پاکستانیوں کے رویے کیسے بدلیں گے؟

  پاکستانیوں کے رویے کیسے بدلیں گے؟
  پاکستانیوں کے رویے کیسے بدلیں گے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان میں رہنے والے لوگوں اور امریکہ، جاپان، یورپ اور آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کے رہنے والوں میں کیا فرق ہے؟ بظاہر کوئی بھی انسان ضروریات، خواہشات اور حقوق کے حوالے سے دوسرے انسان سے مختلف نہیں ہوتا ہے،بلکہ ان خصوصیات کے حساب سے نئے اور پرانے زمانے کے لوگوں میں بھی کچھ زیادہ فرق نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ہر دور میں نئی نئی ایجادات آ جاتی ہیں. پاکستانی  کسی بھی طرح دوسرے ممالک کے لوگوں سے الگ نہیں ہیں۔ دراصل انسان ہیں ہی ایک جیسے ان میں جو فرق ہوتا ہے وہ عادات یا رویوں کا ہوتا ہے. ہر علاقے کی تہذیب دوسرے علاقوں سے کچھ مختلف ہوتی ہے، لیکن انسانی قدروں اور اخلاقیات میں فرق نہیں ہونا چاہیے تہذیب اور رسم و رواج اور چیز اور سوچ، اخلاق، منفی اور مثبت رویے دوسری بات ہوتے ہیں۔ اگر ہم پاکستانیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو دنیا کے کئی ممالک میں پاکستانیوں کا ذکر اچھے انداز میں بھی ہوتا ہے، لیکن خود ہر پاکستانی اپنے ہم وطنوں کو ساری دنیا کے انسانوں سے برا سمجھتا ہے، اس کی وجہ تلاش کی جائے تو بے شمار وجوہات سامنے آ جاتی ہیں بیرون ممالک پاکستانیوں سے لوگ خوش بھی ہیں ان کی صلاحیتوں سے مستفید بھی ہو رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کے حوالے سے منفی رحجانات بھی بہت زیادہ ہیں اسی لئے بہت سارے ممالک نے پاکستانیوں پر ویزے کی پابندیاں بھی سخت کر رکھی ہیں، لیکن سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان کے پاسپورٹ کی حیثیت آخری 4 ممالک میں آتی ہے، حالانکہ پاکستان 24 کروڑ کی آبادی والا ایٹمی ملک ہے جن دوسرے ممالک کے پاسپورٹ کی حیثیت کمزور ہے ان میں جنگ زدہ ممالک عراق، افغانستان، صومالیہ اور شام ہیں ہمارے لئے یہ شرمندگی کا باعث ہے کہ ہمارا پاسپورٹ اس قدر کمزور ہے پاسپورٹ کسی بھی ملک کی شناخت کے ساتھ ساتھ اس ملک کی حیثیت اور طاقت ظاہر کرتا ہے اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں میں کس چیز کی کمی ہے؟ ہم کس وجہ سے برے ہیں؟ دنیا کے کسی بھی ملک میں جا کر دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی چور ہے نہ جرائم پیشہ ہے، بیرون ممالک پاکستانیوں کی بھاری اکثریت امن پسند اور محنت کرنے والی ہے جبکہ دوسرے کئی ممالک  کی کمیونٹیز منشیات فروشی، چوری اور کئی دوسرے جرائم میں ملوث ہوتی ہیں پاکستانیوں کا مسلہ تربیت کا ہے پاکستانی جھوٹ بولتے ہیں،لاپرواہی کرتے ہیں، صفائی کا خیال نہیں رکھتے، معمولی فائدے کے لئے چھوٹی چھوٹی ہیرا پھیریاں کرتے ہیں اور سب سے بری عادت یہ کہ کہیں بھی اپنی غلطی نہیں مانتے،بلکہ اپنی کی گئی غلطی کے جواز پیش کرتے ہوئے غلطی کا دفاع کریں گے اور بہت جلد غصے میں آ جائیں گے۔یہ رویے ہم اپنے وطن میں بھی جگہ جگہ ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ ٹریفک کے اندر کوئی بندہ قانون کا احترام کرتا نظر نہیں آتا ہے اگر صفائی کی بات کی جائے تو شاید دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نظر نہ آئے جو ہم سے برا ہو، آپ کسی پارک میں دیکھ لیں، سڑکوں پر، ہسپتالوں کے اندر اور باہر مذہبی مدرسوں کے باہر ہر جگہ گند نظر آتا ہے انتہا یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے چند قدم پر کوڑے دان لگا ہوتا ہے، لیکن پھر بھی لوگ کوڑہ باہر پھینکتے ہیں اسی طرح ٹریفک قوانین کی پابندی کرنے کو لوگ اپنی کمزوری سمجھتے ہیں اور قانون توڑنے کو اپنی بہادری یا ہوشیاری گردانتے ہیں جھوٹ بول کر معمولی فائدہ لینے کو بھی اپنی صلاحیت سمجھتے ہیں پاکستانی عوام میں کہیں بھی توازن نظر نہیں آتا ہے۔ جب کسی کی مدد کرتے ہیں تو فرشتہ بھی بن جاتے ہیں تو کسی جگہ برائی میں شیطان کو بھی شرما دیتے ہیں. پاکستانیوں کی خوبیاں اور خامیاں لکھنے کے لئے کتاب کی ضرورت ہے کالم میں صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ ہمیں ضرورت ہے تو صرف تربیت اور اعتبار کی ہے اگر کوئی حکمران قانون پر پابندی کا بندوبست کر دے،جو سب کے لئے برابر ہو اور تعلیمی نظام ایک کر کے نرسری سے بچوں کی درست تربیت کا اہتمام کر دیا جائے تو پاکستانی قوم دنیا کی بہترین قوم بن سکتی ہے۔ ہمارے ساتھ ہر دور میں حکمرانوں نے دھوکے کیے ہیں، جس سے ہر فرد کا اعتبار ختم ہوا ہے، پہلے اس خطے پر کئی دہائیوں تک غیر ملکی فاتحاؤں نے قبضہ رکھا اور عوام  کو دھوکے میں رکھا پاکستان بننے کے بعد بھی ہمارے اپنے حکمرانوں نے بھی وہی روش اپنائی اور عوام سے کبھی سچ نہیں بولا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -