یوٹیلیٹی سٹورز بند
وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اِسے دی جانے والی 50 ارب روپے کی سبسڈی بھی ختم کر دی ہے۔ وفاقی حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت ملنے والا اضافی ریلیف بھی بند کر دیا ہے، اب اُنہیں بھی دیگر صارفین کی طرح یوٹیلیٹی سٹور کے نرخ کے مطابق ہی اشیائے ضروریہ ملیں گی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وزارتِ صنعت و پیداوار کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے دو ہفتے میں یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن بند کرنے سے متعلق تجاویز مانگ لی ہیں، اُنہوں نے حکم دیا کہ یوٹیلیٹی سٹور پرسبسڈی کے بجائے غریب عوام کونقد ریلیف دینے کی تجاویز تیار کی جائیں گی۔ اُن کے مطابق حکومتی اداروں کی اصلاحات کا مقصد قومی خزانے پر بوجھ کو کم کرنا اور عوام کے لیے خدمات کو مزید بہتر بنانا ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ عوامی خدمت میں کارکردگی نہ دکھانے اور قومی خزانے پر بوجھ بننے والے حکومتی اداروں کو مکمل طور پر بند کیا جائے گا یا پھر اُن کی نجکاری کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ وفاقی وزیر صنعت اور پیداوار رانا تنویر نے کہا کہ یوٹیلیٹی سٹورز کو بند نہیں کیا جا رہا بلکہ اِسے ری سٹرکچر کیا جا رہا ہے، سبسڈی مستحق افراد تک نہیں پہنچتی، حکومت کی کوشش ہے کہ اشیاء پر دی گئی سبسڈی مستحقین تک پہنچے۔ اجلاس میں سیکرٹری صنعت اور پیداوار نے بتایا کہ رائٹ سائزنگ کے تحت وفاقی حکومت یوٹیلیٹی سٹورز کو بند کرنے کا سوچ رہی ہے، اِس سلسلے میں کمیٹی کے فیصلے کابینہ کو بھیجے جائیں گے۔ سیکرٹری انڈسٹریز کا کہنا تھا کہ یوٹیلیٹی سٹورز سے متعلق وزارت عملدرآمد کے لیے ایک ایکشن پلان دے گی جبکہ ملازمین کے لیے پیکیج پر بھی کام کیا جا رہا ہے، حکومت مالی مشکلات کے باعث نجکاری کر رہی ہے۔اُنہوں نے بتایا کہ حکومت یوٹیلیٹی سٹورز ملازمین کو دوسرے اداروں میں بھیجنے پر بھی کام کر رہی ہے، وہ غیر ضروری کاروبار سے باہر نکلنا چاہتی ہے،یوٹیلیٹی سٹورز پر ریلیف دینے سے مقابلے کی فضاء ختم ہو جاتی ہے۔اِس سلسلے میں یوٹیلیٹی سٹور انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اُن کو دو ہفتے کا وقت دیا گیا ہے جبکہ ان سٹورز پر دستیاب اشیاء پر سبسڈی پہلے ہی ختم کر دی گئی ہے۔ انتظامیہ کے مطابق سٹورز بند ہونے کی خبر سے 11ہزار سے زائد ملازمین تشویش میں مبتلا ہیں،چھ ہزار مستقل جبکہ دیگر ملازمین کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر ہیں۔ انہوں نے سبسڈی سے متعلق کہا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت چینی 109 روپے کلو تھی جو اب 155 روپے کلو کر دی گئی ہے، 10 کلو آٹے کا تھیلا اب 1500روپے کا ملے گا جبکہ 380 روپے والا گھی 450 روپے کلو کر دیا گیا ہے۔ سیکرٹری آل پاکستان ورکرز الائنس عاطف شاہ نے کہا کہ حکومت یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن حکومت پر بوجھ نہیں بلکہ حکومت اس کی 20 ارب روپے کی مقروض ہے، حکومت کو اشیائے ضروریہ کی مد میں کمپنیوں سے سالانہ 120 ارب ٹیکس موصول ہوتا ہے جس میں سے 25 ارب صرف یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن ادا کرتا ہے جو تقریباً 18 فیصد بنتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ حکومت سے پیسے نہیں لیتے بلکہ تمام ملازمین کی تنخواہیں ادارہ خود ادا کرتا ہے۔ ملک بھر میں 4000 سے زائد مستقل سٹور جبکہ 1500 فرنچائز ہیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کی آل پاکستان نیشنل ورکرز یونین سی بی اے کا ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک گیر ہڑتال ہو گی اور احتجاج بھی کیا جائے گا جس کا آغاز پیر سے کیا جائے گا۔
