آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر64
دو دن بعد بارش رکی اور میں رائفل سنبھال کر تیندوے کی ٹوہ میں جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔منی رام نے میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ میری سفارش پر اس کے باپ نے اجازت دے دی۔ وہ بارہ بور کی دو نالی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی مگر اسے بندوق چلانے کا شوق بہت تھا۔ میں نے اس کی ہمت بڑھائی اور وعدہ کیا اگر موقع ملا تو تیندوے پر پہلے اسی کی گولی چلواوؤں گا۔ہم کیچڑ میں لت
پت دیر تک جنگل میں مارے مارے پھرتے رہے۔تیندوے کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ تیز بارش نے اس کے پنجوں کے نشان مٹا دیے تھے۔
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میلوں پھیلے ہوئے وسیع و عریض جنگل میں ایک سے زیادہ تیندوے ہوسکتے تھے۔کیسے پتا چلتا کہ وہ خاص تیندوا کون سا ہے۔۔۔اور یوں بھی وہ عادی آدم خور نہ تھا۔ محض اتفاق سے سار میں داخل ہوتے ہی مہابیر سے اس کی مڈبھیڑ ہو گئی اور گھبراہٹ میں اس نے حملہ کر دیا۔ راز داری کے پاس نے مہا بیر کوشور مچانے سے باز رکھا اور اس نے چپ چاپ مر جانا پسند کیا،تاہم جس رسوائی سے بچنے کے لیے مہابیر نے جان کی بھینٹ دی اور شانتی نے خود کشی کی، وہ ہو کررہی۔
ہلکی ہلکی پھوار رک رک کر پڑتی رہی اور ہم یونہی ادھر ادھر چکر لگاتے رہے۔چکاروں کا ایک جوڑا نظر آیا تو منی رام سے رہا نہ گیا۔
’’بڑے بھیا، کھانے کے لانے ایک آدھ پھسکرا جو مارلیو۔‘‘
’’کیوں،مرغی کھلانے کا ارادہ نہیں؟‘‘
’’وہ تو جتنی کھانی ہوں،سب آپ ہی کے لانے توہیں۔پن کباب کا مجا تو پھسکرا ہی میں آئے گا۔‘‘
پھسکراوہاں چھوٹے چنکاروں کی اس نسل کے لیے بولا جاتا ہے جوجوڑوں میں رہتے ہیں،یہ چھوٹے ہرن ہوتے ہیں۔کسی کو دیکھ کر پھس پھس کر آوازیں نکالتے ہیں،پھر اپنی چھوٹی سی دم ہلاتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔پھسکرار مارنے کو جی تو نہ چاہتا تھا مگر ایک نیا طریقہ آزمانے کا خیال آیا جو میں نے اپنے ماموں سے سیکھا تھا۔
تب اپنی رائفل منی رام کے حوالے کی اور بارہ پور میں ایسی جی کے کارتوس بھر کر اسی جگہ ساکت وصامت کھڑا ہو گیا جہاں سے چکارے بھاگے تھے۔منی رام کو تاکید کر دی کہ وہ بالکل چپ چاپ کھڑا رہے اور تماشا دیکھے۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
’’اتی ٹھاڑے رہنے سے کچھو فائدہ نہ ہو گا۔ ڈھکائی کرکے کا ہے نا ہیں مارو۔‘‘
’’ڈھکائی کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’پھسکرا تو بھاگ لیے، بے فضول میں ٹیم خراب کررہے ہو۔اب وہ تو تھوڑی آئیں گے۔‘‘
’’آئیں گے،منی رام، ضرور آئیں گے۔تم چپکے کھڑے رہو۔‘‘
شکار کا یہ طریقہ خاصا صبر آزما اور تکلیف دہ ہے مگر اس میں کامیابی سو فیصد ہوتی ہے۔چکاروں کی عادت ہے جس جگہ سے بھاگتے ہیں،کچھ دیر بعد یہ تصدیق کرنے کے لیے پھر وہیں واپس آتے ہیں کہ وہ بھاگنے میں حق بجانب تھے یا نہیں۔چکاروں کی نظر میں بھی شاید کمزور ہوتی ہے۔وہ سیاہ اور بھورے تنے والے تیندو، اچار اور یاکرکے درختوں کے تنوں،جھاڑیوں اور چٹانوں کے درمیان خاکی کپڑوں میں ملبوس بے حس و حرکت کھڑے ہوئے آدمیوں میں تمیز نہیں کر سکتے۔(جاری ہے )
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر65 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں