معلوماتی سفرنامہ۔۔۔تئیسویں قسط
تعلیم اور تفریح ساتھ ساتھ
اس سنٹر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں تعلیمی انداز میں سائنسی قوانین اور حقائق کو بڑے دلچسپ اور تفریحی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کھیلوں کا ایک پورا سیکشن ہے جہاں مختلف کھیلوں کے ذریعے بہت سی باتیں بتائی گئی ہیں۔فلکیات کے لیے ایک فلور کا پورا حصہ مختص ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر، انٹر نیٹ اور کمیونیکیشن کے بھی وسیع سیکشن ہیں۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ سائنس کے ہر شعبے سے متعلق اتنی زیادہ معلومات یہاں تھیں کہ مجھے وقت بہت کم لگا اور افسوس ہوا کہ میں صرف تین گھنٹے ہی یہاں گزار سکا۔ کافی چیزیں ایسی تھیں جنہیں تفصیل سے دیکھنا تھا مگر وقت ختم ہونے لگا۔ آخری سیکشن جو میں تفصیل سے دیکھ سکا وہ جسم انسانی سے متعلق تھا۔ یہ کافی معلوماتی تھا۔ مگر بعض معلومات خاص طور پر بالغان کے لیے تھیں مگر ان کے ذریعے سے یہاں آنے والے بچوں کی معلومات میں قبل از وقت اضافہ ہورہا تھا۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔بائیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس حصے میں مجھے سب سے زیادہ متاثر کن چیز انسانی پیدائش کے مراحل لگے۔ماں کے پیٹ میں بچے کی مختلف حالتوں کے نمونے یہاں محفوظ کیے گئے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ انسان کبھی اس حالت میں بھی ہوتا ہے جسے دیکھ کر کراہیت تو آسکتی ہے مگر پیار نہیں۔ مگر ان حالتوں سے گزر کر انسان ایک ایسی شکل میں پیدا ہوتا ہے کہ دیکھنے والا دیکھ کر بے اختیار کہہ اٹھے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ قرآن میں خدا نے انسان کی تخلیق اور پیدائش کے مراحل سے بار بار یہ استدلال کیا ہے کہ انسان کو ہم نے پہلی دفعہ پیدا کیا ہے۔ ہمارے لیے قیامت کے دن اسے دوبارہ پیدا کرنا زیادہ آسان ہے۔ وہاں جا کر اس بات کی سچائی کو میں نے بہت اچھے انداز میں سمجھا۔
شراب نوشی کی لعنت
ایک روز کا ذکر ہے میں کامران کے ساتھ بیٹھا کھانا کھارہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کامران نے دروازہ کھولا توپڑوس کی ایک خاتون تھیں جو پہلے کامران کے برابر والے فلیٹ میں رہتی تھیں مگر بعد میں اسی بلڈنگ میں اوپر شفٹ ہوگئی تھیں۔وہ کافی خوفزدہ اور پریشان تھیں۔انہوں نے کامران کو بتایا کہ کوئی شخص ان کے گھر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا۔اس کے پاس چابی تھی جس سے وہ دروازہ کھولنے کی کوشش کررہا تھا۔وہ بری طرح خوفزدہ ہوگئیں کیوں کہ وہ گھر میں اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ تنہا تھیں اور ان کے شوہر گھر سے باہر تھے۔ انہوں نے جلدی سے اپنی ایک جاننے والی خاتون کے گھر فون کیا۔ انہوں نے اپنے ۱۶ سالہ بیٹے کو ان کی مدد کے لیے بھیجا۔ اتفاق سے اس لڑکے کے کچھ دوست بھی اس سے ملنے آئے ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ سب آگئے اور اس شخص کو پکڑ کر باہر لے گئے۔ اس وقت وہ کامران کے گھر آئیں کہ وہ سب بچے ہیں اس لیے ہم لوگ ان کی مدد کے لیے جائیں۔
