خدا کی رضا میں خوش
اکثر و بیشتر میرے احساسات مجروح ہوتے ہیں لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ انتقام نہ لوں اور دوبارہ کوشش کرتا رہوں ‘ خاص کر اچھے کاموں کے لیے مجھے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، جب میں کوئی اچھا کام کروں اور اس کا برا صلہ ملے تو تکلیف ہو تی ہےاور نتیجے کے طور پر وہ اچھا کام کرنا چھوڑ دوں تو اور بھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ کوشش کرتا ہوں کہ اپنے دل کو شکایات ‘ تعصبات ‘ بغض‘ انتقام ‘ جھوٹ یا ایسے وعدوں اور دعوﺅں جنہیں میں پورا نہیں کر سکتا اور ایسی توقعات جن پر پورا نہیں اتر سکتا دور رکھوں ۔ ایک بار پوچھا گیا کہ آخری بار کب مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوئی تھی لوگوں سے؟ میرا جواب بہت سادہ تھا مجھے ہر روز تکلیف پہنچتی ہے اور اس قدر پہنچتی ہے کہ میں رودیتا ہوں کیونکہ میں ایک نرم دل انسان ہوں لیکن اگلے ہی روز میں پھر اٹھتا ہوں اور چلنے لگتا ہوں۔
سب سے بڑھ کر پیغمبر اسلام ﷺ (جن کی ناموس پر جان بھی قربان) کی سنت کہ اپنے دلوں کو گندگی ‘ بغض ‘ انتقام‘ حسد اور تعصبات سے پاک رکھو ‘ کیونکہ نیکی کے صلے میں ایذا پہنچانا انسان کی فطرت میں ہے ‘ جو اب بہت سادہ ہے اس کی سمجھ تب آتی ہے جب ہم وہ سب کرتے ہیں جو ہمارے اختیار میں ہے ‘ اور بدلے میں صر ف مایوسی ملتی ہے ہمیں راضی بہ رضائے الٰہی کے نظریئے پر متفق ہونا سیکھ لینا چاہیے اور اپنی رضا کو خدا کی رضا کے سامنے جھکانا ہی وہ عالمگیر فلسفہ ہے جو مجھے ہر روز چلتے رہنے اور بڑھتے رہنے کے قابل بناتا ہے۔
عام انسان کی طرح میں بھی دن بھر بہت سے کام کرتا ہوں کچھ میں کامیابی ملتی ہے اور کچھ میں ناکامی لیکن سب کا رد عمل مختلف ہوتا ہے جو کہ معمول کی بات ہے ‘ روز بہت سے فیصلے کرتا ہوں ‘ کچھ میرے لیے خوش قسمت ثابت ہوتے ہیں‘ کچھ نہیں لیکن ہر موقع پر اپنی طرف سے بھر پور کوشش کرتا ہوں۔پھر جب مجھے ناکامی ہوتی ہے تو وہ ناکامی صرف اس پراجیکٹ ‘ امتحان یا کیس میں ہوتی ہے نہ کہ خوب سے خوب تر کرنے کے ارادے کو ۔
زندگی صحیح سمت کا تعین کرتے رہنے کا نام ہے ‘ ہر اگلا پچھلے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہم اپنے بچپن سے بڑھاپے تک اور اوسطاً 65سال کی عمر تک بہت سے کام کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عورت کی زندگی کو لے لیجیے جو کبھی بیٹی ہے، کبھی بیوی‘ کبھی ماں۔
ہمیں فیصلے کرنے ہوتے ہیں کچھ صحیح اور کچھ غلط ، لیکن یہ تب ہوتا ہے جب تم اپنی ہر ممکن کوشش کر چکتے ہو اور باقی اس پر چھوڑتے ہو اور اگر تم اس پر نہیں چھوڑتے ‘ یا اسکی رضا میں مطمئن نہیں ہوتے تو وہ تمہیں تمہاری خواہش کے حصول میں تھکا دے گا اور اگر تم اسکی رضا میں راضی ہو جاتے ہو تو ہوسکتا ہے وہ تمہیں کسی اور طرح سے نوازے ‘ ہو سکتا ہے تمہاری خواہش تمہارے لیے ٹھیک نہ ہو ‘ یاد رکھو ‘ حضرت موسیٰؑ نے فرعون کے گھر میں پرورش پائی اور ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال فرماتے ہیں ‘
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
آخر میں میں حدیث قدسی کی پناہ لیتا ہوں ‘ کہ اگر ہم اپنے اعمال اس کے مطابق ڈھال لیں تو زندگی بہت پرسکون ‘ پرلطف اور سادہ ہو گی ‘ کیونکہ اللہ پاک نے ہمیں بامقصد پیدا کیا ہے وہ مقصد وہ ظاہر کرے گا تب تک تم اس کی مخلوق کیلئے اچھا کرتے ‘ سوچتے اور سیکھتے رہو‘حدیث قدسیہ کا خلاصہ ہے
اے ابن آدم اک تری چاہت ہے
اور اک میری چاہت ہے
پر ہو گا وہی جو میری چاہت ہے
پس اگر تو نے سپرد کر دیا
اپنے آپ کو اس کے جو میری چاہت ہے
تو میں بخش دوں گا تجھے وہ بھی
جو تیری چاہت ہے
پر اگر تو نے رو گردانی کی اس سے
جو میری چاہت ہے
تو میں تھکا دوں گا تجھ کو اس میں
جو تری چاہت ہے
پھر ہو گا وہی
جو میری چاہت ہے
راضی بہ رضائے الٰہی ‘ کو اصول یا ڈرائیونگ فورس کے طو رپر اپلائی کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ‘ حدیث قدسی اور امید فرق زندگی خود بتاتی ہے امید ہے کہ اس کی سمجھ آ جائے گی ‘ مجھے اس کی سمجھ تب آئی جب میں نے اپنے پیارے والد محترم کو کھو یا جو میرے لیے میری دنیا تھے ‘ ایک دوست ‘ ایک شفیق باپ ‘ اور اس ظالم دنیا سے بچانے کا ذریعہ لیکن آخر میں میں نے سیکھا کہ ہم سب کو اپنے خالق کی جانب لوٹ جانا ہے اور اس کی رضا میں راضی ہونے کے سوا ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