسلامی نظریاتی کونسل آپ کے اہداف کیا ہیں؟اسلامی نظریاتی کونسل میں آپ ایک خاص مکتبۂ فکر کی نمائندگی فرما رہے ہیں؟اس آئیڈیالوجی کیلئے آپ کیا کردار ادا کریں گے؟۔
رانا شفیق خان پسروری:میرے اہداف میں قرآن و سنت کی ترجمانی شامل ہے۔ ہم نے یہی سیکھا ہے کہ حق بات کہنے میں کسی مداہنت سے کام نہیں لیا جائے۔ پاکستان کی پارلیمان میں بننے والے قوانین کو اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھیں گے اگر وہ اسلام کی کسی بھی شق سے ٹکراتے ہوں تو ان شاء اللہ ان کی تردید کریں گے۔
روزنامہ پاکستان:آپ بار بار آئین پاکستان کی بات کر رہے ہیں۔ ہمارے قارئین کو بتائیں کہ کسی ملک و قوم کے لئے آئین کی کیا حیثیت ہے؟
رانا شفیق خان پسروری: اس کے لئے میں آپ کو علامہ اقبالؒ کی ایک نظم جو ان کی کتاب’’رموز بے خودی‘‘میں موجود ہے اس کے دو اشعار سناتا ہوں، ان اشعار میں ہی آپ کے سوال کا جواب موجود ہے۔ علامہ صاحب فرماتے ہیں
’’ملتے را رفت چوں آئین زدست
مثل خاک اجزای او از ہم شکست
ہستی مسلم ز آئین است و بس
باطن دین نبی ایں است و بس‘‘
ترجمہ:جس قوم نے آئین ہاتھ سے جانے دیا اس کے اجزاء خاک کی طرح ریزہ ریزہ ہو گئے۔ مسلمانوں کے وجود کا دار و مدار صرف اور صرف آئین پر ہے۔ہمارے پیارے نبی ﷺ کے دین کی باطنی حقیقت بھی یہی ہے۔
روزنامہ پاکستان:جی رانا صاحب !سیکولر لابیز اکثر یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کا اپنا ہی ہوم ورک مکمل نہیں ؟ آپ کیا کہتے ہیں؟
رانا شفیق خان پسروری: سیکولر لابیز کا کام ہے ہر اچھے کام میں کیڑے نکالناہے۔ کیا یہ سوال اٹھانے والوں کو 31یا پھر بعد میں33علماء کے متفقہ بائیس نکات نظر نہیں آتے؟ کیا انہیں علامہ محمد اسد کی قیادت میں قائم میں ہونے والے ادارے، بعد میں تعلیمات اسلامیہ بورڈ اور اسلامی مشاورتی کونسل اور اب اسلامی نظریاتی کونسل کی جامع اور وقیع رپورٹیں نظر نہیں آتیں، وہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت ایلٹ بنچ کے فیصلے نہیں پڑھتے جو نفاذ شریعت کے لئے اصولی و عملی بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ہمارے اکابر و اسلاف نے کسی بھی معاشرے میں اسلامی نظام کے نفاذ کی وہ بنیادیں فراہم کر دی ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک میں نافذ کر کے وہاں مکمل اسلامی نظام نافذ کیا جا سکتا ہے۔
روزنامہ پاکستان:وطن عزیز میں اسلامی نظام کے مکمل نفاذ میں کون یا کیا چیز رکاوٹ سمجھتے ہیں؟
رانا شفیق خان پسروری:وطن عزیز میں اسلامی نظام کے نفاذ میں میں حکمرانوں کی غیر سنجیدگی اور سیکولر عناصر کے واویلے کو رکاوٹ سمجھتا ہوں۔ بعض ان پڑھ یا کم پڑھے لوگ بھی جو خود کو علماء کی صف میں شامل کروانے میں کامیاب ہو چکے ہیں ان کے رویئے اور اسلام کی من مانی تعبیرات بھی اس سلسلے میں سیکولر عناصر کو راہ فراہم کر تی ہیں۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جب ملک میں شریعت نافذ کرنے کی بات کی اور سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی سربراہی میں بعض قوانین کو شریعت بل کے نام سے نافذ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو انہیں طعنے دینے والے کون تھے۔؟ کیا آپ نے کبھی سوچا وہ کون سے عناصر تھے جو ان کو’’امیر المومنین بننے کے خواہشمند‘‘کے طعنے دیتے تھے۔ اصل میں یہ لوگ رکاوٹ ہیں اور پھر ہمارے معاشرے میں اسلامی نظام کے نفاذ میں بعض بیرونی قوتیں بھی آڑے آ جاتی ہیں۔
روزنامہ پاکستان:آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بہت سے قوانین کی اصلاح کرکے سفارشات واپس پارلیمان کو بھیجی ہیں لیکن اب تک ان کا نفاذ کیوں نہیں ہو سکا؟
