آہ،میرا دوست شفقت صدیقی
ستر کی دہائی کے آخری سالوں میں علامہ شبیر احمد ہاشمی مرحوم و مغفور پتوکی میں سب سے بڑی جامع مسجد میں خطیب بن کر آئے تو شہر کی دینی،علمی اور ادبی فضاء کو ایک نئی جلا مل گئی، انہوں نے پتوکی اور ارد گرد کے پڑھے لکھے اور ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والے نوجوانوں کو متحد کرنے کے لئے اپنی علمی ادبی صلاحیتوں کو استعمال کیا جس کی وجہ سے انجمن طلبہ اسلام کے نوجوان طلبہ میں بھی ایک نئی روح پیدا ہوگئی اور وہ ان کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے،ان کا حجرہ ہم سب کا مسکن بن گیا، ان دنوں میں ابھی سکول کا طالب علم تھا اور انجمن طلبہ کا مقامی ناظم تھا، ہمارے ساتھی طلبہ اسلامی اور روحانی سوچ رکھنے کے باوجود مساجد کے علماء سے دور رہنا ہی پسند کرتے تھے،مگر علامہ ہاشمی مختلف اور جدا تھے،وہ ہم سب کو ایک والد اور سرپرست کی طرح پیار کرتے تھے،اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت عطاء کرے۔ علامہ ہاشمی اور انجمن طلبہ اسلام کی تربیت اور ماحول کی وجہ سے ہم سب دوستوں میں عشق مصطفی ؐ اور غلامی رسولؐ کا جزبہ ہر وقت موجزن رہتا تھا،یہاں مجھے دیگرسینئردوستوں،ارشادجاویدقریشی، صاحبزادہ سجاد فاروق اظہر، بابا اکرم، چودھری ظفر رضا، مشتاق نورانی،غلام احمد خلیل،اکرم جاوید کے علاوہ عشق مصطفی ؐسے سرشار ایک جوشیلا نوجوان شفقت صدیقی ملا اور ایسا ملا کہ زندگی میں تو جدا نہ تھا مگر اب وہ اس دنیا سے جانے کے بعد بھی جدا نہیں لگتا ، ایسے ہی لگتا ہے کہ ابھی کہیں سے اس کی آواز آئے گی ”قائد طلبہ قبلہ گورایہ صاحب کیہ حال اے“ کاش یہ آواز ایک دفعہ پھر آ جائے اور میں اس پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دوں مگر، جانے والوں کو روک سکا ہے کوئی، میں کینیڈا میں ہوں اپنے ہاتھوں سے اسے لحد میں تو نہ اتار سکا مگر اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا ہوں کہ وہ تیرا نیک بندہ،تیرے محبوبؐ کا سچا عاشق تھا، اسے قبر میں نبیؐ رحمت کا دیدار عطاء کرنا۔
بچپن اور لڑکپن کی رفاقتیں زندگی کے ہر مرحلے، ہر رنگ اور ہر حال میں یاد رہتی ہیں ، ان میں وہ دوستیاں بھی شامل ہیں جو شروع تو انجانے سے ہوتی ہیں، لیکن پھر جان پہچان کے اتنے مدارج طے کر لیتی ہیں کہ دوست دوست نہیں رہتا بھائی محسوس ہونے لگتا ہے،بلکہ میرا تجربہ تو یہ ہے کہ پہلی محبت والے بچپن کے دوست بعض حوالوں سے بھائیوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ وہ باتیں،وہ دُکھ اور پریشانیاں بھی شیئر کر سکتے ہیں جو اپنے بھائیوں کے ساتھ نہیں کر سکتے، پھر بچپن کے دوست ان رازوں سے بھی آشنا ہوتے ہیں جو اس دنیا میں آپ کی ذات کے سوا کوئی اور نہیں جانتا ہوتا۔
میرا بچپن اور لڑکپن بھی مجھے اب تک یاد ہے،ہاکی اور پھر کرکٹ کے علاوہ ہمار ا اوڑھنا بچھونا انجمن طلبہ اسلام کی سرگرمیاں ہی تھیں،شفقت صدیقی اس دوران سائے کی طرح میرے ساتھ رہتا تھا،پتوکی،ضلع قصور،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، مری،راولپنڈی اور جہاں جہاں انجمن طلبہ اسلام اور طلبہ یونینز کی سرگرمیاں ہوتیں وہ میرے ساتھ ہی ہوتا،ان دنوں طلبہ سیاست میں کچھ حد تک تشدد یا لڑائی مار کٹائی کا بھی رجحان تھا،جس میں زیادہ تو نہیں، مگر کہیں نہ کہیں ہم بھی اس کا حصہ بن جاتے تھے،مجھے یاد ہے شفقت صدیقی میرے سامنے ڈھال بن کے کھڑا ہوتا تھا۔اس کی کوشش ہوتی تھی کہ میں بھی اس کی طرح ورزش اور کھانے پینے کا شوقین بنوں اس لئے ایک طویل عرصہ تک وہ مجھے اپنے ہاتھوں سے روزانہ باداموں اور دودھ کی سردائی بنا کر بلکہ گھوٹ کر پلایا کرتا تھا،میں دو ہزار گیارہ سے چودہ تک پاکستان ٹیلی ویزن میں ڈائرکٹر کرنٹ افئیرز اور دوسری ذمہ داریوں پر رہا تو وہ بھی اکثر وہاں میرے پاس رہتا تھا،شفقت کے چھوٹے بھائی عمران صدیقی بھی میرے کولیگ تھے اور ان کا گھر پی ٹی وی کے بالکل ساتھ والی کالونی میں تھا تو شفقت صدیقی ہر رمضان میں میرے لئے افطاری عمران صدیقی کے گھر سے بنا کر لایا کرتا تھا اور پورے ٹی وی میں اس افطاری کی دھوم تھی، کیونکہ اس میں بادام اور دودھ کی بنی سردائی بھی شامل ہوتی تھی۔
شفقت صدیقی ہمارے سیر و تفریح والے گروپ کا بھی مستقل حصہ تھا،ہم دس بارہ دوست ہر سال باقاعدگی سے ناران کی سیر کو جاتے تھے جن میں بڑے بھائی حسین گورایہ، رانا طارق محمود،عرفان بھنگو،رضوان بھنگو،عابد علی سندھو،اکرم قینچی،بابا حنیف مستقل ارکان تھے، مگر ٹور کی جان شفقت صدیقی ہی ہوتا تھا اس کے بغیر ہمارا جانا ممکن ہی نہ تھا،وہ کھانے کا انچارج ہوتا تھا اور سب سے بڑھ کر شاعری اور ادبی باتیں اس پر ختم تھیں،ناران کی پر فضاء وادیوں اور دریائے کنہار کے کنارے بیٹھ کر جوش ملیح آبادی کی غزلیں اور پھر جنگل کی شہزادی وہی سنا نا جانتا تھا،اسی طرح رمضان میں اعتکاف کی راتیں،درود و سلام کے نذرانے ،شبینہ کی محافل، مشاعرے،جلسے،جلوس وہ ہر جگہ چھایا ہوتا تھا۔
شفقت صدیقی سے میرا تعلق وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا وہ دوست ہی نہیں میرا ہمدم میرا غم گسار بھی تھا،ہم ایک عرصہ ساتھ اٹھے بیٹھے روئے ہنسے، مجھے اور شفقت صدیقی کو سکول، کالج کے زمانے سے ہی طلبہ سیاست میں حصہ لینے کا شوق تھا،ہم نے کالج یونین کے لئے الیکشن لڑے اور لڑائے،اسی طرح انجمن طلبہ اسلام کے مختلف عہدوں کے لئے چنے گئے، مگر ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑا، شفقت صدیقی کے ایک بھائی عمران صدیقی ان دنوں پی ٹی وی میں جنرل منیجر اور دوسرے سجاد صدیقی پنجاب اسمبلی میں ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
شفقت صدیقی کو نوجوانی بلکہ بچپن سے ہی شعر و شاعری کا جنون تھا، بلا شبہ وہ ایک اچھے سخنور تھے اور اس زمانے میں بھی شفقت صدیقی کو بیسیوں شاعروں کے درجنوں اشعار زبانی یاد ہوتے تھے اور وہ اپنی گفتگو کے دوران ان اشعار کا اچھا خاصا تڑکا بھی لگایا کرتا تھا، بعض اوقات ان کے کہے ہوئے اشعار بات چیت کے دوران اس طرح فٹ بیٹھتے تھے کہ گفتگو کا مزہ آ جاتا تھا، حْب ِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفقت صدیقی کی شعر و شاعری کا خصوصی موضوع ہوا کرتا تھا، وہ سچے عاشق رسولؐ تھے۔ وہ ایک با ادب انسان تھا،اس کے رویے میں ایک احترام ہوتا تھا اور چار سو ایک محبت جھلکتی اور چھلکتی نظر آتی تھی، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شفقت صدیقی نے ادب کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔
جیسا کہ پہلے کہا، پہلی محبت دل سے کبھی نہیں جاتی، شفقت صدیقی میرے ان یاروں میں تھا جو میری پہلی محبت کا حاصل تھے،ظاہر ہے کہ میں اسے کبھی نہیں بھول پاؤں گا، آج جب میں یہ سوچتا ہوں کہ میرا وہ دوست جس نے میرے ساتھ اپنی عمر کا ایک لمبا عرصہ گزارا ہمارے درمیان نہیں رہا تو یقین نہیں آتا یوں لگتا ہے جیسے کوئی عزیز ترین چیز کھو گئی ہو۔
ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی