ایان علی کا جامعہ کراچی سے خطاب
عزیز طَلَبہ! مجھے یقین ہے کہ جامعہ کراچی میری آمد پر جس عزت افزا ئی کی مستحق ٹہری ہے اُس پر وہ میری شکر گزار ہوگی۔ جس طرح میرا یہاں آنا آپ کے لئے کوئی معمولی بات نہیں، ٹھیک اسی طرح میرا یہاں آنا خود میرے لئے بھی کوئی معمولی بات نہیں۔ کیونکہ یہاں آنے کی اہلیت پیدا کرنے کے لئے بلاول ہاؤس کے خفیہ پھیرے اور جیل میں کئی مہینے گزارنے پڑتے ہیں۔ پہلے زمانے میں لوگ تقریریں کرتے تھے اور جیل جاتے تھے۔ اب جیل پہلے جاتے ہیں اور پھر آکر تقریریں کرتے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ جامعہ کراچی میں میرا یہ پھیرا دبئی کے پھیرے سے زیادہ فائدہ مند نہیں ، اور گھورتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو جو راحت مجھ سے پہنچ رہی ہے وہ مول تول میں نہیں آسکے گی۔ اس کے باوجود میری یہاں آمد میری ’’غیرتجارتی‘‘اور آپ کی ’’تجارتی ‘‘سرگرمیوں کا واضح ثبوت ہے۔
اگرچہ مجھے یہ عنوان دیا گیا تھا کہ میں’’نظر کی حفاظت اور سترپوشی کے فضائل‘‘ پرگفتگو کروں۔ اس سے قبل وینا ملک اس پر’’ مفصل‘‘ اور’’ باتصویر ‘‘تحقیقی کام کرچکی ہے ،میں اس میں مزید اضافہ نہیں کر سکتی۔ وہ آج کل اپنی تحقیق کے ثمرات میں ایک عدد ’’شوہر‘‘ کا ثواب بھی پارہی ہے۔ پھر جب سے وہ عبدالستار ایدھی سے ملی ہے تب سے وہ بستر پر بیمار پڑے ہیں، بیچارے کہیں کے۔پھر بھی میں آپ کو برج الخلیفہ میں فلیٹ خریدنے کے شارٹ کٹ اور شارٹ کٹس بھی بتا سکتی ہوں ۔ اس کے علاوہ میں آپ کو بلاول ہاؤس کے خفیہ دروازوں کے بارے میں بھی خاصی آگاہی دے سکتی ہوں۔مَیں نے آخر دردر کی خاک چھانی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی گھونٹ گھونٹ پیا ہے، جس کے باعث میرے اندر ایک خوش سلیقگی پیدا ہوگئی ہے۔ مَیں چاہتی ہوں کہ آپ بھی اس سلیقے کو اپنائیں ۔۔۔ یادرکھیں:
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئے
مَیں تمہاری نصابی کتابوں کے موضوعات سے کچھ بڑھ کر ہوں ، اِسی لئے شاملِ نصاب نہیں ہوں، مگر :
مجھ کو بھی پڑھ کتاب ہوں ، مضمونِ خاص ہوں
مانا تیرے نصاب میں شامل نہیں ہوں میں
اچھے بھلے لوگ میرے یہاں آنے پر معترض بھی ہوں گے۔وہ لوگ بھی جو کھلے کھلے مجھ پر اعتراض کرتے ہیں اور چھپے چھپے مجھ سے ملنے کے لئے منتیں کرتے ہیں۔ اِسی جامعہ میں رحمان ملک کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ جب کہ میں نے تو یہاں آکر خود آپ کے لئے ایک’’ اعزازی راحت‘‘ کا سامان کیا ہے۔جب کسی کو اس پر شرم نہیں آئی تو اب کس بات پر آتی ہے۔سو میری یہاں آمد رحمان ملک سے زیادہ نہیں تو کم بھی’’ فضیلت مآب‘‘ نہیں،پھر بھی :
ناقدرئ ہنر کی شکایت فضول ہے
نظمِ عامہ کے طَلَبہ جانتے ہیں کہ تنظیمی رویہ (Organizational behaviour ) کیا ہوتا ہے؟ مَیں بھی اِسی دشت کی سیاح ہو۔ مَیں نے تمہارے سماج کے تمام طبقات کی تمام تنظیمات کے رویوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ ایان علی کوئی شخص نہیں ایک کردار ہے اور وہ تمہارے سب کے اندر بکل مارے بیٹھا ہے۔ سب نے اپنے کردار سے اس کا بِکرتوڑا ہے۔ اِسی نے تو سب کا نا س مارا ہے۔ مجھے کیوں کوستے ہو،میں تو تمہارے اندر سے نکل کر تمہارے سامنے کھڑی ہوگئی ہوں،میں کہیں باہر سے نہیںآئی اور نہ ہی مجھے کسی نے بلایا ہے۔ اس لئے عزیز طَلَبہ لوگوں کی پروا نہ کیجئے!لوگوں کا کیا ہے، اُن کی تو عادت ہے کہ اگر وہ اپنی سگریٹ سورج سے جلا نہیں پاتے تو اُسے کوسنے لگتے ہیں۔ ان کے ضمیر کھیت سے تربوز چراتے ہوئے بیدار نہیں ہوتے۔ مگر یہی تربوز کچے نکلیں تو اچانک ان کے ضمیر بیدا رہونے لگتے ہیں۔میں نے کبھی کوئی کچا کام نہیں کیا اور ’’کچے کے لوگوں ‘‘سے بھی ایک خاص تعلق رکھا۔ چنانچہ مجھ میں ہر موسم کے پھل کی کچھ خاصیتیں پائی جاتی ہیں اس لئے مجھے ’’چُرانے‘‘ والوں کے ضمیر کبھی بیدار نہیں ہوئے۔اور مجھے ’’چِرانے‘‘ والے کبھی چین سے سو نہیں پائے۔ جیل سے رہائی میں مجھے سوئے ہوئے اس ضمیر کے خراٹے بھی صاف سنائی دیئے۔اور کبھی سو نہ پانے والوں بڑبولوں کے سناٹے میں آجانے کے مناظر بھی صاف دکھائی دیئے۔یاد رکھیں ! ہمارے پیارے ملک کی سب سے اچھی بات ہی یہ ہے کہ یہاں ضمیر صاحب ، کر، کرا کچھ نہیں پاتے۔ بس تھوڑا سا منہ کا ذائقہ خراب کر دیتے ہیں۔۔۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے علم کی جس شمع سے محبت کا درس دیا تھا وہ شمع میں ہی ہوں۔بس میرا اصلی پتا اور تو کسی لَلوپتو کو پتا نہیں تھا، اکبر الہٰ آبادی کو کہیں سے چل گیا تب ہی تو اُنہوں نے کہا کہ:
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغِ خانہ تھی
میں ساتھ ساتھ اس تاریخی غلطی کی اصلاح بھی کرتی چلوں جو خانہ خراب اکبر الہ آبادی نے مجھے پہلے چراغِ خانہ سمجھ کر کی ہے۔ میں کبھی خانے وانے کا چراغ بن کر نہیں رہی ۔بلکہ اس پر چراغ پا ہی رہی۔اس لئے جب بھی رہی، جہاں رہی ،بے بال وپر رہی ، بآنداز بحروبر رہی۔ میں ایک ایسی شمع بن کر رہی جس کے گرد پروانے آتے اور جلتے رہے۔یہ الگ بات ہے کہ جیل کی ہوا خوری کے بعد میرا حال بھی اکبر الہ آبادی کی زبان میں کچھ یوں ہو گیا ہے کہ :
پروانہ جل کے خاک ہوا شمع رو چکی
تاثیر حسن و عشق جو ہونا تھا ہو چکی
پھر بھی یقین جانئے! میں نے’’ پروانے‘‘ کا نام ایف آئی اے کو نہیں بتایا۔مشرقی وفا اِسی کو تو کہتے ہے۔ پوچھنے والا وہ موا انسپکٹر کہیں مرکھپ گیا مگر شمع نے رو دھو کے گزارا کر ہی لیا۔لوگ کہتے ہیں کہ رزق کی مصلحتوںیا ’’برکتوں‘‘ میں انسان اپنا جوہرِ پندار ، سرِبازار فروخت کر دیتا ہے۔ مجھے اس قابلِ فروخت شے ’’جوہرِ پندار‘‘ کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔ یہ جو بھی ہے، پتا نہیں کیا ہے؟ نظمِ عامہ کے طلبامجھے بتائیں کہ اُنہیں اپنے فنِ علم میں کہیں اس کی جھلک نظر آئی۔مجھے تو رزق اور عشق دونوں ہی میں سارے انسان بلا امتیازِ جنس بلکہ جن و انس ایک ہی طرح کے نظر آئے۔ اس میں بڑے چھوٹے ، عالم جاہل، منصب دار اور چوکیدار میں کوئی فرق نہیں۔ یہاں تک کہ آئی جی اور حوالدار میں بھی کوئی فرق نہیں اگر کچھ ہے تو وہ بس ایک ڈگری کا ہے اور وہ ڈگری یہی ہے جو آپ اس جامعہ میں میرا یا میرے جیسوں کا لیکچر سن کر پاتے ہیں۔اور یقین جانئے اس جامعہ کی دعوت ملتے ہی مجھے اندازا ہوا کہ یہ فرق بھی کوئی فرق ہی نہیں۔
ابھی ابھی مجھے ایک پرچی ملی ہے جس میں میرے ملبوس کے بارے میں جاری تبصروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ پتا نہیں کیوں ، ہمارے پہناوے پر لوگوں کو بڑے اعتراض ہیں۔ مگر میں اِسے ترک نہیں کرسکتی ورنہ اور زیادہ قیامت برپا ہو جائے گی،لہٰذا:
جو کچھ فلک دکھائے سو ناچار دیکھنا