یوٹیلیٹی سٹورز 1971ء میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں بنائے گئے تھے، ان کو بنانے کا مقصد عوام کو بازار کے مقابلے میں سستی اور معیاری اشیاء فراہم کرنا تھا۔اس وقت یہ لوگوں کے لیے فائدہ مند تھے،اس کی شاخیں کم تھیں لیکن اشیاء معیاری تھیں اور نرخ بھی بازار سے کم تھے، بڑی تعداد میں لوگ اِس سے مستفید ہوتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ خرابی پیدا شروع ہونے لگ گئی،اِس کا بھی وہی حال ہوا جو بہت سے دوسرے اداروں کا ہوا، اشیاء کا معیار گرتا گیا، بدعنوانی کی خبریں بھی آنے لگیں۔ اِس وقت ملک کی آبادی قریباً 25 کروڑ ہے اور پاکستان بھر میں اِن سٹورز کی تعداد تقریباً ساڑھے چار ہزار کے قریب ہے۔اِس وقت حکومت ہر اُس ادارے کو بند کرنے یا اس کی نجکاری کی ٹھانے بیٹھی ہے جس سے کسی بھی قسم کا نقصان ہوتا ہے لیکن معاشی ماہرین کے مطابق ایک دم اداروں کو بند کر دینے اور ٹیکس بڑھا دینے کا براہِ راست اثر عوام پر پڑتا ہے،ان میں بے چینی بڑھتی ہے اور افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ آئر لینڈ، آسٹریا، ڈنمارک، کینیڈا، سپین اور سویڈن میں 80ء اور 90ء کی دہائیوں کے دوران ان کی معیشت غیر مستحکم ہوئی تاہم پھر انہوں نے اپنے اخراجات کم کرنے سمیت دیگر مطلوبہ اقدامات کیے جن سے ان کی معاشی صورت ِ حال بہتر ہوئی اور اب تک مستحکم ہو چکی ہے۔
ہمارے ملک میں المیہ یہ ہے کہ مناسب منصوبہ بندی کے بغیر وقتی اقدامات کئے جاتے ہیں، پالیسی میں تسلسل نہیں رہتا جس کا خمیازہ کسی نہ کسی صورت میں عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایسے میں یوٹیلیٹی سٹورز بند کر دینے کا فیصلہ لوگوں کے لیے برداشت کرنا ذرا مشکل ہی ہے، بھلے ہی حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ ملازمین کے لیے متبادل انتظام کرے گی لیکن جو لوگ کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز پر کام کر رہے ہیں اُن کا کیا مستقبل ہو گا اور جن کی عمریں وہاں گزر گئیں وہ اب کہاں ملازمت ڈھونڈیں گے۔ حکومت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ وہ اس کی جگہ زیادہ موثر نظام لائے گی، بہتر یہ ہوتا کہ حکومت کے پاس جو بھی پلان اور حل تھا پہلے اُسے پیش کرتی، ملازمین کو متبادل روزگار کے اسباب مہیا کرتی، نئی نوکریوں پر تعینات کرتی اور پھر اِس ادارے کو بند کرنے کی بات کرتی۔ویسے کوئی بھی فیصلہ صادر کرنے کی بجائے ادارے کے ملازمین کو اعتماد میں لیا جاتا، اُن سے گفتگو کی جاتی۔ اگر مسائل حل کرنے ہیں تو اربابِ اختیار کو اپنے رویوں پر بھی غور کرنا پڑے گا، اپنی آسائشوں میں کمی کریں، بچت کریں، سادگی اپنائیں، سارا نزلہ عوام پر گرانے سے پرہیز کریں۔ یوٹیلیٹی سٹورز تھوڑا بہت ریلیف تو دے ہی رہے تھے، اگر کچھ مسائل تھے، کرپشن تھی تو اِس کی طرف توجہ کی جانی چاہئے تھی، اسے ختم کیا جانا چاہئے تھا، کسی بھی چیز کو مکمل طور پر بند کرنے سے بہتر ہے صفیں درست کر لی جائیں۔