اسٹیٹ بینک نے معاشی بحالی کا موقع ضائع کر دیا؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں 19.5 فیصد سے 17.5 فیصد تک صرف 200 بیسس پوائنٹس (bps) یا 2 فیصد کمی کرنے کے حالیہ فیصلے پر ملک بھر کی کاروباری برادری نے مایوسی اور بددلی کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نزدیک شرح سود میں کٹوتی نہ صرف بہت کم ہے بلکہ بہت تاخیر سے بھی ہے۔ شرح سود میں میں حالیہ کمی کاروباری برادری کی قرضوں کی ضروریات کو حل نہیں کر پائے گی کیونکہ اس کی شرح ابھی بھی بہت بلند ہے جو ملکی معیشت کی زبوں حالی کی راہ میں رکاوٹ بنی رہے گی۔
اس میں شک نہیں ہے کہ اسٹیٹ بینک کے پاس ملکی اور بین الاقوامی سطح پر افراط زر یعنی مہنگائی میں کمی اور تیل کی عالمی قیمتوں میں تیزی سے تین سال کی کم ترین سطح پر گرنے کے پیش نظر شرح سود میں ایک بڑی کمی کے لیے تمام لوازمات موجود تھے، تاہم مرکزی بینک نے ایسا نہ کیا اور یوں مانیٹری پالیسی کے اصل مقصد کو فوت کر دیا اور معاشی بحالی کو روکے رکھنے کو ترجیح دی۔
پاکستان میں کاروبار کرنے کی لاگت، کاروبار کرنے میں آسانی، اور قرضوں تک رسائی برآمدی منڈیوں میں اپنے تمام حریفوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار پر واپس آنے کا واحد قابل عمل حل صنعت اور برآمدات کو حکومت کی جانب سے سپورٹ کرنا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو عام افراط زر کی بجائے بنیادی افراط زر پر توجہ دینی چاہیے، کیونکہ عام افراط زر میں خوراک اور توانائی جیسے اجزاء شامل نہیں ہوتے۔
حکومت کو ذخیرہ اندوزی اور قیمتوں میں اضافے کے خلاف موثر انتظامی کارروائیوں کے ذریعے قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ 2022ء اور 2023ء میں چھ سہ ماہیوں کے دوران پالیسی ریٹ میں 9.75 فیصد سے 22 فیصد تک بڑے اضافے کے باوجود عام افراط زر بلند رہا اور پالیسی ریٹ میں اضافے سے مطلوبہ نتائج نہ حاصل ہو سکے تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ شرح سود کو فوری طور پر 12 فیصد پر لایا جائے تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان سرمایہ کی لاگت کو بامعنی انداز میں کم کر کے علاقائی اور بین الاقوامی برآمدی منڈیوں میں مقابلہ کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی کے نرخوں کو معقول بنانے اور خود مختار پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے معاہدوں پر دوبارہ مذاکرات کرنے کے حکومت کے وعدے کی تکمیل بھی ہونی چاہیے۔
شرح سود میں فوری کمی تجارتی اور صنعتی حلقوں میں سرمائے کے بحران سے نمٹنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ حالیہ 200 پوائنٹس کی کٹوتی ترقی کو بڑھاوا دینے کے لیے ناکافی ہے اور کاروباری حلقوں کو بہت کم ریلیف ملے گا۔ بنیادی طور پر لیکویڈیٹی کی کمی کی وجہ سے تاجروں، برآمد کنندگان، درآمد کنندگان اور چھوٹے کاروباریوں کو شدید مالی چیلنجز کا سامنا رہے گا۔
یہ صورت حال اقتصادی چیلنجوں، خاص طور پر کاروباری لاگت میں تیزی سے اضافے اور توانائی کے ریکارڈ بلند نرخوں کی وجہ سے خراب ہوئی ہے۔ اس لئے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی موجودہ حالات میں ایک مثبت لیکن ناکافی قدم ہے۔ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مزید 300 پوائنٹس کی کٹوتی ازحد ضروری ہے۔ فوری طور پر شرح سود کو 10 فیصد سے کم کرتے ہوئے سنگل ہندسے پر لایا جانا چاہیے اور ایک طویل المدت پائیدار مالیاتی پالیسی وضع کی جائے۔ اسٹیٹ بینک کو اپنے اگلے مالیاتی جائزے میں پالیسی ریٹ میں انقلابی قدم لیتے ہوئے اضافی 500 پوائنٹس کی کمی کرنی چاہیے تاکہ ملک میں کاروباری سرگرمیاں بحال ہو سکیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کے افراط زر میں کمی بنیادی طور پر انتظامی اقدامات اور اسٹیٹ بینک کے سخت مالیاتی اقدامات کے بجائے موثر زرعی پیداوار کی وجہ سے ہوئی ہے۔ گذشتہ چند مہینوں میں صرف گندم کی قیمت میں کمی دیکھنے کو ملی ورنہ دودھ، دہی، سبزیوں کے ساتھ بچوں کے سکول کی فیس اور علاج کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا۔ عام آدمی کو ابھی بھی مہنگائی کا سامنا ہے اور آمدن سکڑنے کے بعد اس کے لیے گھریلو اخراجات چلانا مشکل ہے۔
اسی طرح روپے کی قدر میں استحکام نے بھی مہنگائی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، کیونکہ اس سے درآمدی اشیاء کی لاگت کم ہوتی ہے اور روپے کی قدر میں کمی براہ راست افراط زر کو متحرک کرتی ہے۔ اسی لئے روپے کے مستحکم ہونے کے ساتھ پاکستان میں افراط زر کو نیچے آتے دیکھا گیا ہے۔ اگست 2024ء میں بنیادی مہنگائی 9.6 فیصد رہی جبکہ حقیقی شرح سود 200 پوائنٹس کمی کے بعد بھی افراط زر سے 790 پوائنثس زیادہ ہے جو کاروباری ماحول اور شرح نمو سے کھلی دشمنی کے مترادف ہے۔
تیل کی بین الاقوامی قیمتیں تین سال کی کم ترین سطح پر ہیں، یعنی بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت فی بیرل70 ڈالر سے نیچے آ چکی ہے جس کے سبب اسٹیٹ بینک کے پاس شرح سود میں مزید خاطر خواہ کمی کا اعلان کرنے کے لیے کافی گنجائش موجود تھی لیکن اس نے نچوڑ نچوڑ کر مالیاتی پالیسی میں کمی کے آپشن کو ترجیح دی جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکا ہے اور کاروباری برادری کی مایوسی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
جب شرح سودکم ہوتی ہے تو تاجروں، صنعت کاروں اور ایس ایم ایز کو بینکوں سے قرض لینے میں آسانی رہتی ہے۔ شرح سود میں کمی لانے سے بینکوں میں رکھا پیسہ پھر سے مارکیٹ میں گردش کرنے لگتا ہے اورکاروبار میں لگنے سے معاشی سرگرمیوں میں تیزی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس وقت تاجر، برآمد کنندگان، درآمد کنندگان اور چھوٹے کاروبار سبھی شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں، جس کی بڑی وجہ لیکویڈیٹی کی کمی ہے۔ یہ مشکلات بہت سے اقتصادی چیلنجوں کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہیں، خاص طور پر کاروبار کرنے کے بڑھتے ہوئے اخراجات توانائی کے ریکارڈ بلند نرخوں کی وجہ سے قابو سے باہر ہو گئے ہیں۔
کاروباری طبقے سود کی شرح کو سنگل ہندسوں میں لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ شرح سود سنگل ہندسوں پر آجاتی ہے تو کاروبار کو واضح روڈ میپ مل جاتا ہے جو تمام کاروباری افراد کو مستقبل کی سرمایہ کاری کے حوالے سے مزید کسی الجھن کے بغیر منصوبہ بندی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
صرف 200 پوائنٹس کی کمی سے کلیدی پالیسی ریٹ اب 17.5% پر آن کھڑا ہوا ہے جو کہ اب بھی بہت زیادہ ہے۔ اسے جارحانہ انداز میں 7% اور 8% کے درمیان لانے کی ضرورت ہے، جو خطے اور عالمی سطح پر بہت سے دوسرے ممالک سے مطابقت رکھتا ہو۔ شرح سود کو 22% سے کم کر کے 17.5% پر لاتے ہوئے حالیہ مسلسل تیسری کمی ہے، لیکن کاروبار اور صارفین پر مالی بوجھ کم کرنے اور اقتصادی ترقی کو تیز کرنے کے لیے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
ملکی معیشت کا گھڑیال ٹک ٹک کر رہا ہے۔ کیا اسٹیٹ بینک اس موقع سے فائدہ اٹھا پائے گا؟