ہم نے انہیں اندر بٹھایا۔ پھر میں اور کامران باہر گئے۔دیکھا تو پتا چلا کہ وہ شخص شراب کے نشے میں دھت تھا۔بظاہر کوئی پاکستانی لگتا تھا مگر شراب کے نشے میں کوئی بات صحیح نہیں بتا پارہا تھا۔بہرحال پولیس کو فون کیا گیا۔ اس دوران وہ برابرمعافی مانگتا رہا کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ مگر لڑکے اسے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ تقریباً دس پندرہ منٹ بعد پولیس آئی۔ کچھ اس سے اور کچھ ہم سے پوچھ گچھ کی اور اسے پکڑ کر لے گئی۔ بہرحال اس واقعے کا اہم پہلو تو یہی ہے کہ شراب نوشی آدمی کو کتنا ذلیل کراسکتی ہے۔ پھر دوسری طرف نئے آنے والوں کے لیے بھی کافی نصیحت کا پہلو ہے۔ وہ خاتون چار سال سے یہاں کینیڈا میں مقیم تھیں مگر انہیں بالکل بھی انگریزی نہیں آتی تھی۔ دوسرے انہیں چھوٹی سی یہ بات بھی نہیں معلوم تھی کہ امریکا کینیڈا میں ایسی کسی بھی صورت میں 911پرباآسانی فون کیا جاسکتا ہے اور اس سے ہر قسم کی مدد طلب کی جاسکتی ہے۔
نکاحِ ہم جنسی
کینیڈا کے متعلق میرا خیال تھا کہ چونکہ یہ بھی مغربی دنیا کا حصہ ہے بلکہ خاصا نمایاں حصہ ہے (کینیڈا دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ہے اور جی سیون کا رکن ہونے کے علاوہ انسانی حقوق کے اعتبار سے دنیا کا صفِ اول کا ملک ہے) اس لیے یہاں ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی۔ قانونی حیثیت سے مراد یہ نہیں کہ اس گھناؤنے فعل کے مرتکبین کے لیے سزا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح عام میاں بیوی کے رشتہ کو ایک قانونی حیثیت حاصل ہے اور وراثت وغیرہ کے احکام ان پر نافذ ہوتے ہیں اسی طرح ان کو بھی یہ حیثیت حاصل ہو۔ تاہم ابھی تک کینیڈ امیں یہ معاملہ نہیں تھا۔ یہ حیثیت یا توکسی شادی شدہ جوڑے کو حاصل تھی جس نے کسی مذہبی ادارے مثلاً چرچ میں باقاعدہ شادی کی ہو یاوہ مرد وعورت جو بغیر کسی مذہبی بندھن کے باہمی رضا مندی سے ساتھ رہتے ہوں اور خود ایک جوڑے کی حیثیت سے رجسٹر کرالیں۔ اسے کامن لا (Common Law) کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ حیثیت ابھی تک ہم جنس پرستوں کو حاصل نہیں تھی۔ یعنی دو مرد (Gays) یا دو عورتیں (Lesbian) جو ساتھ رہ رہے ہوں انہیں قانون ایک جوڑانہیں مانتا تھا۔ تاہم پچھلے دنوں سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ انہیں بھی قانونی حیثیت دی جائے۔ لہٰذا ایک نیا قانون بنایا گیا ہے جس کی رو سے اب انہیں بھی ایک جوڑا مانا جائے گا اور میاں بیوی سے متعلق تمام احکامات کا اطلاق ان پر بھی ہوگا۔ اس سلسلے میں اخبارات میں کافی خبریں شائع ہوئیں اور ان دو عورتوں کی تصویریں بھی دی گئیں جنہوں نے سب سے پہلے خود کو اس حیثیت میں رجسٹر کرانے کا ’’شرف‘‘ حاصل کیا تھا۔
سگریٹ نوش لڑکی
جون کے مہینے سے ٹورنٹو کے ریسٹورنٹس میں سگریٹ نوشی پر پابندی لگادی گئی۔ سب وے پر مختلف زبانوں میں اس بات کا اعلان کافی دنوں سے ہورہا تھا۔ ان میں اردو زبان بھی شامل تھی۔ یہ گویا یہاں موجود پاکستانیوں کی اس کثیر تعداد کا اعتراف تھا جو اب کینیڈا کی معاشرتی زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ ویسے یہاں 19سال سے کم عمر لوگوں کے سگریٹ خریدنے پرپابندی ہے۔ شبہ ہونے پر دکاندار باقاعدہ اس بات کا ثبوت طلب کرسکتا ہے کہ خریدارکی عمر 19 سال ہے۔ مجھے اس بات کا علم اس طرح ہوا کہ ایک روز میں کچھ خریداری کرنے گروسری کی دکان پر گیا۔ دکان کے باہر ایک لڑکی کھڑی ہوئی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ پیسے لے لیں اور مجھے یہاں سے سگریٹ خرید کر دے دیں۔ وہ ایک نوجوان گوری لڑکی تھی جو چہرے بشرے سے معقول لگ رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا کہ تم خود کیوں نہیں لے لیتیں۔ کہنے لگی کہ وہ مجھ سے شناخت مانگیں گے۔ میں نے جواب دیا کہ میں سگریٹ پینے کو غلط سمجھتا ہوں اس لیے تمہارے ساتھ تعاون نہیں کرسکتا۔
اندر جاکر میں نے دکاندار سے دریافت کیا کہ آیا واقعی نوجوانوں کے سگریٹ خریدنے پر پابندی ہے۔ اس نے کہاکہ ہاں 19سال سے کم عمر لوگ سگریٹ نہیں خرید سکتے۔ واپسی پر دیکھا کہ وہ لڑکی وہیں کھڑی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر میں اس کا کام نہیں کروں گا تو کوئی اور کردے گا۔ لیکن میں اس کا کام کرتا ہوں تو کوئی نصیحت کی بات بھی کہہ سکتا ہوں۔ لہٰذامیں نے اسے سگریٹ خرید کر لادیے اور کہا کہ کیا تمہیں زندگی سے محبت نہیں؟ وہ خاموش کھڑی رہی۔ پھر میں نے اسے ایک دو باتیں اور سمجھائیں۔ جاتے وقت اس نے کہا ، ’’Thank you‘‘، میں نے جواب دیا، ’’You are not welcome.‘‘۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ جو کام میں نے کیا وہ بھی خلافِ قانون تھا یعنی کسی کم عمر کو سگریٹ خرید کر دینا ، جس کی سزا 5000 ڈالر جرمانہ تھی۔
یہ لوگ اپنی نئی نسل کے معاملے میں بڑے حساس ہیں۔ شراب اور جوئے کا معاملہ میں امریکا کے سفر میں بیان کرچکاہوں۔ جنس کے معاملات میں بھی میڈیا والے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ بچوں کو اس سے محفوظ رکھا جائے۔لہٰذا جس پروگرام میں عریاں اور جنسی مناظر یا فحش مکالمے ہوں وہ عام اوقات میں نہیں دکھائے جاتے اور دکھانے سے قبل واضح اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ پروگرام بچوں کے لیے نہیں ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ان کی نئی نسل ان تمام برائیوں میں پورے طور پر ملوث ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کسی انسانی معاشرے میں قانونی نوعیت کے اقدامات سے کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ اور نہ قانون کے ذریعے زبردستی کسی کو راہ راست پر لایا جاسکتا ہے۔ قانون کسی برے کو پکڑ سکتا ہے ، برائی کو ختم نہیں کرسکتا۔ یہ اس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
نیاگرا فالز کا سفر
دنیا کے وہ مقامات جو اپنی شہرت اور فطری حسن کے اعتبار سے دنیا بھر میں ممتازہیں ان میں نیاگرا فالز کا نام سرِفہرست ہے۔جو لوگ کینیڈا کے بارے میں اور کچھ نہیں جانتے انہیں یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ افسانوی شہرت کی حامل یہ آبشار کینیڈا میں ہے۔ میں نے بھی بچپن سے نیاگرا فالز کا نام تو بہت سنا تھا مگر کبھی سوچا نہیں تھا کہ سات سمندر پار واقع اس حسین آبشار کو دیکھنے کاکبھی موقع ملے گا۔ میں کافی عرصے سے نیاگرا فالز جانے کا پروگرام بنارہا تھا۔ مگر اول تو اس کے لیے اچھا موسم ہونا چاہیے کیونکہ وہاں کی کھلی فضا میں ٹھنڈ زیادہ محسوس ہوتی۔ دوسرے وہاں اکیلے جانے میں مزہ نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اپنے عرب دوست عبدالطیف کے ساتھ جانے کا ارادہ کیا۔ عبدالطیف کا بھائی بھی آیا ہوا تھا اور اس کا ایک اور مصری دوست بھی جانا چاہ رہا تھا یوں ہم چار آدمی ہوگئے۔ مگر جب آدمی زیادہ ہوجاتے ہیں تو ایک دن طے کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ایک اور سبب دیر ہونے کا یہ بھی تھا کہ یہ لوگ گاڑی سے جانے پر اصرار کررہے تھے۔ حالانکہ ٹورنٹو سے نیاگر ا تک بس سروس سار ادن چلتی تھی اور اگر ایک د ن میں جاکر واپس آنا ہو تو کافی رعایتی نرخ میں ٹکٹ دستیاب تھا۔
