آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر65
تقریباً چالیس منٹ گزر گئے اور دور دور چکا روں کا نام و نشان نہ تھا۔انتظار سے تنگ آکر میں اپنا منصوبہ ختم ہی کرنے والا تھا کہ دور جھاڑیوں کی درمیانی پگڈنڈی پر آہستہ خرای سے آگے پیچھے آتے ہوئے دونوں چکاروں پر میری نگاہ پڑی۔ تجربے کی کامیابی پر مسرت سے سانس پھولنے لگا۔ چکارے بڑے محتاط اناز میں چند قدم بڑھتے اور پھر ٹھہر کر گردوپیش کا جائزہ لیتے، کان ہلاتے،پھس پھس کرتے جیتے نتھنوں سے ہماری بوسو سنگھنے کی کوشش کررہے ہوں۔وہ ابھی تک زد میں نہ آئے تھے مگر فائر کرنے کا سب سے مناسب وقت وہی ہوتا ہے جب وہ قدم آگے بڑھا رہے ہوں۔
قدرت کا اصول ہے کہ جن جانوروں کی نگاہ کمزور ہو، ان کی قوت شامہ حیرت انگیز طور پر تیز ہوتی ہے۔کتے کی قوت شامہ تیز ہے مگر بصارت اسی اعتبار سے کم۔شیر قوت شامہ سے محروم ہے۔۔۔ہاتھی،ریچھ اور سور میں باصرہ کی کمی ہے۔اسی طرح سانپ سننے اور بچھو دیکھنے کی قوت سے قریب قریب محروم ہیں۔
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس وقت ہوا چکاروں کی سم سے ہمایر جانب چل رہی تھی،اس لیے وہ ہمارا وجود سونگھ نہ سکے تھے۔ہلکی ہلکی پھوار برابر جاری تھی۔ پیش منظر دھند لا تھا،اس لیے اور بھی اطمینان تھا۔اب میں نے موقع پاکر بندوق سیدھی کی اور ان کے زد میں آجانے کا انتظار کرتا رہا۔
چکارے تقریباً تیس گز ادر آگئے تو بندوق کی لبلبی پر میری انگلی بے چین سی ہو گئی اور پھر زوردار دھماکے کے ساتھ دونوں چکارے زمین پر لوٹنتے لگ۔ایس جی کے تین دانے نر کو لگے اور اور دومادہ کو،باقی خالی گئے۔میں نے چکارے ذبح کیے اور انہیں لے کر جب ہم اودھے پورہ پہنچے تو شام ہو چکی تھی۔
دوزوز بعد ایک بسوڑنے آکر بتایا،رات تیند وااس کے گھر کے قریب غرار رہا تھا جہاں سار میں بکریاں بند تھیں۔وہ موقع نہ پا سکا اور کوئی واردات کیے بغیر واپس چلا گیا۔
میں نے گھر کے قریب جاکر نرم زمین پر تیندوے کے نشانات دیکھے اور اس کے آنے کا راستہ ذہن نشین کرلیا۔ اسی شب گھر کے قریب ہی بیل کے درخت کے نیچے ایک بکرا بندھوایا اور تقریباً بیس گز دور،ایک لودھی کی بلندی پر بنی ہوئی چھپری میں پھونس اور بانس کی ٹٹیوں سے مناسب اوٹ بنوا کر بیٹھ گیا۔منی رام اپنی بارہ بور کے ساتھ میرے ہمراہ تھا۔ چکاروں کا شکار دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھ گیا تھا اور میں بھی حسب وعدہ یہی چاہتا تھا کہ میری ہدایات کے مطابق تیندوے پر پہلا فائر وہی کرے۔
رات اندھیری تھی۔گہرے بادلوں کے باعث ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ بکرا تنہائی اور بارش میں بھیگنے کے سبب مسلسل ہنگامہ مچاتا رہا۔رات کے دو بجے تک ہمیں اپنے شکار کی کوئی آہٹ نہ مل سکی، پھر بارش بھی کچھ دیر کے لیے رک گئی۔میرے تجربے کے مطابق تیندوے کی حملہ آوری کا سب سے مناسب وقت یہی تھا۔
میں اور زیادہ چوکنا ہو کر سمٹ گیا۔ بکرا، جوبیٹھ گیا تھا، اچانک اٹھ کھڑا ہوا۔رسی کی گنجائش کے برابر پیچھے ہٹا اور گلا پھاڑ کر مدد کے لیے چیخنے لگا۔پھر تین چار فٹ اونچی انڈبجور اور کانٹوں کی باڑ کے قریب ہلکی سے کھرکھراہٹ محسوس ہوئی جیسے کسی نے باڑ کو ہلایا اور پتوں پر رکے ہوئے پانی کے قطرے ایک ساتھ ٹپکے ہوں۔میں نے منی رام کو بندوق کا گھوڑا چڑھا کر مستعد رہنے کی تاکید کی۔ ذرا سا آگے کھسک کر اس نے میری ہدایت کے مطابق ٹٹی میں بنائے ہوئے بالشت بھر لمبے چوڑے سوراخ سے بندوق کی نالی باہر نکالی۔ اسی طرح کے دوسر ے شگاف سے میری رائفل پہلے ہی بکرے اور اس کے محاذ کو زد میں لیے ہوئے تھی۔
منی رام نے بتایا تھا، وہ بارہ بور کی بندوق پہلے بھی چلا چکا ہے اور دھان کے کھیت کی چوکسی کرتے ہوئے اس نے دو سور بھی مارے تھے۔بندوق اٹھانے،اسے گرفت میں لینے اور کارتوس لگانے یا گھوڑا(ہیمر)چڑھانے اتارنے کی مہارت دیکھ کر مجھے اس پر بھروسہ تھا۔اب بات صرف نشانے کی تھی، اسی لیے میں نے گولی کے بجائے ایل جی کا کارتوس چلانے کی اجازت دی تھی۔ سات دانوں میں سے دو ایک تو تیندوے کو لگ ہی جاتے۔ اس کے علاوہ میری نو ایم ایم رائفل کی گولی بھی مدد کے لیے موجودتھی، اس لیے پورا اطمینان تھا اور میں حسب وعدہ پہلا فائر کرنے کا موقع منی رام ہی کو دینا چاہتا تھا۔اس سارے عرصے میں میری نگاہیں بکرے پرمرکوز رہیں لیکن نہ جانے کب پپلتیوں کے جھنڈ سے نکل کر تیندوے نے اسے دبوچ لیا۔ خلاف توقع بکرے کی آواز بند ہو گئی ۔
بجلی چمکی اور بکرا مجھے پھر بیٹھا ہوا نظر آیا۔میں سمجھا،شاید خطرہ ٹل گیا اور وہ مطمئن ہو کر دوبارہ بیٹھ گیا ہے مگر اپنے قیاس پر اعتبار نہ آرہا تھا کہ بادل کے تڑاخ کے ساتھ دوبارہ بجلی کو ندی، شبہہ ساہوا، گویا وہ بکرانہ ہو،تیندوا ہو، تاہم روشنی کا وقفہ اتنا کم تھا کہ بارش کی پھوارکے پردے نے پیش منظر واضح نہ ہونے دیا۔نگاہ صحیح کام نہ کر سکی اور ساری قوتیں منتقل ہو کر سماعت پر مرکوز ہو اگئیں اوراب بکرے کے رخ پر میں نے مدہم سی خرخراہٹ کی آواز سنی۔
ایسے موقع پردرندے کی موجودگی کا اطمینان کیے بغیر ٹارچ روشن کرنا غلط اور بسا اوقات خطرناک ہوتا ہے اور پھر یہ اہتمام بھی ضروری ہے کہ فوکس کی ہوئی روشنی کا سب سے روشن دھبہ سیدھا درندے کی آنکھوں پر پڑے، ورنہ دوسری صورت میں یا تووہ چشم زدن میں اچھل کر نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے یا پھر جست لگا کر سیدھا اس جگہ پہنچتا ہے جہاں سے روشنی آرہی ہو۔ ویسے بھی ہم کھلے دالان میں زمین سے صرف چار پانچ فٹ بلند بہت غیر محفوظ بیٹھے تھے۔اسی لیے شبہے کے باوجو مجھے ٹارچ روشن کرنے میں تامل تھا۔
لائیو ٹی وی پروگرامز، اپنی پسند کے ٹی وی چینل کی نشریات ابھی لائیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مگر خرخراہٹ کی آواز نے میرا شبہہ یقین میں بدل دیا اور میں نے ٹارچ روشن کر دی۔ تیندوا،بکرے کا نرخرہ منہ میں دبائے اس کا خون پی رہا تھا۔ وہ خون سڑکتا تو بکرے کا سارا جسم سکڑ کر دوہرا سا ہو جاتا اور سانس باہر نکالتا تو پھر اپنی اصلی حالت پر آجاتا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اور جسم بھی دھند لا نظر آرہا تھا۔
میں نے اپنی رائفل سے اس کے سر کا نشانہ باندھا اور بائیں کہنی سے منی رام کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی بارہ بور سے فائر کرے۔ وہ تیندوے کو پہلے ہی زد میں لے چکا تھا۔ خوف و استعجاب یا پہلی مرتبہ تیندوے پر گولی چلانے کی خوشی کے باعث اس کا سانس پھول رہاتھا۔
منی رام بندوق کا دھکا برداشت نہ کر سکا اور دھماکے کے ساتھ ہی الٹ کر مجھ پر یوں گرا کہ میرا بھی ہاتھ ہل گیا۔ رائفل کی نالی اوپر اٹھ گئی اور اس پر نصب ٹارچ بھی۔ پھر تیندوے کی ’’اونہہ‘‘کی آواز سنائی دی۔سنبھلتے ہی میں نے فوراً رائفل اور ٹارچ کا رخ درست کیا مگراب قرب و جوار میں اس کا کہیں پتا نہ تھا۔وہ کانٹوں کی باڑ اور اس سے ملحق جھاڑیوں کی اوٹ میں نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔(جاری ہے)
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر66 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں