اور کچھ نہیں صرف ضمیر ہی ڈوبا ہے

قاتل پانی نے چھوڑا ہی کیا ہے؟
کسی بیٹی کا جہیز، کسی کی ساری عمر کی جمع پونجی، کسی کا مال و مویشی، کسی کا کم سن بیٹا، بیٹی، کسی کا بھائی، کسی کا باپ، کسی کی ماں، ظالم سب کچھ ہی بہا لے گیا ہے، پیچھے رونے کے لئے آنسو ہی تو چھوڑے ہیں۔
کل رات امریکہ سے جگر جان چوہدری طارق کا فون آیا، ایک گھنٹہ پر محیط کال پر انہوں نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے ساتھ پہلے میری جواں سال بھابھی کے انتقال کا افسوس کیا جن کے علاج میں لاکھوں روپے صرف ہو گئے لیکن زندگی نے ان سے وفا نہ کی اور وہ بریسٹ کینسر سے اتوار کو انتقال کر گئی تھی۔
چوہدری طارق نے کہا۔یار امریکہ میں سکول جاتی بچیوں کی سکرینگ کی جاتی ہے۔امریکہ میں بریسٹ کینسر نہ ہونے کے برابر ہے۔چوہدری طارق کے بقول امریکہ میں پہلا سبق انسانیت کے لئے مرمٹنے کا دیا جاتا ہے۔یہ بات امریکیوں کی ٹریننگ میں شامل ہے کہ خود بھی خوش رہنا ہے اور دوسروں کو بھی خوش رکھنا ہے۔ چوہدری طارق نے بتایا۔پچھلے دنوں دوران ڈیوٹی تمہاری بھابھی کو چکر آ گیا، اسی وقت ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی ٹیم نے آ کر چیک اپ کیا، معلوم ہوا، پانی کی کمی سے بلڈ پریشر لو ہو گیا تھا۔طبی عملہ آدھے گھنٹہ تک دفتر میں موجود رہا، اپنی تسلی کرنے پر وہ وہاں سے روانہ ہوئے۔چوہدری طارق نے کہا۔دفتر میں اگر کسی شخص کی طبیعت خراب ہو یا برلب سڑک آپ کی گاڑی خراب ہو جائے یا آپ کسی مسئلہ سے دوچار ہو جائیں۔ہر شخص آپ کی خیریت معلوم کرنے آ جائے گا، آ کر کہے گا، آپ کو میری مدد کی ضرورت ہے؟وہاں کی صرف ہی نہیں، سرکاری محکمے بھی کسٹمرز کے صدقے واری جاتے ہیں۔امریکہ میں اگر ٹیکس لیا جاتا ہے تو اس کا حق بھی پورا ادا کیا جاتا ہے۔
چوہدری طارق نے کہا۔آپ نے چند دن پہلے وزیراعظم پاکستان کے نام ایک کالم تحریر کیا، آپ نے اس میں ذاتی گیس میٹر کی لیکیج پر ہزاروں روپے بل بھرنے کی اپنی درد بھری کہانی لکھی۔امریکہ میں میٹر سے برنر تک ہر مسئلے کی ذمہ داری کمپنی کی ہے، آپ استعمال شدہ گیس، بجلی کا بل بھریں گے اور امریکہ میں ہفتہ، اتوار چھٹی والے دن گیس، بجلی کے زیادہ استعمال پر نرخ الٹا کم کر دئیے جاتے ہیں یعنی ہر لحاظ سے عوامی فلاحی ریاست میں عوام کو سکھی کرنے کی پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں ناکہ ہماری طرح عوام کا گلا گھونٹنے والے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔
چوہدری طارق کا تعلق چونکہ جنوبی پنجاب سے ہے، وہ علاقے کی ایچی بیچی جانتے ہیں۔ دکھ بھری آواز میں کہا۔
78 سال ہو گئے، وہی کہانی، وہی ہجرت، وہی سر پر سامان، بغل میں بچے اٹھا کر قوم کا سن 47 والا سفر جاری ہے، کچھ بھی تو نہیں بدلا ہے، بات احساس کی ہے مگر احساس کے ترجمے ہوتے ہی کہاں ہیں؟ انہیں صرف محسوس کیا جاتا ہے اور مسلسل گندگی میں رہنے والی قوم بدبو کا احساس بھی کھو دیتی ہے جبھی تو سیلابی ریلوں میں پھسے افراد سے کشتیوں والے ہزاروں روپے بٹور کر اپنے پکے مسلمان ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں اور 24/7 جھوٹ بولنے والے گالیاں گوروں کو دیتے ہیں، جن کے دریاؤں پر بنائے پل 100 سال بعد بھی قائم دائم ہیں۔آپ ان ڈکیتوں کی ڈکیتیوں پر شوروغوغا کیوں کر رہے ہیں جنھوں نے سیلاب میں رلنے والوں کی املاک کو لوٹنے میں ذرا دیر نہ کی، اس جرم میں دریاؤں کے راستے میں ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کے اژدہام، دریاؤں کی بھل صفائی، دریاؤں کے بند مضبوط نہ کرنے والے پاکستانی دجال بھی برابر کے شریک ہیں۔چوہدری طارق نے دور کی کوڑی لانے والے سقراطوں سے پوچھا کہ جب دریائے چناب کے بپھرنے کی خبریں زبان زد عام تھی اور بے قابو ستلج و راوی پھنکار رہا تھا، اس وقت مظفر گڑھ، ملتان، بہاول پور، جلال پور پیر والہ، علی پور، لیاقت پور سے لوگوں کے انخلاء اور صحیح وقت و جگہ سے بریچ کیوں نہ کیا جا سکا؟
مانا کہ فیلڈ مارشل، وزیر اعظم اور سی ایم پنجاب نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور فیلڈ میں سینئر وزیر مریم اورنگزیب، وزراء صحت خواجہ سلمان، خواجہ عمران نذیر، وزیر قانون و مواصلات ملک صہیب بھرت، وزیر تعلیم رانا سکندر، وزیر آبپاشی میاں کاظم ریسیکو و ریلیف آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں مگر سرکاری مشینری دیر سے کیوں پہنچائی گئی؟
سب کو بھول جاتا ہے کہ چند ہفتے پہلے کا پانی میں ڈوبا پاکستان کیا تھا؟خاکسار نے مسلسل بولنے والے چوہدری طارق سے سوال کیا؟کیا اب ایسا ممکن ہے کہ ہم گولی کی رفتار سے آکر زمینوں کا بیرحمی سے کٹاو کرنے والے سیلاب سے بچاو کے لئے تمام اختلافات بھلا کر جاپانیوں کی طرح یک زبان ہو کر ڈیم بنانے، نہریں کھودنے، مصنوعی جھیلیں اور بیراج بنانے میں جت جائیں۔
چوہدری طارق نے مجھ سے کہا۔بدقسمتی سے ایسا ہو نہیں سکتا۔چوہدری طارق نے یہ کہہ کر مجھے لاجواب کر دیا کہ زیادہ لمبی چوڑی تمہید نہیں باندھوں گا، مختصر دو لفظی بات کروں گا کہ سیلاب میں اور کچھ غرق نہیں ہوا ہے، صرف ہمارا ضمیر ہی ڈوبا ہے۔ہر سیلاب میں ہر بار ہمارا ضمیر ہی ڈوبتا ہے۔جب تک ہمارا ڈوبا ضمیر نہیں جاگتا، یہاں کچھ نیا نہیں ہونے والا ہے، سیلاب کے نوحے اسی طرح پڑھے جاتے رہیں گے۔اللہ پاک ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے۔ آمین