گلگت کی دوپہر گرم تھی ، شہر سے باہر نکلے تو قراقرم کے سیاہ بنجر پہاڑوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلنے لگا
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:170
گلگت کی دوپہر گرم تھی۔ قرا قرم کے سیاہ پہاڑ دھوپ سے تپ رہے تھے۔گاڑی میں ہمارے علاوہ بھی چند سواریاں تھیں۔ساڑھے بارہ بجے گا ڑی جٹیال کے اڈے سے نکلی اور سفر کی کھلی ڈوری یوں لپٹنے لگی جیسے پتنگ کٹنے پر ڈور چرخی پر لپٹتی ہے۔ شہر سے باہر نکلے تو قراقرم کے سیاہ بنجر پہاڑوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلنے لگا۔میں ڈرائیور کے ساتھ ہی اگلی نشست پر بیٹھا تھا اور سامنے سے آ نے والی چلچلاتی دھوپ سیدھی مجھ پر پڑ رہی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے اے سی چلانے کے لیے کہا تو اس نے بتا یا کہ گا ڑی میں اے سی نہیں ہے۔یہ خبر مجھ سمیت سب ساتھیوں پر بجلی بن کر گری۔ احمد علی کی نشست بھی دھوپ کی زد میں تھی۔بلال اور ندیم بھی اسی مصیبت میں تھے۔باقیوں کا حال بھی پتلا تھا۔ ہوا کے لیے کھڑکیاں کھولیں تو گرم ہوا اورخشک سیاہ پہاڑوں کی تپش نے جھلسا کر رکھ دیا۔اب مسئلہ یہ تھا کہ کھڑکیاں بند رکھتے تو دھوپ میں بھُنتے اور کھڑکیا ںکھولتے تو لُو سے جھلستے تھے۔جہاں جہاں دھوپ پڑتی تھی وہا ں وہاں جسم سے شرارے پھوٹتے تھے۔سیٹیں تختے کی طرح سخت اور ان کی کمریں فِکس(fix) اور بالکل سیدھی تھیں۔ اس میں کو ئی مبالغہ نہیں کہ نیٹکو کی بسیں دنیا کی سب سے غیر آرام دہ بسیں ہیں لیکن پھر بھی ان میں سے بعض کی سیٹوں کو آ گے پیچھے کر کے ایڈ جسٹ کیا جاسکتا ہے۔ گدّیوں میں فوم ہے جس سے سُرین کی ذمہ داری ذرا کم ہو جاتی ہے اور اگر اے سی چلتا ہو (جو عام طور پر بہت کم چلتا ہے) تو ان پر بیٹھنا بھی ممکن ہو تا ہے ، کھڑکیوں پر پردے ہوتے ہیں جنھیں سرکا کر دھوپ یا روشنی سے بچا جا سکتا ہے لیکن چیمے کی منتخب کی ہوئی گا ڑی نیٹکو کی بسوں سے بھی پرلے درجے کی تھی۔جوں جوں سورج جھک رہا تھا توں توں سیدھی پڑنے والی دھوپ کی شدت بڑھتی جا رہی تھی۔ گرمی اور لُو سے تنگ آ کر اعظم کی ٹیم نے چیمے کی شان میں قصیدہ خوانی شروع کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا صرف ایک مشورہ مان کر سب اتنا خراب ہو رہے ہیں اگر اس کی پہلی باتیں بھی مانی ہو تیں تو پتا نہیں کیا کیاہوتا۔ جگلوٹ آ تے آتے گرمی سے حواس جواب دینے لگے۔میں دھیان پلٹانے کےلئے ویگن میں بجنے والے گانے پر تو جہ دینے کی کوشش کرتا جو سنائی تو دے رہا تھا لیکن سمجھ نہیں آ رہا تھا کیوں کہ کیسٹ پلئیر کا سپیکربھی خراب تھا اورمحض اذیت ناک شور نشر کر رہا تھا۔ ایک تو واپسی کا سفر ہوتا ہی بور اور تھکاوٹ سے بھر پور ہے جو رہا سہا سفر کا رومان ہوتا ہے وہ بھی غارت ہو چکا تھا۔ سب لوگ باہر کا منظر دیکھنے کے بجائے دھوپ سے بچنے کی ناکام جد و جہد میں مصروف تھے۔
ویگن کا مون ورَت
کچھ دور آکر گاڑی کے کیسٹ پلئیر اور ہارن نے یک دم چپ سادھ لی جو مون ورت (ہندو مت میںچپ کا روزہ) میں بدل گئی اور ڈرائیور ایّوب کی تمام تر کوشش کے باوجود نہیں ٹو ٹی۔ یعنی اب ہم شاہراہ ِ ریشم پر ایک ایسی گاڑی میں سفر کر رہے تھے جس کا ہارن نہیں تھا اور شام کے بعد اس سڑک پر ہیوی گاڑیوں اور ٹرکوں کے قافلوں کی بھرمار ہوتی ہے۔
تّتا پانی سے آ گے جہاں سڑک بہت تنگ تھی اور دائیں ہاتھ گہرائی میں شیر دریا کا گدلا پانی بہتا تھا اچا نک ایک ٹرک ریورس میں چلتا نظر آیا۔ ہم آگے جا رہے تھے اور وہ الٹے پاؤں (یا الٹے ٹائر) ہماری طرف آ رہا تھا۔سڑک پر اتنی جگہ نہیں تھی کہ ہم ایک طرف کو ہو کر اسے اوور ٹیک کر لیتے۔ہماری گاڑی کا ہارن بند تھا اور ڈرائیور اور کنڈکٹر کے ”او، او، او۔۔۔“ کَہ کر شور مچانے کے باوجود ہماری چھوٹی سی ویگن پر چڑھا آرہا تھا جو ٹرک کے مقابل ایسے لگ رہی تھی جیسے ہاتھی کے سامنے بکری۔اس سڑک پر اس کی الٹی ٹکر ہمارے لیے مہلک بھی ہو سکتی تھی۔ موت کو اتنا قریب دیکھ کر سب نے ایوب کو ویگن ریورس کرنے کےلئے کہا لیکن اس بل کھاتی سڑک پر یہ بھی مشکل کام تھا۔ اس پر سب مسا فروں نے کھڑکیاں کھول کر اجتماعی ہا ہا کار مچائی تو ٹرک ہماری ویگن سے چند انچ کے فا صلے پر رک گیا۔ڈرائیور اور کنڈکٹر کے ساتھ چند سواریوں نے اتر کر ٹرک ڈرائیور کو ملامت کی جس پر وہ بالکل شرمندہ نہیں ہوا۔وہ ایک باریش پٹھان تھا جو ایک خوش شکل لڑکے کو ٹرک ریورس کرنا سِکھا رہا تھا (شاہراہ ِ ریشم پر)۔
اب ہماری ساری امید شام کے ساتھ وابستہ تھی کہ سورج ڈھلے گا تو سفر گوارا ہو جائے گا لیکن شام میں ابھی بہت دیر تھی۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