جمہوریت کو چلنے دیں
سیاسی سوال کو سیاسی ہی رہنے دینا چاہیے۔
اگر (ق) لیگ کے چوہدری شجاعت حسین اپنی جماعت کے سربراہ کے طور پر یہ فیصلہ کرتےہیں کہ انکی جماعت حکومت کیساتھ اتحاد کرے گی تو اس سیاسی سوال کا جواب سیاسی جماعت کے پاس ، پارلیمان یا عوام کے پاس ہے عدالتوں کے پاس نہیں۔ عدالتیں قانونی موشگافیوں میں اپنے آپ کو غیر ضروری الجھا رہی ہیں۔
ریاست کے لاء آفیسرز کو اپناکام بخوبی کرنا چاہیے ۔ہومیو پیتھک اپروچ کسی کو کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ تمام ادارے ججز کی توجہ عام سائل کی طرف لگائیں جو پسِ رہا ہے۔ ہر سیاسی سوال جس پر عدلیہ سے رجوع ہورہا ہے اسے پارلیمان میں لیکر جائیں اور حتمی فیصلہ لیں اور آئینی ترامیم کریں تاکہ اصلاحات ہوں۔ میری ایماندارانہ رائے میں پارلیمان کے منصفانہ فیصلوں کے آگے کوئی بھی کچھ نہیں ہے۔
شاید عدالت ضبط کرے چپ رہے اور کم بولے تو ملک کے نقصان کا ازالہ کیا جاسکے۔ عدالت کی نظر عام سائل کو انصاف کی فراہمی کے عمل رفتار معیار، لاگت پر ہونی چاہیے۔تحریک انصاف،(ق) لیگ،(ن) لیگ یا پیپلز پارٹی اپنے آنیوالے اتحاد کی بابت کیا سوچتی ہے یہ سوچنا عدالتوں کا کام نہیں۔یہ سراسر سیاسی سوال ہے-
سیاسی مخالفت میں سیاستدان آئے روز پاکستان کے جلدسری لنکا بننے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف عدلیہ حکومت کو مفلوج کر کے سہولت کاری کررہی ہے۔جب حکومت کو کام ہی نہیں کرنے دیا جانا تو کون حکومت کرنے کا امیدوار ہوگا۔ جو حالات پیدا کیے گئے ہیں انکی ذمہ داری قبول کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔
جمہوریت کی ماں برطانیہ میں ایک مضبوط وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی ، نہ کوئی آسمان سر پر گرا اور نہ ہی عدالتوں کے سر پر جوں رینگی۔اگر کوئی غلطی سے عرضی لیکر عدالت چلا بھی جاتا تو عدالت اسکی بینڈ بجا دیتی اور متحرک پارلیمان اپنی ٹرف میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہ دیتی۔ ہم نے جمہوریت کو بھی گڈے گڈی کا کھیل بنا لیا ہے۔ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کے مصداق کچھ لوگ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے لیکن جمہوری روایات کیلئے سپریم کورٹ بھاگے جارہے ہیں تاکہ جمہوریت رہے نہ رہے جمہوری روایات برقرار رہیں ۔ یہ کھلا تضاد ختم کرنا ہوگا۔
۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطۂ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