ہم چاروں نئے تھے اور کسی کے پاس بھی گاڑی نہیں تھی اس لیے کرائے کی گاڑی لینے کا ارادہ کیا۔ مگر اس میں کریڈٹ کارڈ کا مسئلہ آڑے آرہا تھا کیونکہ وہ ہم میں سے کسی کے پاس نہ تھا۔آخر میں میں نے ارشد کے ایک دوست فہیم سے بات کی اور ان کے ساتھ روانگی کا پروگرام طے ہوا۔ موسمِ گرما شروع ہوچکا تھا۔اس روز اتوار کا دن تھا۔ پیش گوئی کے مطابق مطلع صاف تھا۔موسم کافی بہتر بلکہ گرم تھا۔زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 30ڈگری کے قریب متوقع تھا۔ دوپہر کے وقت ہم روانہ ہوئے۔ پٹرول شہر سے ہی ڈلوالیا تھا۔ یہاں پٹرول کے ریٹ روز بدلتے رہتے ہیں۔ اگر سیلف سروس والے پٹرول پمپ سے ڈلوائیں تو سستا ریٹ ملتا ہے۔ یعنی خود پٹرول ڈالیں اور کیشئر کو پیسے دے دیں۔
ٹورنٹو سے نیاگرا تک کا فاصلہ تقریباََ 130کلو میٹر ہے۔ہم ایک بجے چلے اور تین بجے وہاں پہنچے۔ راستے میں کافی رش ملا جس کی بنا پر ہماری رفتار آہستہ رہی۔ وہاں پہنچ کر بھی رش ملا کیونکہ موسم اچھا تھا اور چھٹی کا دن بھی تھا۔ البتہ ابھی گرمیوں کی چھٹیاں نہیں ہوئی تھیں جن کے بعد یہاں بہت زیادہ رش ہوجاتا ہے۔ اس وقت تمام قریبی پارکنگ لاٹ بھرے ہوئے تھے۔ ہمیں کافی دور واقع ایک پارکنگ لاٹ میں جگہ ملی۔
نیاگرا فالز کا جغرافیہ
سی این ٹاور کے ضمن میں اونٹاریو جھیل اور دوسری جھیلوں کا تذکرہ ہوچکاہے۔ نیاگرا آبشار انہی جھیلوں میں سے ایک جھیل ایری سے بہتی ہے۔ یہ پانچ جھیلیں ہیں جو امریکا اور کینیڈا کی سرحد پر واقع ہیں۔ ان کے نام بالترتیب جھیل ایری (Lake Erie)، جھیل مشی گن(Lake Michigan) ،جھیل سپیرےئر (Lake Superior)، جھیل اونٹاریو (Lake Ontario) اور جھیل ہرون (Lake Huron)ہیں۔انہیں ملاکر گریٹ لیکس(Great Lakes) کہا جاتا ہے۔ یہ میٹھے اور تازہ پانی کا دنیا میں سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ وسعت میں یہ کسی سمندر سے کم نہیں لیکن میٹھے پانی کی بنا پر انہیں جھیل کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گلیشئر ایج کے خاتمے پروجود میں آئیں اور قطب شمالی سے اٹھنے والے بادلوں کا مسلسل برسنا انہیں تازہ پانی فراہم کرتا رہتا ہے۔
جھیل ایری نیاگرا کے مقام پر پہنچ کر، جو کہ امریکا اور کینیڈا کی سرحد بھی ہے، ایک دریا کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور دریائے نیاگرا کہلاتی ہے۔ اس مقام پر کسی زمانے میں آنے والے زلزلے کی بنا پر ایک بہت بڑی کھائی بن گئی ہے۔ اس کھائی کے کنارے پر پہنچ کر پانی کئی ٹکڑوں میں بٹ کر نیچے گرتا ہے اور دریا کی شکل میں اپنا سفر آگے جاری رکھتا ہے۔ پانی نیچے گرنے سے جو آبشار وجود میں آتی ہے وہ نیاگرا آبشار کہلاتی ہے۔ اس آبشار کے دو بنیادی حصے ہیں۔ ایک وہ جو بالکل کھائی کے آغاز میں نصف دائرے یا گھوڑے کی نعل کی شکل میں پانی کے ایک عظیم ریلے کی صورت میں گررہا ہے۔ یہی وہ آبشار ہے جو مشہور ہے اور کینڈین نیاگرا فالز کہلاتی ہے۔ آبشار کا بقیہ حصہ وہ ہے جس میں پانی امریکی طرف سے نسبتاََ چھوٹے ریلوں کی شکل میں نیچے آرہا ہے۔ اسے امریکن نیاگرا فالز کہتے ہیں۔
