ہم پھنس چکے تھے،سبھی مسافر ہرا ساں اور خود کوبے بس محسوس کر رہے تھے
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:171
مکھیاں اور بھکاری:
چلّاس پہنچ کر ویگن ہمیشہ کی طرح ”پاکستان ہوٹل اینڈ یا سر ریسٹو رنٹ“ کے سامنے روکی گئی۔ کچے احاطے میں گھٹیا سامان کی دکانیں تھیں۔ ہر طرف گند گی پھیلی ہوئی تھی۔بجلی بند تھی اور چِپکو مکھیوں کے دَل کے دَل ہر ساکن چیز پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اندرمکھیوں سے ڈھکی گندی میزوں سے پرے کھُری چارپائیاں بچھی تھیں جن کا بان کثرتِ استعمال اور مکھیوں سے سیاہ نظر آتا تھا ۔ دھوپ سے جھلسے مسافر ان پر ڈھیر ہوگئے، مکھیاں چارپائیوں پر قبضے کے خلاف احتجا جاً تھوڑا سا اڑکر بھنبھنائیں اور پھر مسافروں پر بیٹھ گئیں۔انھیں تو بیٹھنے سے غرض تھی۔ کرسی ہو، چارپائی ہو یا راہگیر ہو۔
پانی کے جگ گلاس بہت گندے تھے اور ان میں بھی مکھیوں کے غول تھے، انھیں جہاں نمی ملتی وہیں چپک جاتی تھیں۔ پینے کےلئے بوتلیں منگوائیں لیکن وہ گرم تھیں کیوں کہ بجلی نہ ہونے کے باعث فریزر بھی غیر معینہ مدت سے بند تھا۔ گلگت سے لیا ہوا کھانا کھایا گیا۔مکھیوں سے تنگ آکر میں باہر نکل آیا اور ایک تھڑے پر بیٹھ کر ڈرائیور کی برامدگی کا انتظار کرنے لگا لیکن مکھیاںیہاں بھی بری طرح لاحق تھیں۔ کچھ مسافر ویگن کے سائے میں بیٹھے ماتھے سے پسینا پونچھ رہے تھے اور کچھ انتظار نمامایوسی میں ہمارے ارد گرد تھڑے پر بیٹھے تھے۔ چلّاس خشک اور گرم علاقہ ہے۔ بھورے ننگے پہاڑ، ریتلی زمین، گرم ہوا کے جھونکوں سے اڑتی مٹی ، خار دار جھاڑیاں اور سوکھی سڑی جڑی بوٹیاں۔
کہیں سے بہت سے بھکاری بچے نکل آئے اور مسافروں کاگھیراؤ کر لیا ”پئیسا دو۔ پئیسا دو۔۔۔۔“وہ مکھیوں سے بھی زیادہ چِپکو تھے۔ ہر دو مصیبتوں سے بچنے کےلئے میں طاہر اور ندیم کے ساتھ ہو ٹل کے عقب میں چلا گیا۔ دور تک بے آباد علاقہ تھا جس میں ہر طرف گندگی اور مومی لفافے بکھرے ہوئے تھے۔ سوکھی خار دار جھاڑیاں اور ان میں گھومتے چھو ٹے چھوٹے بگولے جو لمحہ بھر کو ہوا کی تال پر گھومتے اور پھر بنا سراغ چھو ڑے تحلیل ہو جاتے، پھر بھوتوں کی طرح اچانک کہیں اور اٹھ کر ناچنے لگتے۔شہر یہاں سے کہیں دور تھا۔یہاں سے سامنے ایک ٹیلے پر شہر کا دا خلی دروازہ بلکہ خالی محراب دکھائی دیتی تھی۔ چلاس سے جو راستہ براستہ بابو سر ٹاپ ناران کی طرف جاتا ہے اسے اختیار کرنے کے بارے میں مشورہ ہوا کہ وہ چھوٹا راستہ ہے اور اس طرف سے ہم اپنا ضائع شدہ وقت بھی بچا سکتے ہیں لیکن کسی مسافر نے بتایا کہ وہ سڑک ابھی پوری نہیں بنی تھی اور غیر محفوظ تھی لہٰذا اس کا آپشن ترک کر دیا گیا۔
۔۔۔بڑا کام رفو کا نکلا
ڈرائیور آیا تو اس نے اعلان کیا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہے اسے مرمت کروائے بغیر سفر جاری رکھنا مناسب نہیں۔ویگن قریبی مستری کے پاس لے جائے گئی جس کی ورکشاپ ہوٹل سے ذرا آگے تھی لیکن اس کے پاس پنکچر لگانے کا سامان نہیں تھا۔اسی دوران ڈرائیور اور کنڈکٹر نے ہارن چلانے کی کوشش ِ ناکام کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا کہ گاڑی کی بیٹری ڈیڈ ہے (اس کا مطلب تھا کہ ہارن کےساتھ ساتھ لائٹیں بھی نہیں جلیں گی اور ہمیں پوری رات ایک اندھی اور گونگی ویگن میں سفر کرنا ہوگا)۔ اس کے بعد دونوں گاڑی کے اندر باہر، اوپر نیچے گھس کرمزید تحقیق و تفتیش کرتے رہے پھر کنڈکٹر نے ایک اور (ہارٹ)بریکنگ نیوز جاری کی کہ گاڑی کی ٹینکی بھی لِیک ہے۔ ٹینکی پر کئی ناکام تجربات کے بعد دونوں نے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد فیصلہ کیا کہ سٹپنی لگا کر فورا ً کسی بہتر جگہ پہنچ کر تمام مسائل کا حل نکالا جائے۔ لگا نے کے لیے سٹپنی کھولی گئی ۔۔۔ وہ بھی پنکچر تھی۔۔۔ اب ہم پھنس چکے تھے۔
سبھی مسافر ہرا ساں اور خود کوبے بس محسوس کر رہے تھے۔میرے ہم سفروں نے ایسی گاڑی کے چناؤ پرمل کر دوبارہ چیمے کی شان میں قوالی شروع کردی۔ کنڈکٹر پنکچرٹائر کو لڑھکا کر کہیں لے گیا۔ کچھ دیر بعد وقت گزاری کےلئے مستری کی دکان کا پوچھ کر میں بھی اسی طرف چل پڑا جہاں ٹائر کو مبینہ طور پر پنکچر لگ رہا تھا۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