اچھے دنوں کی آمد
ان دنوں مجھے جس بھی فورم پر بات کرنے کا موقع ملتا ہے، میں ایک ہی بات کہتا ہوں کہ نہ صرف یہ کہ اچھے دنوں کا آغاز ہو چکا ہے بلکہ سال 2025 پاکستان میں ایک مضبوط اور مستحکم معاشی منظرنامے کا سال ہوگا کیونکہ 2023کے مقابلے میں 2024میں پاکستان نے وہ معاشی استحکام پالیا ہے جو کسی بھی ملک میں کاروبار اور روزگار کی سرگرمیوں کے لئے لازمی ہوتا ہے۔
جب میں ان فورمز میں گزشتہ ایک برس کے مقابلے میں آج کے معاشی اشاریوں کی جانب ان کی توجہ دلاتے ہوئے بتاتا ہوں کہ مہنگائی کی شرح 38فیصد سے کم ہو کر 4.9فیصد ہو چکی ہے۔ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے مجھ سمیت پوری کاروباری برادری کی جانب سے مسلسل آواز اٹھانے کے نتیجے میں بینکوں کی شرح سود میں آئے روز کمی دیکھی جا رہی ہے جو ایک سال قبل 22فیصد سے کم ہو کر آج 13فیصد ہو چکی ہے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ 2025 کے پہلے تین مہینوں میں اس حوالے سے خاطر خواہ کمی ہوگی اور شرح سود دس فیصد سے کم ہو جائے گی جس سے نہ صرف یہ کہ مختلف صنعتوں پر قرضوں کے بوجھ میں کمی واقع ہو گی بلکہ نئے منصوبوں کے آغاز کے لئے بھی آسان شرح سود پر قرضوں کی دستیابی ممکن ہو سکے گی۔ اس صورت حال کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو ہوگا کیونکہ ملک میں سرمایہ کاری کے نتیجے میں مختلف شعبوں میں نئے روزگار پیدا ہوں گے اور نوجوانوں کی کھپت آسان ہو جائے گی جو کل آبادی کا ساٹھ فیصد ہیں۔ اس لئے میرا اصرار ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں بلکہ ان کا آغاز ہو چکا ہے اور ہر کسی کو کمر کس لینی چاہئے۔
اسی طرح جولائی تا ستمبر کے دوران زرعی مشینری کی درآمدات 115.9 فیصدسے بڑھ کر 29.7 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ خریف 2024 کے دوران یوریا کی 2,746 ہزار ٹن فروخت ریکارڈ کی گئی جبکہ ڈی اے پی کی فروخت 642 ہزار ٹن رہی۔ جولائی تا ستمبر مالی سال 2024 کے دوران کھاد کی مجموعی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں 3.7 فیصد بڑھ کر 2.45 ملین ٹن ہو گئی۔ خریف 2024 کے دوران، جولائی تا اگست مالی سال 2024 کے دوران پانی کی دستیابی تسلی بخش رہی ہے۔یہ تمام عوامل زرعی شعبے کی ترقی پر مثبت اثر ڈالیں گے۔تمام گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ دیکھا گیاہے۔ کاروں کی پیداوار میں 29.9 فیصد اضافہ ہوا، ٹرک اور بسوں میں 95.5 فیصد اور جیپ اور پک اپ میں 34.1 فیصد اضافہ ہواہے۔ جولائی تا ستمبر کے دوران سیمنٹ کی کل ترسیل 10.3 ملین ٹن تھی جس میں سے ملکی سطح پر ہونے والی ترسیل 8.1 ملین ٹن رہی۔ سیمنٹ کی برآمدات میں 22.2 کا اضافہ ہواہے۔
پاکستان کو IMF پروگرام کے تحت 1.03 بلین امریکی ڈالر کی پہلی قسط موصول ہو چکی ہے، جس سے معاشی استحکام کو تقویت ملی ہے۔ مزید برآں، پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس 2024 کی کامیاب میزبانی کاروبار اور مارکیٹ کے اعتماد کے لیے راہ ہموار کر رہی ہے۔اکتوبر 2024 میں، پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی، جو علاقائی اقتصادی انضمام کے لیے ایک اہم لمحہ ہے۔ اس سمٹ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک بشمول چین، روس، بھارت اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنماؤں کو اکٹھا کیا گیا، جس میں علاقائی تجارت، روابط اور سیکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے پر توجہ دی گئی۔ پاکستان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کو وسعت دینے، توانائی کی شراکت داری کو گہرا کرنے اور علاقائی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو بڑھانے پر زور دیا۔روس کے ساتھ گیس پائپ لائن کے منصوبوں کو آگے بڑھانے اور تجارت کے لیے مقامی کرنسیوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے اہم معاہدے طے پا گئے۔ ان اقدامات سے پاکستان کی تجارتی صلاحیت میں اضافہ، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور توانائی کے تحفظ کو بڑھانے کی توقع ہے۔ سربراہی اجلاس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے ہدف کے ساتھ منسلک غذائی تحفظ کو یقینی بنانے، طویل مدتی لچک اور علاقائی استحکام کو فروغ دے کر ملک کے اقتصادی امکانات کو مزید بہتر بنانے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک میں معاشی بحالی کو یقینی بنانے کے لئے سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر کام کیا ہے۔ خاص طور پر خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کے پلیٹ فارم سے جس طرح ملک میں معاشی استحکام کو یقینی بنانے کے لئے کام ہوا ہے، لائق صد ستائش ہے۔ یہی نہیں بلکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے بھی اس فورم کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ جس طرح ہماری سیاسی و عسکری قیادت نے آئی پی پیز کے معاملے میں کاروباری برادری کی توقعات کے مطابق اقدامات کرکے بجلی کی لاگت میں کمی کے اسباب کئے ہیں اس سے جلد ہی ملک میں 9امریکی سینٹ فی یونٹ بجلی دستیاب ہوگی اور اس کے ساتھ ساتھ شرح سود بھی 9فیصد کے قریب ہو جائے گی۔ یہ دو اقدامات ہی ہماری معیشت کو چلانے کے لئے کافی ہوں گے۔
گزشتہ چار پانچ ماہ کے دوران میں نے ملک کے طول و عرض میں چیمبروں اور ٹریڈ ایسوسی ایشنوں کے دورے کئے ہیں اور کاروباری برادری میں وہ امید جگانے کی کوشش کی ہے جس سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو سکے۔ بلوچستان میں ہماری سرگرمیوں نے نہ صرف وہاں کی بزنس کمیونٹی کو متحرک کردیا ہے بلکہ بلوچستان حکومت بھی پوری طرح سرگرم ہو چکی ہے اور اگلے ماہ جنوری کے وسط میں اسلام آباد میں ایک ملک گیر کانفرنس کا انعقاد بھی ہونے جا رہا ہے جس میں مرکزی اور صوبائی سیاسی و عسکری قیادت بزنس کمیونٹی کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ترقی کے ویژن کو زیر بحث لاکر ان فیصلوں پر پہنچے گی جو بلوچستان کی ترقی کے لئے لازمی ہیں۔ بزنس کمیونٹی توقع کررہی ہے کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے نہ صرف ٹیکس ہالیڈے کا اعلان کیا جائے گا بلکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان وہاں سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے بینکوں کو سستے قرضوں کی فراہمی کے لئے ہدایات بھی جاری کرے گا۔
اسی طرح بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، ان دو صوبوں میں اپنے دوروں کے دوران میں نے بار بار محسوس کیا کہ بارڈر ٹریڈ کے سلسلے میں وہاں کی مقامی بزنس کمیونٹی کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ بلوچستان میں تو اس حوالے سے احتجاج بھی ہو رہے ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ بلوچستان حکومت بارڈر ٹریڈ کے سلسلے میں درپیش مشکلات میں کمی لانے کے لئے مرکزی حکومت کے ساتھ معاملے کو اٹھا کر بارڈر ٹریڈ پر انحصار کرنے والے بلوچی اور پٹھان تاجروں کے مسائل میں کمی کا سامان کرے گی۔