وہ کسی ایسے اقدام پر راضی نہیں ہوں گے جو پاکستان کی خود مختاری کو کم کرے!
لیفٹیننٹ کرنل غلام جیلانی خان (ر)
مسلح افواج کی ترتیب ِ نو
برطانیہ نے جان جوکھوں میں ڈالنے والی دوسری عالمی جنگ اس لئے نہیں لڑی تھی کہ وہ بحرہند میں اپنی ایمپائر کو اپنے ہاتھوں ہی سے گنوا دے گا۔
یکم فروری 1945ء کو مسٹر ایمرے (Amery) نے کہ جو سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا تھا، برطانیہ کی جنگی کابینہ کے لئے ایک یادداشت لکھی۔ اس میمورنڈم میں انتقالِ اقتدار کے بعد برٹش ٹروپس کے، انڈیا میں مقیم رکھنے کی ضرورت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
”1936ء میں اینگلو۔ مصری معاہدے کی شرائط قابلِ غور ہیں۔ یہ معاہدہ برطانوی حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ 20برس تک ایک محدود تعداد میں اپنی سپاہ ایک محدود اور منتخب علاقے میں مقیم رکھ سکتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے اس سپاہ کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ نہرسویز میں جہاز رانی کے لئے سیکیورٹی اور آزادی فراہم کرے۔ یہ برطانوی سپاہ تمام تر برٹش کنٹرول میں ہو گی اور مصر کی عدالتوں میں اس کے خلاف کوئی بھی مقدمہ دائر نہیں کیا جا سکے گا۔
ہرچند کہ یہ معاہدہ برٹش فورسز کو مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اگر کسی بھی وجہ سے اور کسی بھی حالات کے پیش نظر برطانوی فورسز کی سیکیورٹی خطرے میں نظر آئے تو یہ برطانوی سپاہ مداخلت کر سکتی ہے۔
دوسری طرف انڈیا کی صورتِ حال پر نظر ڈالیں۔ وہ فضائی مواصلات جو انڈیا کی فضاؤں میں سے گزرتی ہیں وہ اس امر کو لازم بنا دیں گی کہ نہ صرف ان ہوائی اڈوں کی حفاظت کی جائے کہ جو انڈیا کے ساحلوں پر پھیلے ہوئے ہیں بلکہ ان کی خبرگیری بھی رکھی جائے جو انڈیا کے اندرونی علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ایسی مسلح افواج کی ضرورت رہے گی جو ان ہوائی اڈوں کو زیرِ حفاظت رکھ سکیں اور برطانوی کنٹرول میں ہوں۔ یہ مسلح افواج انڈیا کے طول و عرض میں رکھی جانی لازم ہوں گی۔اگر انڈیا کا صرف سرحدی دفاع ہی مقصودہو تو بظاہر یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ برٹش ٹروپس کو انڈیا کے شمال مغربی یا شمال مشرقی بازوؤں (Flanks) پر سٹیشن کر دیا جائے۔ لیکن اس صورتِ حال میں بھی یہ ضرورت باقی رہے گی کہ ان سرحدی علاقوں کو انڈین بندرگاہوں سے منسلک کر دیا جائےّ یہ مواصلاتی لائنیں انڈیا کے عمق (Depth) تک میں پھیلی ہوں گی۔ اس مقصد کے لئے جو برٹش ٹروپس انڈیا میں تقسیم کئے جائیں گے۔وہ اس ملک کے اندرونی حکام سے بھی رابطے میں رہیں گے اور ایک بڑے سکیل پر مقامی اربابِ اختیار سے ان کو راہ و رسم بھی رکھنی پڑے گی…… یہ صورتِ حال مصر کے ساتھ 1936ء والے معاہدے میں نہیں تھی!“
28 فروری 1945ء کو مسٹر آمرے نے انڈیا کمیٹی کے ایک اجلاس میں کہا کہ انڈیا میں ’انڈین حکومت‘ کا مطلب یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ برصغیر سے تمام برطانوی ٹروپس باہر نکل جائیں!
جہاں تک انڈین آرمی کو قومیائے جانے (انڈینائزیشن) کا سوال ہے تو یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ انڈیا کے 450افسروں کو کہ جو آج ایمرجنسی کمیشن ہولڈر ہیں، ان کو ریگولر کمیشن دے دیا جائے۔ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ انڈیا میں اس وقت 8000 آفیسرز ایسے ہیں جو ایمرجنسی کمیشن ہولڈر ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر انڈیا میں 850آفیسرز ”ریگولر کمیشن ہولڈر“ ہوں گے جن کی تفصیل یہ ہے:
1۔ دوسری عالمی جنگ سے پہلے ریگولر کمیشن ہولڈرز: 400
2۔ ایمرجنسی کمیشن کے آفیسرز جن کو ریگولر کمیشن دیا جائے گا: 450
میزان 850
5مارچ 1945ء کو انڈیا کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا نے کہا کہ ہندوستانیوں کو فوج کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کے لئے دس سے پندرہ برس درکار ہوں گے۔ دریں اثناء انتقالِ اقتدار کے بعد بھی ایک برٹش آفیسر ہی انڈیا کا کمانڈر انچیف رہے گا۔
27مارچ 1945ء کو سیکرٹری آف سٹیٹ نے سر ایم مینے (M.Mayne) کا لکھا ہوا ایک پیپر، سرکاری اداروں میں ارسال کیا جس کا عنوان تھا: ”انڈیا کی آئینی اصلاحات کی عسکری مشکلات“۔ جنرل مینے (Mayne) سیکرٹری آف سٹیٹ کا پرنسپل سٹاف آفیسر تھا۔ اس نے لکھا:
”موجودہ صورتِ حال میں تو انڈیا سینئر کو چھوڑیں جونیئر عسکری مناصب کے لئے بھی مستقبل قریب میں مطلوبہ تعداد میں ایسے آفیسرز پیدا نہیں کر سکے گا جو کمانڈ یا سٹاف کے عہدوں کو پُر کر سکیں اور مستقبل قریب میں نہ ہی انڈینائزڈ آرمی برٹش یونٹوں اور برٹش افسروں کے ساتھ برابری کے معاملات بھگتا سکے گی…… جہاں تک وہ دن یا تاریخ بتانے کا تعلق ہے کہ جب انڈین آرمی انڈین افسروں کے ساتھ جن کی اہلیت ثابت شدہ ہو ایک متوازن آرمی کہلانے کی حقدار ہو گی تو ایسا ہونے میں 20یا 25برس کا عرصہ لگے گا!
اس عبوری عرصے (20یا 25برس)کے دوران، انڈین آرمی درجِ ذیل اقسام پر مشتمل ہو گی:
1۔ ایک انڈینائزڈ فیلڈ آرمی جس میں برٹش یونٹوں اور افراد کا کوٹہ بتدریج گھٹتا رہے گا۔
2۔ ایسی انڈین فارمیشنز اور یونٹیں جن میں برٹش افراد کا کوٹہ بتدریج کم ہوتا چلا جائے گا۔ یہ انڈین پولیس اور کنسٹیبلری کو سپورٹ دیں گی۔
3۔ایک برٹش کامن ویلتھ (دولتِ مشترکہ) یا اقوام متحدہ کے ایسے سٹرٹیجک ریزروز جو حکومت برطانیہ یا انڈین گورنمنٹ کے ماتحت ہوں گے…… ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس عبوری مدت کے دوران، سٹرٹیجک ریزروز برطانیہ کے کنٹرول ہی میں رہیں گے۔ یعنی سپاہ تو بیشتر انڈین ہو گی لیکن کنٹرول برطانیہ کا ہوگا۔
1947ء میں پاکستان آرمی کو جو آفیسرز ورثے میں ملے، ان کی صورتِ حال یہ تھی:
آرم / سروس
مطلوب
دستیاب
٭ ہیڈکوارٹرز سٹاف (کرنل رینک سے اوپر)
100
10
٭ سٹاف (کرنل رینک سے نیچے)
1720
490
٭ آرمرڈ کور
290
140
٭ آرٹلری
400
130
٭ انجینئرز
700
80
٭سگنل
250
80
٭ انفنٹری
1650
1060
٭ سروس کور (ASC)
700
450
٭ آرڈننس
540
250
٭ای ایم ای (EME)
400
20
٭ میڈیکل
800
620
٭ متفرق
200
120
میزان
7750
3450
(ان میں سے 118آفیسرز ایسے تھے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ میں سٹاف کالج کوئٹہ سے کوالی فائی کیا تھا)
دوسری عالمی جنگ سے پہلے درج ذیل چھ افسروں نے سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجوایشن کی تھی:
نام
سال
1
کیپٹن کے ایم کری آپا
1933-34ء
2
کیپٹن کلونت سنگھ
1936-37ء
3
کیپٹن شیودت سنگھ
1937-38ء
4
کیپٹن PN تھاپر
1938ء
5
کیپٹن نرنجن سنگھ گِل
1938ء
6
کیپٹن بی ایس چمنی
1938ء
یکم ستمبر 1939ء کو دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی۔ جنوری 1940ء سے دسمبر 1946ء تک سٹاف کالج کوئٹہ میں 14مختصر کورس چلائے گئے۔ ان میں برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور انڈیا کے آفیسرز نے شرکت کی۔ ان کورسوں میں 310 انڈین آفیسرز نے کوالی فائی کیا۔ مسلمانوں کا حصہ 118آفیسرز تھا۔
انڈین کمیٹی کے اجلاس منعقدہ 29مارچ 1945ء میں سر جیمز گِرگ (James Grigg) سیکرٹری آف سٹیٹ برائے جنگ نے کہا کہ سرکارِ برطانیہ کو ٹرانسفر آف پاور کی کوئی مقررہ تاریخ فکس (Fix) کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ جب تک انڈین آرمی اعلیٰ عہدوں کے لئے برٹش آفیسرز پر انحصار کرتی رہے گی اور جب تک انڈین گورنمنٹ داخلی سلامتی کے لئے برٹش ملٹری امداد کی محتاج رہے گی، انتقالِ اقتدار (ٹرانسفر آف پاور) کی ضمانت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی کوئی وعدہ وعید کیا جا سکتا ہے!
مستقبل میں اگر انڈینائزیشن کا انداز وہی رہا جو ماضی میں فوج کی کارکردگی پر منحصر خیال کیا جاتا رہاہے تویہ عمل ”ابد“ تک چلتا رہے گا اور انڈین آفیسرز کے لئے اعلیٰ عہدوں کے لئے کوالی فائی کرنے کا کوئی چانس نہیں ہوگا!
اوائل 1946ء میں جنرل سرفرانسس ٹُکر (Francis Tucker)جرنل آفیسر کمانڈنگ (GOC) ایسٹرن کمانڈ (انڈیا) نے انتقالِ اقتدار کی صورت میں انڈیا کے دفاع کے موضوع پر ایک جائزہ پیش کیا۔ جنرل ٹُکر نے سفارش کی:
1۔ پاکستان اور انڈیا کی افواج (Armies) کو داخلی سلامتی کے رول تک محدود کر دیا جائے۔ (بطور مسلح کانسٹیبلری)
2۔ ایک غیر جانبدار فورس تشکیل دی جائے جس کا کنٹرول برطانیہ یا دولت مشترکہ کے افسروں کے پاس ہو اور وہ برصغیر کا دفاع کرے۔ اس فورس کو صوبہ سرحد (NWFP) بلوچستان اور آسام میں مقیم کیا جائے۔ اس کا ہیڈکوارٹر اور اس کے سنٹرل ریزرو پونا میں ہوں۔
3۔ یہ غیر جانبدار فورس انڈیا اور پاکستان کے درمیان کسی ہونے والی جنگ کو روکنے کی بھی ذمہ دار ہو گی۔
28مارچ 1946ء کو قائداعظم ؒ نے لیفٹیننٹ جنرل سر آرتھر سمتھ (Arthur Smith) سے ملاقات کی جو انڈین آرمی کے چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ قائداعظم ؒ نے اس سے پوچھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے کمانڈرانچیف کی پوزیشن کیا ہوگی؟ جنرل سمتھ نے جواب دیا کہ منقسم انڈیا کی صورت میں دفاع کے موضوع کو الگ الگ اور منقسم نہ سمجھا جائے۔ جنرل سمتھ نے تجویز دی کہ دفاع کے لئے ایک ادارہ بنایا جائے جو پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کی نمائندگی کرے اور جس کے سامنے کمانڈر انچیف جواب دہ ہو۔
قائداعظم ؒ نے کہا کہ ایسا کرنا ناممکن ہوگا کہ یہ انتظام دونوں حکومتوں (انڈیا اور پاکستان) کی خود مختاری سے متصادم ہوگا۔
اس کے بعد جنرل سمتھ (Smith)نے تجویز دی کہ دونوں ریاستوں کو ایک معاہدہ کر لینا چاہیے کہ دفاعی پالیسی اور اس پر عملدرآمد کو ایک ارتباطی ادارے (Coordinating Body) کو سونپ دیا جائے۔
قائداعظم ؒ نے اصرار کیا کہ دونوں ریاستوں کی اپنی اپنی اور الگ الگ افواج ہوں جو کسی جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا معاہدہ کر لیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ معاہدہ کسی ایسے ملک سے نہیں کیا جا سکتا جس کے پاس سپیرئیر پاور ہو اور وہ دو آزاد حکومتوں سے مذاکرات کا اختیار رکھتا ہو۔
جنرل سمتھ نے قائداعظم ؒ کے ساتھ اس انٹرویوکا خلاصہ درجِ ذیل الفاظ میں تحریر کیا:
”1۔ انہوں نے (جناح صاحب نے) اگرچہ تسلیم کیا کہ انڈیا کے اوورآل دفاع کے لئے ایک سنگل آرمی ناممکن ہے لیکن یہ بھی مانا کہ اگر باہر سے حملہ کیا گیا تو نہ ہی پاکستان اور نہ ہندوستان اس حملے کو روک سکیں گے۔ لہٰذا دو خود مختار ریاستوں کے درمیان معاہدہ کیا جائے……جنگ کے خلاف دفاع کے لئے یہ معاہدہ ہو (نہ کہ امن کے لئے)
2۔ ہر آرمی کا کمانڈ رانچیف اپنی حکومت کے سامنے ایک خود مختار ملک کی طرح جوابدہ ہو۔
3۔انہوں نے (جناح صاحب نے) یہ کہا کہ وہ کسی بھی ادارے کو پاکستان اور ہندوستان کا دفاع کرنے کا ذمہ دار نہیں گردان سکتے کیونکہ ایسا کرنا متعلقہ ریاست کی خود مختاری سے متصادم قرار پائے گا۔
4۔اگر انڈیا کا دفاع کسی ایک ادارے کو دے دیا جائے تو پھر پاکستان کو تو کیس ہی ”ختم“ ہو جائے گا کیونکہ دفاع ہی تو اس مسئلے کی اصل پرابلم ہے“۔
4اپریل 1946ء کو قائداعظم ؒ نے کیبنٹ وفد کے ساتھ ایک انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں مسٹر جناح نے یہ کہا کہ یہ ایک تسلیم شدہ بنیادی نقطہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان ایک مشترک دفاعی نظام پر رضا مند ہو جائیں لیکن وہ (قائد)ایک ایسی مشینری پر رضا مند نہیں ہو سکتے جو پاکستان کی خود مختاری کے لئے باعثِ توہین ہو۔
سرسٹا فورڈ کرپس نے کہا کہ کسی معاہدے میں تو خود مختاری کی توہین نہیں ہوتی۔قائداعظم ؒ کا جواب تھا کہ معاہدہ ایک رضاکارانہ ایکسرسائز ہے اور اسے کسی وقت بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔
لارڈ پیتھک لارنس (Pethick Lawrence) سیکرٹری آف سٹیٹ برائے انڈیا نے قائداعظم ؒ سے پوچھا کہ ان کو دفاع کے موضوع پر کسی آل انڈیا مشینری کے ساتھ کام کرنے پر کیا اعتراض ہے؟…… قائداعظم ؒ نے پوچھا: ”کسی قسم کی مشینری؟“ سرسٹا فورڈ کرپس نے کہا کہ ایسی مشینری کہ جس میں پالیسی اور ایڈمنسٹریشن دونوں شامل ہوں، ایک مشترک سیکرٹریٹ ہو سکتا ہے اور جوائنٹ چیف آف سٹاف ہو سکتے ہیں جن کی نمائندگی برابر برابر ہو اور جو مشترک دفاع کے اقدامات پر اکٹھے ہوں۔
قائداعظم ؒ نے کہا کہ وہ کسی بھی ایسے اقدام پر راضی نہیں ہوں گے جو پاکستان کی خود مختاری (ساورنٹی) کی توہین کرے یا اسے کم کرے۔(جاری ہے)