فیصل ایدھی گورنر ہاؤس لاہور میں 

   فیصل ایدھی گورنر ہاؤس لاہور میں 
   فیصل ایدھی گورنر ہاؤس لاہور میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

عبدالستار ایدھی کے فرزند فیصل ایدھی 18دن رات مسلسل سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے بعد گورنر ہاؤس لاہور میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سے ملنے آئے۔ ریڈ کریسنٹ والے ڈاکٹر سعید الٰہی بھی ہمراہ تھے۔ خوش نصیب اولاد ہوتی ہے جو اپنے والدین کے مشن کو جاری رکھے۔ گورنر پنجاب نے ان کو اپنے والد کے اس مشن کو آگے بڑھانے پر خراج تحسین پیش کیا۔ یہ ملاقات دو گھنٹے جاری رہی۔ جس میں حالیہ سیلاب میں آنے والی تباہ کاری پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ فیصل ایدھی بتارہے تھے کہ آج وہ اٹھارہ دن بعد علی پوراور جلال پور پیر والا میں سیلاب زدگان کی مدد کے بعد واپس کراچی روانہ ہورہے ہیں۔ ان اٹھارہ دنوں میں ایدھی فاؤنڈیشن نے موجودہ سیلاب کے دوران کشتیوں کے ذریعے ان علاقوں میں 30ہزارافراد کو ریسکیو کیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن کی ٹیمیں 18دن مسلسل ریسکیو آپریشن میں شامل رہیں۔ انہوں نے چناب، راوی اور دریائے ستلج یعنی تین دریاؤں کے لئے نہ صرف 3علیحدہ علیحدہ ٹیمیں تشکیل دیں بلکہ آپریشن میں خود حصہ لیا۔دنیا کے میڈیا نے دیکھا کہ فیصل ایدھی اپنے ورکرز کے ساتھ کشتیوں پر خود سوار رہے۔اور ان میں بیشتر ورکرز کراچی کے تھے۔ 

فیصل ایدھی اپنی کارکردگی بتارہے تھے اور خوش تھے کہ پنجاب کے لوگوں نے انہیں بہت عزت دی۔ چونکہ سندھ میں سیلاب کا خطرہ نہ تھا لہذا وہ سندھ سے ورکرز پنجاب لے آئے تاکہ مصیبت میں گرے پنجابی بہن بھائیوں کی مدد کرسکیں۔ گورنر پنجاب نے فیصل ایدھی سے وعدہ کیا کہ ان ورکرز کی حوصلہ افزائی کے لئے جلد ہی ایک شاندار تقریب منعقد کی جائے گی۔ گورنر نے کہا کہ سیلاب متاثرین کی مدد اور ان کی بحالی اولین ترجیح ہے۔ مشکل وقت میں مصیبت میں گھرے لوگوں کے کام آنا کسی عبادت سے کم نہیں۔ سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کے لئے حکومت، ادارے اورفلاحی تنظیمیں مل کر کام کررہی ہیں۔ مقامی این جی اوز اور مخیر حضرات کے تعاون سے سیلاب زدگان کے لئے پانی اور کھانے کے علاوہ خشک راشن کے بیگز تقسیم کئے جارہے ہیں۔ سیلاب متاثرین کی بحالی تک امدادی کاروائیوں کا یہ سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ 

گورنر ہاؤس میں اس نشست کے دوران گورنر صاحب نے بتایا کہ وہ فیصل ایدھی سے کہیں زیادہ سیلاب زدگان کے بارے فکر مند ہیں۔جہلم، چکوال اور قصور کے نواحی علاقوں میں دوروں کے دوران ان کو بے بسی کے عالم میں دیکھ کر دل رنجیدہ ہے۔اور جلد ہی گورنر پنجاب ان بے گھر کے لیے کوئی جامع رہائشی منصوبہ اناؤنس کریں گے۔ گورنر صاحب بتارہے تھے کہ اکیلی حکومت کے بس کا یہ کام نہیں۔ ہم سب کو مل جل کر ان کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ لٹے پٹے یہ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔جلال پور، علی پوراور سلطان پورکے علاوہ دیگر علاقوں میں غریبوں کا سب کچھ لٹ گیا۔ان کے پاس کچھ نہیں۔ وہ کھلے آسمان تلے بے یارومددگار بیٹھے ہیں۔ ان کے پیروں پر چھالے ہیں۔ اس سے بڑی قربانی کیا ہوسکتی ہے۔ وہاں حالات ہماری سوچ سے زیادہ مشکل ہیں۔ پانی سے بچوں کی لاشیں نکل رہی ہیں۔درد ناقابل بیان ہے۔ سفید پوشوں کو امداد کی ضرورت ہے۔ وہ شرم سے مانگ نہیں سکتے مگر ان کی مجبوری ناقابل بیان ہے۔

فیصل ایدھی سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد دل دہلا دینے والے واقعات سنارہے تھے۔کہ غریب کسانوں کے گھر کس طرح تباہ ہوئے، فصلیں برباد ہوگئیں اور مویشی سیلاب کی نذر ہو گئے۔چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں بچہ اپنی ماں کی لاش کو بہتے پانی سے کھینچ رہا تھا۔ بیٹا ماں کی لاش کو سیلاب کی بے رحم موجوں میں سنبھالے چل رہا تھا، یوں لگ رہا تھا جیسے زمین کانپ رہی ہے اور عرش بھی اشک بار ہے۔

راقم بھی اس ملاقات میں موجود تھا۔ مجھے ڈاکٹر عفان یاد آگئے۔ڈاکٹر عفان قیصر ملتان کے نامور لیور سرجن اور سوشل میڈیا انفلوائسز ہیں۔ وہ بھی جلال پور پیر والا میں اپنی ٹیم کے ہمراہ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے موجود رہے۔ بتارہے تھے کہ گذشتہ رات میری ڈی جی ریسکیو 1122سے ملاقات ہوئی۔ سیلاب کے حوالے سے انہوں نے ایسے ایسے درد ناک واقعات سنائے کہ دل سن کر دہل گیا۔ کہتے ہیں ایک جگہ ہم نے سیلاب میں پھنسی ایک بیوہ بوڑھی عورت کو نکالا جس کی بکری بھی اس کے ساتھ تھی اور وہی اس کا کل اثاثہ تھی، دور جا کر بکری ڈر کے پانی میں گر گئی، اپنا واحد اثاثہ  لہروں کی نظر ہوتے دیکھ کر بڑھیا نے اس کے پیچھے چھلانگ لگا دی۔ دو گھنٹے ڈھونڈتے رہے نہ بکری ملی نہ اس بیوہ کی لاش ملی۔ ایک اور جگہ کہتے ایک کتا پھنسا ہوا تھا ہم نے ریسکیو کرنے کی کوشش کی مگر وہ ہماری طرف آنے کی بجائے زور زور سے چیختا اور پانی میں گھر کی طرف بھاگتا تھا۔ ڈی جی ریسکیو بتاتے ہیں کہ ہمارے لڑکے بہت مشکل سے اندر گئے تو کیا دیکھتے ہیں وہ کتیا تھی اور اندر اس کے بچے اس نے پانی سے بچا کر لکڑیوں کے اوپر رکھے ہوئے تھے مگر تین بچے مر چکے تھے صرف ایک زندہ تھا، جب تک ہم نے سارے بچے اٹھا کے کشتی میں نہیں رکھے ان کی ماں سوار نہیں ہوئی۔ 

ڈاکٹر رضوان صاحب مزید بتاتے ہیں کہ ایک فیملی کو ہم نے ریسکیو کیا۔ ان کی عورتوں کی چیخ و پکار سے ہمارے دل پھٹ رہے تھے جن کی لاشیں بھی نہیں ملی تھیں، وہ وہاں سے آنا ہی نہیں چاہتے تھے، ہم بہت مشکل سے انہیں ساتھ لائے۔ ایک اور جگہ کا بتایا کہ ایک پھنسی فیملی کو نکالا، ان کا بچہ پیدا ہوا تھا، حالات، ٹینشن اور مختلف مسائل کی وجہ سے قبل از وقت ڈلیوری ہوئی تھی اور میڈیکل کیئر نہ ملنے سے بچہ اور ماں دونوں مر چکے تھے، شوہر کو ہماری کشتی میں دل کا دورہ پڑا اور وہ بھی ہسپتال پہنچانے سے پہلے چل بسا،اب پیچھے ان کی دو یتیم بچیاں تھیں جو ابھی تک ریسکیو کے پاس ہیں کیونکہ باقی ان کا کوئی بچا ہی نہیں۔

فیصل عبدالستار ایدھی بھی ایسے ہی لوگوں کی مدد کرکے واپس لوٹے تھے جبکہ ان کی ٹیمیں ابھی فیلڈ میں تھیں۔ سندھ کے لوگوں نے پنجاب میں سیلاب میں پھنسے لوگوں کی مدد کی۔ فیصل ایدھی سادہ سے کپڑوں میں ملبوس ہوائی چپل پہنے گورنر آفس میں تشریف فرماتھے۔ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب پرانا واقعہ بتانے لگے کہ ایک بار وہ زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے ٹیم لے کر پنجاب سے کراچی گئے۔ تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے اور ایدھی صاحب پرانی گرمیوں والی شلوار قمیض پہنے نان اے سی ایمبولینس میں سوار تھے انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ اسی طرح چلنا ہوگا۔ ایک اور واقعہ بتانے لگے کہ عبدالستار ایدھی صاحب چندہ اکٹھاکرنے لاہور لبرٹی تشریف لائے اور چوک میں بیٹھ کر چادر بچھا کر مانگنا شروع کر دیا۔ فیصل ایدھی صاحب کو بھی جب گورنر پنجاب سردار سلیم صاحب ان کی گاڑی تک چھوڑنے گئے تو وہ ایدھی کی ایمبولنس تھی۔

مزید :

رائے -کالم -