قوم سیلاب زدگان کی مددکرے
سیلاب زدگان کی مدد کرنا ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے ہزاروں خاندان اور لاکھوں افراد ہماری مدد کے منتظر ہیں
حافظ محمد ابراہیم نقشبندی
یہ سیلاب، طوفان، زلزلے اور دیگر آفتیں کیوں آتی ہیں؟ اس سلسلے میں یہ بات حقیقت ہے کہ ان کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہوں گے۔ ہمیں ان اسباب میں سے کسی کا انکار نہیں ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی ان آفتوں، زلزلوں، آندھیوں، طوفانوں، وباؤں اور سیلابوں کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے خدا کا عذاب قرار دیا ہے۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا یا تنبیہ کے طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے چند احادیث کا یہاں ہم ذکر کرتے ہیں۔ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم نیکی کا حکم ضرور دیتے رہنا، لوگوں کو برائی سے ضرور منع کرتے رہنا، اور ظلم کرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے ضرور روکنا۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مار دے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جیسا کہ پہلی امتوں پر کی تھی۔ترمذی شریف میں ہی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور سر انجام دیتے رہنا، ورنہ تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب نازل ہوگا، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔ابو داؤدد شریف میں سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب لوگ معاشرہ میں منکرات یعنی نا فرمانی کے اعمال کو دیکھیں اور انہیں تبدیل کرنے کی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر خدا کا عذاب آ جائے۔ترمذی شریف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جانے لگے، امانت کو غنیمت کا مال سمجھ لیا جائے، زکوٰۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے، تعلیم حاصل کرنے میں دین کے مقصد کو پس پشت ڈال دیا جائے، خاوند اپنی بیوی کا فرمانبردار ہو جائے، بیٹا اپنی ماں کا نافرمان ہو جائے، بیٹا اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو خود سے دور رکھے، مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو، قوم کا لیڈر اس کا رذیل ترین شخص ہو، کسی شخص کی عزت صرف اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانے لگے، ناچنے والیاں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں، شرابیں پی جانے لگیں، اور امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں تو پھر خدا کے عذاب کا انتظار کرو جو سرخ آندھی، زلزلوں، زمین میں دھنسائے جانے، شکلوں کے مسخ ہونے، پتھر برسنے، اور ایسی دیگر نشانیوں کی صورت میں اس طرح لگاتار ظاہر ہوگا جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی لگاتار گرنے لگیں۔اسی طرح آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ یہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا اظہار ہوں گی۔ اس لیے قدرتی آفات کے ظاہری اسباب پر ضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے بچاؤ اور تحفظ کی ضرور کوشش کی جائے لیکن اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے باطنی اسباب اور روحانی عوامل کی طرف بھی توجہ دی جائے اور ان کو دور کرنے کے لیے بھی محنت کی جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔“ (سورۃ المائدۃ: 32)
پاکستان میں اس سال پھر سیلاب اور بارشوں سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو رہی ہے اور جولائی سے اب تک ملک کے چاروں صوبوں میں سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ متعدد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سیلاب سے سڑکوں، پلوں اور املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ ان بارشوں اور سیلاب سے کہیں ہنستے بستے گھر پانی میں بہہ گئے اور کہیں مکانات پر پہاڑی تودے آ گرے جبکہ کچے مکانات کے مکینوں پر ان ہی کے مکان کی چھتیں گر پڑیں۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس سیلاب نے 60 سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا کیوں کہ 60 سال پہلے جو سیلاب آیا تھا وہ اپنے ساتھ اتنی بڑی تباہی لے کر نہیں آیا تھا۔ اس سال کے سیلاب نے تقریباً ہزاروں لوگوں کو اپنی طغیانی کا شکار بنا لیا اور فصلوں کو روندتا ہوا اسے بھی اپنی آغوش میں سمو لیا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہوکے رہ گئے۔ آشیاں اجڑ جانے کا درد کیا ہوتا ہے، بھوک کی تڑپ کتنی ہولناک ہوتی ہے، زندگی کا سازوسامان اچانک بکھر جانے دکھ کیا ہوتا ہے؟ کوئی آج جا کے سیلاب زدہ لوگوں سے پوچھے۔ نہ جانے کتنے معصوم بچے اپنی ماؤں کی گود اجاڑ چکے، نہ جانے کتنے ماں باپ اپنے بچوں کو یتیم کر کے پانی کی بہاؤ کے ساتھ ہچکولے کھاتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے گئے، نہ جانے کتنے بسے بسائے گھر یوں مٹ گئے جیسے کبھی ان کا وجود ہی نہیں تھا۔الحمد للہ! الکہف ایجوکیشنل ٹرسٹ اپنے ان غم زدہ بھائیوں کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ الکہف ایجوکیشنل ٹرسٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے میں نے بذاتِ خود اپنی ٹیم کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان اور اس کے قریبی علاقوں میں سیلاب اور شدید بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات کا معائنہ کیا اور متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیوں کے متعلق حکمت عملی بنا کر کام کا آغاز کیا دیا ہے۔الحمد للہ! جنوبی پنجاب ڈیرہ غازی خان اور دیگر قریبی علاقوں تونسہ شریف، مزید راجن پور، پل قمبرگاڈی موڑ، شادن لنڈ، بستی چھٹانی، کلیری، کھوسہ،چوٹی کا علاقہ لوہار والا، لشاری بستی،جھنڈا موڑ، درخواست جمال خان کا علاقہ میں الکہف ٹرسٹ کی انتظامیہ اپنی امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ متاثرین سیلاب میں راشن، خیمے اور ادویات کی تقسیم جاری ہے۔ الکہف سیلاب متاثرین پروگرام کے تحت اس وقت تک پانچ سوراشن پیکج تقسیم کیے گئے۔ تین سوخیمے دیے گئے۔ شادن لنڈ کا علاقہ پل قمبر کے قریب میڈیکل کیمپ بھی لگایا گیا جس میں اب تک 1000افراد کا علاج اور ضروری دوائیں مہیا کی جا چکی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کندھ کوٹ،جیکب آباد، نصیراباد، جعفراء باد گنداخہ باغ ہیڈمیں بھی امدادی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔ 1000سے زائد خاندانوں میں لاکھوں روپے مالیت کے امدادی سامان تقسیم کیے گئے، جن میں خیمے، ٹینٹ، دریاں، کپڑے، غذائی راشن،آٹا،چاول، خوردنی تیل، چینی، چائے پتی، خشک دودھ، صاف پانی اور ادویات تقسیم کی گئیں۔ جبکہ ڈاکٹرز کی ٹیم نے میڈیکل کیمپ میں سینکڑوں متاثرین کا علاج کیا اور ادویات فراہم کیں۔ سینکڑوں خاندانوں کے لیے خوراک اور ادویات الکہف ٹرسٹ (کراچی زون) کے اہل خیر حضرات کے تعاون سے فراہم کیا گیا۔ سیلاب کے اسباب میں اس بات پر تو کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ان قدرتی آفات میں سے ہے جنہیں روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، البتہ اس کے نقصانات کو کم سے کم تک محدود کرنے کے لیے تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اسباب سے آگے مسبب الاسباب کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہے جو ہمارے لیے اجتماعی لمحہ فکریہ ہے۔ قدرتی آفات کے موقعہ پر ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم اجتماعی توبہ و استغفار، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کا احساس، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ ہزاروں خاندان اور لاکھوں افراد ہماری مدد اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اگرچہ امدادی سرگرمیاں جاری ہیں لیکن اصل ضرورت سے بہت کم ہیں اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سلسلہ میں جاں بحق ہونے والے خواتین و حضرات کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام ضروری ہے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اور حادثاتی موت کا شکار ہوئے ہیں اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں ان کے لیے مغفرت اور بلندی درجات کی دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے اور ہمیں اپنی دعاؤں میں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔
سیلاب زدہ بھائیوں کی ہر طرح سے مدد کرنا ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔ ان کی بحالی اور دوبارہ آباد کاری کے منصوبوں میں تعاون کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنی ترجیحات میں ایک عرصہ تک سیلاب زدہ بھائیوں کی آباد کاری اور بحالی کے کاموں کو اولیت دینا ہوگی، مگر اس کے ساتھ ساتھ بلکہ اس سے کہیں زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی قومی کوتاہیوں، اجتماعی گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے اسباب کے حوالے سے اپنے انفرادی او راجتماعی معاملات پر نظر ثانی، توبہ و استغفار کا اہتمام، قرآن وسنت کی طرف واپسی کا راستہ اختیار کریں اور رجوع الی اللہ کا عمومی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں۔مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ان بھائیوں کا دست و بازو بنیں بدحالی کا شکار یہ لوگ اپنے بھائیوں کی طرف سے مدد کے منتظر ہیں۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں