امریکہ پیچھے، ڈونلڈ ٹرمپ آگے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں پر کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ شیخی بگھارنے والے ایک ایسے شخص ہیں جو اپنی ذات کی نرگسیت کا شکار ہیں وہ امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر اپنی شخصیت کو آگے لانے کے خبط میں مبتلا ہو چکے ہیں،ماضی میں کسی امریکی صدر نے ایسے فرنٹ فٹ پر آ کر یہ دعوے نہیں کئے کہ میں نے دنیا میں یہ کر دیا ہے یا وہ کر دیا ہے، بلکہ ہمیشہ امریکہ کی بات کرتے رہے ہیں،شخصی طور پر کسی کارنامے کو اس طرح نہیں ابھارتے تھے کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ امریکہ ایک ون مین شو کے نظام پر چلتا ہے۔یہ امریکیوں کے نزدیک اُن ممالک کے سربراہوں کی عادت ہوتی ہے، جہاں ادارے نہیں ہوتے، جمہوریت نہیں ہوتی اور آئین کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔روس، چین، شمالی کوریا جیسے ممالک میں یہ چلتا ہے مگر امریکہ میں نہیں،مگر ڈونلڈ ٹرمپ ہر چیز کو روندنے پر تلے ہوئے ہیں۔مثلاً انہوں نے یہ جو تازہ ترین دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے دنیا میں سات جنگیں رکوائیں تو اوبامہ، کلنٹن، جارج بش جونیئر یا کوئی بھی ماضی کا امریکی صدر اس کی بجائے یہ کہتا کہ امریکہ نے دنیا میں سات جنگیں رکوائی ہیں، وہ امریکہ کو آگے اور اپنی ذات کو پیچھے رکھتے، مجھے امریکی یونیورسٹی میں پڑھانے والے ایک پاکستانی پروفیسر نے بتایا کہ امریکیوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے کئی تحفظات ہیں اور سب سے بڑا اعتراض یہی ہے کہ وہ امریکہ کو ایک آمرانہ صدر کے طور پر چلا رہے ہیں۔انہوں نے امیگریشن کے حوالے سے جو فیصلے کئے، پسند نہیں کئے گئے، پھر جس طرح انہوں نے عدالتوں کے اختیارات کو چیلنج کیا وہ بھی ایک غیر روایتی بات ہے۔اُن کے ٹیرف کے حوالے سے کئے گئے اقدامات نے امریکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، مہنگائی جو پہلے ہی بہت تھی ان فیصلوں کی وجہ سے عام امریکیوں کے لئے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ امریکی صدر ایک ایسے خبط میں مبتلا نظر آتے ہیں،جس میں انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ پوری دنیا کا نظام اُس کے اشارے پر چل رہا ہے۔ایک زمانے تک امریکہ بڑی خاموشی سے دنیا کی سپر پاور بنا رہا، وہ اپنے مقاصد حاصل کرتا تھا اور اس کے لئے امریکی تھنک ٹینک، پینٹاگان اور سی آئی اے مل کر فیصلے کرتے تھے۔ امریکہ کو سپر پاور بنانے میں اس حکمت عملی نے بہت کام کیا،اب معاملہ دوسرا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر بات کا کریڈٹ خود لینا چاہتے ہیں یہ ایک خطرناک حکمت عملی ہے کیونکہ یہ شخصی ہے اور اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ کی اِس بات پر ہنسنے کی تو پوری گنجائش موجود ہے کہ اقوام متحدہ کی بجائے مجھے جنگیں بند کرانا پڑیں،ایک معمولی علم رکھنے والے کو بھی پتہ ہے جب سے اقوام متحدہ بنی ہے،امریکی رکھیل کا کردار کر رہی ہے دنیا کا کون سا فیصلہ اقوام متحدہ نے امریکی منشاء کے خلاف کیا ہے۔ سلامتی کونسل میں کون سی ایسی قرارداد منظور ہوئی ہے، جسے امریکہ نے مسترد کیا ہو، اُس کے پاس تو ویٹو پاور ہے، وہ کوئی ایسی قرارداد پاس ہونے ہی نہیں دیتا،کیا اقوام متحدہ کبھی اسرائیلی جارحیت اور فلسطین کے قتل عام کو رکوا سکی۔ کیا جن ممالک میں امریکہ نے جارحیت کی، وہاں اقوام متحدہ بطور ادارہ سامنے آیا؟جب اقوام متحدہ ہے ہی ایک کٹھ پتلی تو ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ اقوام متحدہ کی بجائے انہوں نے جنگیں رکوائی ہیں، ایک بے وقت کی راگنی ہے۔ امریکہ اگر یہ جنگیں رکوانے کے لئے اقوام متحدہ میں قرارداد لاتا تو اسی دن منظور بھی ہو جانی تھی اور اُس پر سختی سے عمل بھی ہونا تھا،مگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ چاہتے ہی نہیں تھے۔ وہ خود ہیرو بننے کے خواہشمند تھے سو انہوں نے اپنا کردار سامنے رکھا۔اُن کی ذاتی خواہشات کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ وہ خود یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ امن کوششوں میں میرے کردار سے مجھے نوبیل انعام ملنا چاہئے۔ شاید نوبیل انعام کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا ہو گا کہ کسی نے ازخود یہ دعویٰ کیا ہو کہ وہ اپنے کارناموں، تخلیقات یا ایجادات کی وجہ سے نوبیل انعام کا حقدار ہے۔ اُن کے عہد میں جتنا ظلم اسرائیل نے غزہ میں کیا ہے، اُس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی،اِس دوران انہوں نے ایک بار بھی اسرائیل کو شٹ اَپ کال نہیں دی کہ وہ فلسطین کی نسل کشی بند کرے۔البتہ حماس کو یہ دھمکیاں ضرور دیں کہ وہ غزہ سے نکل جائے اور وہاں ایک نیا شہر بسانے دے۔ اب انہوں نے یہ ایک اور ٹرمپ کارڈ کھیلا ہے کہ کچھ ممالک نے ”فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے جو حماس کے لئے ایک بڑا انعام ہے“ گویا وہ اِس انداز سے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ یہ بھی اُن کی وجہ سے ہوا اور غلط ہے۔
یہ درست ہے کہ اِس وقت ڈونلڈ ٹرمپ سے پوری دنیا ڈری ہوئی ہے،انہوں نے ایک ایسا ہَوا کھڑا کر دیا ہے کہ کوئی ملک اگر امن، چین اور خوشحالی چاہتا ہے تو اُسے امریکہ کی برتری کو تسلیم کرنا ہو گا۔وہ چین اور روس جیسے بڑے ممالک کو بھی اسی لاٹھی سے ہانکنا چاہتے ہیں۔انہوں نے چین کو ایک بار پھر دھمکی دی ہے کہ امریکی معیشت کی برتری نہ مانی تو ٹیرف میں مزید اضافہ کر دیا جائے گا۔ایسے میں ہمارا کردار کیا ہونا چاہئے یہ بہت اہم بات ہے۔اِس وقت بظاہر لگتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انڈیا کے مقابلے میں ہماری طرف جھکاؤ ہے،اُن کے دِل میں پاکستان کے لئے ایک سافٹ کارنر نظر آ رہا ہے،لیکن یہ بہت بڑی خوش فہمی ہو گئی کہ ڈونلڈ ٹرمپ بلاوجہ ہم پر فریفتہ ہو گئے ہیں، ضرور اُن کے کچھ اپنے اہداف اور مقاصد ہیں۔وہ خطے میں پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں یا پھر اُن کی ہمارے معدنی ذخائر پر نظر ہے۔ مقصد کچھ بھی ہو ہمارا فرض یہی بنتا ہے کہ ہم اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور پاکستان کے لئے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کر لیں۔ جب افغانستان ایک ایئر بیس دینے کا کرایہ ایک ارب ڈالر ماہانہ مانگ سکتا ہے تو ہم امریکہ کو کوئی سہولت دینے کا بدل کیوں طلب نہیں کر سکتے، ہمیں سوچنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