دفاعی معاہدہ اور معاشی تقاضے

  دفاعی معاہدہ اور معاشی تقاضے
  دفاعی معاہدہ اور معاشی تقاضے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان اور سعودی عرب کے مابین باہمی دفاع کا سٹریٹجک معاہدہ، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک ملک کے خلاف کسی بھی قسم کی جارحیت دونوں کے خلاف جارحیت تصور کی جائے گی اور دونوں ملک مل کر اس جارحیت کا جواب دیں گے، اسے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ، دونوں خطوں کے لیے گیم چینجر قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ پاکستان میں اسے بجا طور پر ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور کچھ ایسی ہی صورت حال سعودی عرب میں بھی نظر آتی ہے۔ سعودی وزارت دفاع کے مطابق اس سٹریٹیجک معاہدے کا مقصد سعودی عرب اور پاکستان کے مابین دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ دینا اور کسی بھی نوعیت کی جارحیت کے خلاف مشترکہ ڈیٹرنس کو بڑھانا ہے۔ 

یہ ایک اچانک سامنے آنے والی پیش رفت تھی اس لیے اس نے پاکستانی عوام سمیت بہت سے ممالک کو حیران کر دیا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ سٹریٹیجک معاہدہ طاقت کے علاقائی توازن میں ایک بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے، اور مشرق وسطیٰ سے متعلق اسرائیل حتیٰ کہ امریکہ کی حکمت عملی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ امسال9  ستمبر کو قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد کسی خلیجی ریاست کی جانب سے اٹھایا گیا یہ پہلا بڑا دفاعی رد عمل ہے۔ قطر پر اسرائیل کے حملے نے خلیجی ممالک کے ان خدشات کو ہوا دی ہے کہ ان کے دفاع کے لیے امریکہ کا عزم پہلے جیسا نہیں رہا۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دوحہ پر اسرائیلی حملے کو وحشیانہ جارحیت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے لیے عرب، اسلامی اور بین الاقوامی رد عمل کی ضرورت ہے۔ اس پر پہلا رد عمل خود سعودی عرب کی جانب سے اس دفاعی معاہدے کی شکل میں آ گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قطر پر اسرائیلی حملے نے پورے مشرق وسطیٰ کی سیاست کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے کیونکہ حفاظت اور سلامتی کے نام پر امریکہ نے اس خطے کے کئی ممالک میں فوجی اڈے بنا رکھے ہیں جن کی مختصر تفصیل اس طرح ہے۔ امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کا ہیڈ کوارٹر بحرین میں ہے جو خلیج، بحیرہ احمر، بحیرہ عرب اور بحر ہند کے کچھ حصوں کے لیے ذمہ دار ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ کے قریب 24 ہیکٹر پر مشتمل العدید ایئر بیس امریکی سینٹرل کمانڈ کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے جو مغرب میں ایک بڑے علاقے میں امریکی فوجی کارروائیوں کا ذمہ دار ہے۔ اس ایئر بیس پر کم و بیش  10 ہزار امریکی فوجی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ کویت میں موجود کیمپ عارفجان امریکی آرمی کے سینٹرل اور علی السلیم ایئر بیس کا فارورڈ ہیڈکوارٹر ہے۔ متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی کے جنوب میں واقع الظفرایئر بیس امریکی فضائیہ کا ایک اہم مرکز ہے۔ امریکہ کی عین الاسد نامی ایئر بیس عراق کے مغربی صوبے الانبار میں موجود ہے۔ سعودی عرب میں 2321 امریکی فوجی سعودی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ یہ امریکی فوجی فضائی اور میزائل دفاعی صلاحیتیں فراہم کرتے ہیں۔ اردن کے دارالحکومت عمان سے 100 کلو میٹر شمال مشرق میں ازراق میں واقع مووفق السلطی ایئر بیس امریکی فضائیہ کے سینٹرل کے 332ویں ایئر ایکسپیڈیشنری ونگ کی میزبانی کرتی ہے۔ ان اڈوں کے اخراجات کے نام پر امریکہ متعلقہ ممالک سے بھاری رقوم وصول کرتا ہے۔ لیکن نیتن یاہو کے قطر پر حملے نے ان سارے امریکی اڈوں کے جواز کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ سعودی عرب کی طرح دوسرے ممالک بھی سوچ سکتے ہیں کہ امریکی اڈوں کی موجودگی کے باوجود اگر وہ اسرائیلی حملوں سے محفوظ نہیں ہیں تو پھر ان انتظامات کا متبادل کیا ہو سکتا ہے؟ نیتن یاہو امریکہ سے سب سے زیادہ مالی اور حربی امداد وصول کرتا ہے اور نیتن یاہو نے اسی امریکہ کی پیٹھ میں ایک طرح سے چھرا گھونپ دیا ہے کہ سارے مشرق وسطیٰ پر امریکہ پر اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔

میں یہاں حکمرانوں کو صرف دو مشورے دینا چاہتا ہوں۔ پہلا یہ کہ، ٹھیک ہے، معاہدہ کر لیا گیا ہے۔ یہ اچھا معاہدہ ہے۔ اس سے پاکستان کو بھی تحفظ ملا ہے اور سعودی عرب کے بھی اپنی سکیورٹی کے حوالے سے تحفظات دور ہوئے ہیں، لیکن ان ساری چیزوں کے باوجود نہایت پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھانے کی ضرورت ہو گی کیونکہ وہ طاقتیں جو مشرق وسطیٰ کو کمزور کرنا چاہتی ہیں تاکہ ان کا گریٹر اسرائیل کا خواب پورا ہو سکے، وہ پاک سعودی عرب معاہدے پر عمل درآمد کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کریں گی۔ ان کوششوں کو کیسے ناکام بنانا ہے اور کیسے معاملات کو آگے بڑھانا ہے اس کے لیے دونوں ملکوں کی قیادت کو مل بیٹھ کر طویل بحث کے بعد مناسب فیصلے کرنا چاہئیں۔

دوسرا یہ کہنا تھا کہ پاکستان پچھلے کچھ عرصے سے معاشی اور اقتصادی مسائل کا شکار ہے۔ اس کے حکمرانوں نے دوسرے ممالک اور عالمی اقتصادی اداروں سے قرضے لے لے کر یہ بوجھ اتنا بڑھا دیا ہے کہ اب خود ان کی اپنی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس عفریت سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ عوام پر ٹیکس پر ٹیکس لگائے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں لوگوں کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے۔ ابھی آج ہی عالمی بینک نے پاکستان میں غربت سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں غربت کی موجودہ شرح 25 اعشاریہ 3 فیصد ہے۔ گزشتہ 3 برس میں غربت کی شرح میں 7 فیصد کا اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق 2022ء میں غربت کی شرح 18 اعشاریہ 3 فیصد تھی، جبکہ گزشتہ برس یعنی 2024ء غربت کی شرح 24 اعشاریہ 8 فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق 2001ء سے 2015ء تک پاکستان میں غربت کی شرح میں سالانہ 3 فیصد کمی ہوئی جبکہ 2015ء سے 2018ء تک پاکستان میں غربت کی شرح میں سالانہ ایک فیصد کمی ہوئی لیکن 2022ء کے بعد غربت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ 

 ضرورت اس امر کی ہو گی کہ سعودی عرب کو اس کی سکیورٹی کے حوالے سے یقین دہانیاں ضرور کرائی جائیں اور اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی کیے جائیں لیکن اس معاہدے کو پاکستان کے معاشی حالات بہتر کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔ پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہو گا تو وہ سعودی عرب یا اس معاہدے میں ممکنہ طور پر شامل ہونیوالے دوسرے ممالک کے تحفظ کو یقینی بنا سکے گا۔ ایک ضروری بات یہ بھی ہے کہ سعودی عرب سے ہمیں جو بھی امداد یا قرضے ملیں انکے مناسب طریقے سے استعمال کو یقینی بنانا بے حد ضروری ہے، ورنہ صورت حال یہ ہے کہ عوام سے تو ٹیکس پر ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں لیکن دوسری طرف جس محکمے یا جس ادارے یا جس شعبے کو تھوڑا سا بھی گہرائی تک کھنگالا جائے تو اس میں سے کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں نکلتی ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ سعودی عرب اور دوسرے ممالک سے جو امداد ملے اسے کرپشن کی نذر ہونے سے بھی بچایا جائے۔ 

مزید :

رائے -کالم -