آبشار کا منظر
وہاں پہنچنے کے بعد ہم لوگوں نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے کھانا کھایا جائے۔ چنانچہ قریبی ریسٹورنٹ سے پزا خرید کر کھایا۔ روڈ کے ایک طرف نیاگرا فالز کا منظر تھا اور دوسری طرف گھاس کے بڑے بڑے قطعا ت اور درخت۔ ہم نے ان درختوں کے سائے میں جاکر باجماعت نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہوتے ہوتے چار بج گئے۔پھر ہم نے آبشار کا رخ کیا۔ اس وقت مطلع صاف تھا۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ بلکہ اس وقت اس کی تپش گراں گزر رہی تھی۔ہم سے زیادہ یہ گوروں پر گراں تھی۔ جس پر احتجاج کرتے ہوئے بہت سے خواتین و حضرات نے جسم کا بالائی لباس اتاردیا۔ جب کبھی سورج کی نظر اس احتجاج پر پڑتی تو وہ شرماکر بادل کے کسی ٹکڑے سے اپنا منہ چھالیتا۔ ہم بھی کچھ سکون کا سانس لیتے اور گوروں کی اس ذہانت کی داد دیتے۔
کنارے پر ریلنگ لگی تھی جس کو تھامے لوگوں کا جمِ غفیر حسنِ فطرت کے اس شاہکار کو دیکھنے میں منہمک تھا۔ بہت سے لوگ وڈیو یافوٹو بنوارہے تھے۔ ہم لوگ بھی ریلنگ کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے۔ بے اختیار زبان سے سبحان اللہ نکلا۔آبشاریں دنیا میں بہت ہیں۔ مگرجو خوبصورتی اس کے حصے میںآئی ہے وہ بے مثل ہے۔پانی کی انتہائی موٹی اور تیز دھار جب اوپر سے نیچے گرتی ہے توعجب سماں پیدا کردیتی ہے۔ دریا کا شفاف پانی جو زمین کے پس منظر میں بالکل ہرا لگ رہا تھاجب گرنے لگتا تو برف کی طرح سفید ہوجاتا۔اس کے زمین سے ٹکرانے سے ایک زوردار آواز تسلسل سے پیدا ہورہی تھی۔ نیچے پڑے پتھروں سے ٹکراکر پانی کی ایک دھندلی چادر فضا میں بلند ہورہی تھی۔یہ سفید جھاگ جو نہ جانے کتنی بلندی تک چھایا ہوا تھا ایک بادل کی طرح پھیل گیا تھا۔یہ ایک ناقابلِ فراموش منظر تھا۔ صاف موسم میں یہ بادل سی این ٹاور سے بھی نظر آتا ہے۔ وقفے وقفے سے تیز ہوا چلتی تو پانی کے قطرات کنارے پر کھڑے لوگوں پر آکر برسنا شروع ہوجاتے اور انہیں گیلا کردیتے۔ آبشار کی سب سے بڑی کشش اس کا گھوڑے کی نال جیسا ہونا ہے۔ نصف دائرے میں گرتا ہوا پانی ایک عام آبشار کی بنسبت بہت خوبصورت لگتاہے۔
اس نصف دائرے سے آگے کی طرف پانی کے مزید دو دھارے گرتے نظر آرہے تھے۔ یہ امریکی نیاگرا فالز تھی۔ مگر چونکہ وہ سیدھے اور کچھ چھوٹے تھے اور اس جگہ سے دوربھی ، اس لیے یہاں سے کوئی خاص تاثر پیدا نہیں کر پارہے تھے۔ ان تمام دھاروں کا پانی نیچے گرکر تیزی سے ایک دریا کی شکل میں آگے بڑھ رہا تھا۔ دریا کے اوپر آبشار کے سامنے ایک انتہائی خوبصورت قوس وقزح وجود میں آگئی تھی۔ پانی کے اڑتے ہوئے قطرات سے گزرتی سورج کی کرنوں نے ہلال کی شکل کی رنگ برنگی قوس و قزح کو جنم دیا تھا۔ نیچے کی سمت ایک اور دلچسپ منظر تھا۔ دریا میں کشتیاں چل رہی تھیں۔یہ ان لوگوں کو آبشار کے بالکل نزدیک لے جاتیں جو اس کے حسن کو بہت قریب سے دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ کشتیاں پانی کے بہاؤ کے خلاف مزاحمت کرتی ہوئی آہستہ آہستہ آبشار کے قریب تک آرہی تھیں۔ ان کشتیوں پر کھڑے لوگ پیلے یا نیلے رنگ کی برسا تیاں پہنے ہوئے تھے۔ کیونکہ پانی کے گرنے سے جو چھینٹے اڑرہے تھے وہ قریب جانے والوں پر بھرپور بارش کی طرح برستے تھے۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)