رانا شفیق خان پسروری:اصل میں یہی وہ چیز ہے جس پر میں آپ کی توجہ دلوا چکا ہوں کہ جب عوامی نظریاتی ولولوں کو قانون ساز ادارو ں کے سپرد کیا جا تا ہے تو وہاں بیٹھے ہوئے لوگ ان جذبات سے عاری ہوتے ہیں جو باہر کے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ہماری قانون سازی کی تاریخ کا یہ ا لمناک پہلو ہے کہ اندر اور باہر کی دنیا ایک نہیں۔
روزنامہ پاکستان:تو پھر ان معاملات کا حل کیا ہے؟
رانا شفیق خان پسروری: میری نظر میں ان کا حل یہ ہے کہ پارلیمان میں زیادہ سے زیادہ علمائے دین موجود ہوں۔ اہل پاکستان انتخابات میں دینی علوم سے بہرہ ور لوگوں کو بھیجیں۔ علامہ اقبال ؒ نے بھی اسی طرف توجہ دلوائی تھی اور آج ان کی تمام باتوں کی صداقت روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر ہم نے سنجیدہ متین اورحالات حاضرہ سے آگاہ ،دور جدید کے تقاضوں سے آشناء علمائے دین کو اسمبلیوں میں نہ بھیجا تو تمام قوانین کے ساتھ یہی کچھ ہو گا جو ہو رہا ہے۔
روزنامہ پاکستان:ایک اسلامی ملک میں معاشی نظام سود پر استوار ہے؟ اسلامی نظریاتی کونسل سود کے خاتمے کی سفارشات بھی پیش کر چکی ہے، مگر ان پر عملدر آمدنہیں ہو رہا، آپ کے خیال میں اس کا کون ذمہ دار ہے؟
رانا شفیق خان پسروری:اس کے جواب میں بھی اپنی بات کو دوبارہ دہراتا ہوں کہ اسمبلیوں میں موجوداکثر لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ وہ اسلامی احکامات کا باریک بینی سے جائزہ لے سکیں۔ ایسے لوگ جن کا کاروبار ہی مکمل سودی رنگ میں رنگا ہو ا ہے اگر آپ ان سے یہ توقع لگائے ہوئے ہیں کہ وہ سودی نظام کو ختم کریں گے تو یہ آپ کا خواب ہو سکتا ہے اس کا حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ دوسری وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ موجودہ معاشرہ مادیت زدہ معاشرہ ہے ۔ یہاں ایک ہاتھ دو دوسرے سے لو کا فارمولہ چلتا ہے، ایمان و تقویٰ کے تقاضوں سے لابلد افراد کس طرح اس بات کو تسلیم کریں گے کہ سود سے مال گھٹتا ہے، وہ تو ظاہر کو دیکھتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی سودی نظام کا خاتمہ نہیں ہو رہا اور ایک تیسری او ر بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکمران طبقہ بین الاقوامی قوتوں سے خوفزدہ ہے وہ تو چھوٹے اور معمولی اسلامی احکامات کے نفاذ سے ڈرتے ہیں تو اس طرح بڑے بڑے اور بولڈ سٹیپ کیسے لے سکتے ہیں۔ اسی لئے میں پھر دہراتا ہوں کہ اسمبلیوں میں دین دار لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بھیجا جائے۔
روزنامہ پاکستان:رانا صاحب! اس وقت دنیا بھر میں توہین رسالت کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں، جبکہ پاکستان میں توہین رسالت کی سزا کا سخت قانون بھی موجود ہے مگر سوشل میڈیا اور دیگر چینلز پر ایک مخصوص لابی مسلسل ایسی جسارت کا ارتکاب کرتی چلی جا رہی ہے، ان واقعات کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
رانا شفیق خان پسروری:توہین رسالت مغرب کے چند اوباش ذہن اور انتہا پسند یہودو نصاریٰ نے کھیل بنا لیا ہے۔ امت مسلمہ کے حکمرانوں اور بالخصوص او آئی سی کی بے حسی ہے کہ اب تک جسارتوں کو روکا نہیں جا سکا۔اگر عالم اسلام متحد ہو کر اقوام متحدہ سے یہ قانون بھی منظور نہیں کروا سکتا تو پھر ہمیں او آئی سی سمیت تمام ممالک پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ لینا چاہئے۔ مگر میں اس موقع پر یہ ضرور کہوں گا کہ عام مسلمان اپنی حد تک جو کر سکتے ہیں وہ اس سے باز نہیں آتے۔ اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں،زور دار آواز بلند کرتے ہیں۔ مغربی انتہا پسندوں کو ان لوگوں سے بھی خطرہ ہے ان کا خیال ہے کہ کسی طرح مسلم نوجوانوں سے یہ جذبہ بھی نکال دیا جائے تاکہ ہم ہر طرح کی مادر پدر آزادی سے انجوائے کر سکیں۔
روزنامہ پاکستان:مغربی ممالک میں توہین رسالت کے واقعات اور بالخصوص ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر گیرٹ وائلڈر کی جانب سے توہین آمیز خاکوں کے مقابلے کے اعلان کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کوئی کردار ادا کر سکتی ہے یا کر رہی ہے؟
رانا شفیق خان پسروری:دیکھیں اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہے، یہاں کے اسکالر اور علماء اپنی سفارشات اپنی حکومت کو پیش کر سکتے ہیں۔ باقی کام حکومت کے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو گیرٹ وائلڈر کے معاملے میں نیدرلینڈ کی حکومت سے ضرور سفارتی سطح پر رابطہ کرنا چاہئے اور ایک زور دار شٹ اپ کال دینی چاہئے اور اسی طرح حکومت پاکستان دیگر اسلامی ممالک بالخصوص جن ممالک سے نیدر لینڈ یا دیگر یورپی ملکوں کے تجارتی اور معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں سے بھی مل کر حکومت ہالینڈ کو مجبور کرنا چاہئے کہ وہ اس گیرٹ وائلڈر کو اس ملعون حرکت سے روکے۔اگر حکمرانوں نے اپنا کردارادا نہ کیا تو یہ لوگ اللہ کے ہاں بھی مجرم ہوں گے اور امت مسلمہ بھی انہیں معاف نہیں کرے گی۔
روزنامہ پاکستان:لبرل یا ملحد لوگ کہتے ہیں کہ’’تحفظ ناموس رسالت‘‘کے نام سے تحریک صرف پاکستان میں چل رہی ہے دنیا کے کسی دوسرے اسلامی ملک میں نہیں۔آپ نے اکثر اسلامی ممالک کا دورہ کر رکھا ہے اور وہاں کی بڑی بڑی علمی اور حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کی ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ تأثر درست ہے؟
رانا شفیق خان پسروری:یہ بات بالکل غلط ہے، دنیاکے جس کونے میں بھی مسلمان ہو گا وہ ایسی خبروں پر شدید احتجاج کرتا ہے اور کر رہا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں سے بعض سے تو ہمیں آگاہی نہیں ہے ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہاں احتجاج نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ان کی بات کو مان بھی لیا جائے تو بھی کیا دنیا کے دوسرے ممالک کااحتجاج نہ کرنا اس بات کی دلیل بن سکتا ہے کہ اب ہم بھی آواز نہ اٹھائیں؟۔ تحفظ ناموس رسالت ایک ہمہ گیر کام ہے اور ہر مسلمان ہر وقت اسی فریضہ کی ادائیگی میں مصروف رہتا ہے۔
روزنامہ پاکستان:توہین رسالت قانون کے غلط استعمال کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟
رانا شفیق خان پسروری:یہ بھی ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ چند جاہل لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں کبھی توہین رسالت کا انتہائی غلط استعمال ہوتا ہے اور بالکل بے گناہ لوگوں کو اس کا شکار کر لیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو چند جاہل اور دینی تعلیم سے نا بلد لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے اس قانون کو استعمال کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قانون کے درست استعمال کے لئے بہت ضروری ہے کہ توہین رسالت کی کسی بھی درخواست کا جائزہ لینے کے لئے متعلقہ شہر کے ڈی پی او یا سی پی او کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم ہو ۔ اس کمیٹی میں تمام مکاتب فکر کے جید اور اہل علم علماء شامل ہوں۔ وہ حالات و واقعات کا جائزہ لیں اور اگر درخواست درست ہو تو نہ صرف یہ کہ مقدمہ درج کیا جائے بلکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا جلد از جلد دی جائے۔ لیکن اگر درخواست غلط ہو تو درخواست دینے والے کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔

مزید :

ایڈیشن 2 -