انتظار حسین کی یاد میں 

انتظار حسین کی یاد میں 
انتظار حسین کی یاد میں 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کورونا کی وبا سے پہلے جب بھی لاہور میں سر دیوں کا آ غاز ہوتا تو ادبی محفلوں میں نئی طرح کی جان آ جاتی۔ اب کورونا نے جہاں انسانوں کے طرز زندگی کو بدل دیا ہے ایسے میں ادبی محفلوں کے مزاج میں بھی تبدیلی آ گئی ہے۔اللہ بھلا کرے احمد جا وید صاحب کا جنہوں نے ہم جیسے سست شاگردوں کو یہ احساس دلایا کہ دسمبرختم ہونے کو ہے اور یہ کیسے ممکن ہے ادب کی کوئی محفل نہ رکھی جائے۔ادب کا ذوق رکھنے والے استادوں نے ہمیں بھی اپنی محفل میں شرکت کا شرف عطا کیا۔ادبی محفل کا با قاعدہ آ غاز ہونے سے پہلے ہی یہ طے ہوگیا کہ دسمبر کی مناسبت سے انتظار حسین کو یا د کیا جائے۔اس سوال کا جواب دینا تو شاید اردو کے کسی بڑے ادیب کے لئے بھی مشکل ہو کہ انتظار حسین بڑے افسانہ نگا ر تھے یا نا ول نگا ر؟جب انتظار حسین نے لکھنا شروع کیا تو اس وقت  اردو میں روما نیت  اور حقیقت نگا ری(منشی پریم چند اس وقت ادب میں حقیقت نگاری کے بڑے ترجما ن سمجھے جاتے تھے) کی بحث نہ صرف اپنے عروج پر تھی، بلکہ ترقی پسند تحریک کا بھی آغاز ہو چکا تھا۔

سعا دت حسن منٹو بھی تھے تو بیدی اور غلام عباس بھی موجود تھے۔ ان حالا ت میں انتظار حسین نے لکھنے کا الگ اسلوب منتخب کیا۔ خود انتظا ر حسین کہتے تھے کہ جس وقت انہوں نے کہا نیاں لکھنا شروع کیں، اس زمانے میں اردو دنیا میں ٹالسٹائی، دستووسکی،گو رکی، فلا بر، جوا ئس، لارنس، جیسے ناول نگاروں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ انہوں نے الٹی گنگا(ان کے اپنے الفاظ میں) بہا نا شروع کر دی اور کہا کہ ہما رے بڑے نا ول تو اصل میں ”الف لیلہ“ اور”کتھا سرت“ ہیں۔انتظار حسین کے افسانوں میں داستانوں کے استعما ل کی تکنیک سے ان کا ہر قاری اچھی طرح آگاہ ہے۔انتظار حسین نے ہندوستان کی قدیم کہانیوں کا نہ صرف بہت گہرا مطا لعہ کیا بلکہ اس کا اثر کا بھی قبول کیا۔اسلئے اپنے افسانوں اور تحریروں میں ہندی آمیز زبان بھی استعمال کی۔خود انتظار حسین کے اپنے الفاظ میں ہما ری روایت میں سٹائل بیا ن کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ انہوں نے تو صرف تین، چار طریقے ہی اختیا رکئے۔ ابھی بھی ہماری روایت میں کئی طریقے ایسے ہیں  جن کو استعما ل کیا جانا ابھی با قی ہے۔ تاہم  افسانے کے مقابلے میں نا ول چونکہ طویل ہو تا ہے، اس لئے اس میں اتنی گنجا ئش نہیں ہوتی کہ مختلف طرح کے اسلوب اپنائے جا سکیں۔


 ناول”بستی“ لکھنے کا پس منظر یہ ہے کہ جب مشرقی پا کستان میں حالات خراب ہو نا شروع ہو گئے تو انتظار حسین کے مطابق انہیں ایسا محسوس ہو ا جیسے 1947ء والی صورت پیدا ہونے جا رہی ہے۔انتظار حسین کو 1947ء کا زما نہ یا د آیا اور انہوں نے اس پر لکھنا شروع کر دیا۔اس دور کی یا دیں لکھیں۔ تقسیم کے خونی حالات پر اپنے مشا ہدا ت لکھتے رہے۔ اس پر بہت کچھ لکھنے کے بعد ان  کو احساس ہوا کہ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں یہ اصل میں نا ول بن رہا ہے۔اس احساس کے بعد انتظار حسین نے ان یا دوں کو مشرقی پا کستان کے واقعات سے ملا کر لکھنا شروع کر دیا یو ں ”بستی“ جیسا ایک شاہکار نا ول اردو ادب کی زینت بنا۔اگر چہ نا ول کا  بنیا دی مو ضوع ماضی  کے کسی واقعے میں پیوست نہیں، مگر اس کے باوجود ما ضی کی پرستش  اس نا ول میں بھی موجود ہے۔”بستی“ کا ”ذاکر“اپنے والدین کے ساتھ یو پی کے روپ نگر سے ہجرت کر کے آیا ہے۔اور اپنے ساتھ یادوں کا خزینہ اٹھا لا یا تھا اور یہی حال ذاکر کی ما ں کا بھی ہے۔


”آگے سمندر ہے“ کرا چی کے معروض میں لکھا گیا۔کراچی میں بوری بند لا شوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہو چکا تھا اور انتظا ر حسین جیسے حساس ادیب کے لئے یہ کسی بھی طور ممکن نہیں تھا کہ وہ اس پر قلم نہ اٹھا ئیں۔اسی طرح”آخری آدمی“  ”زرد کتا“”شہر افسوس“ ان کے شاہکار افسانے تسلیم کئے جا تے ہیں۔ نقادوں کی جانب سے ان پر ضرورت سے زیا دہ علا متی ہونے کے الزام کے با وجود  یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ ا نتظار کے کئی افسانوں جیسے ”قیوما کی دکان“ ”استاد“ ”خریدو حلوہ بیسن کا“ ”چوک“ ”اجودھیا“ ”پھر آئے گی“”عقیلہ خالہ“ ”رہ گیا شوق منزل مقصود“ اور روپ نگر کی سواریاں“ کو حقیقت نگاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے  ۔
انتظا ر حسین  کے مطا بق کہا نیاں ہر جگہ کی مختلف ہو تی ہیں جب کہا نی کسی نئے علا قے میں جا تی ہے تو اس  علا قے کے مطابق اپنے آپ کو بدل لیتی ہے۔انتظار حسین کا اپنے افسانوں اور ناولوں میں ما ضی کی یا د سے وابستہ ہو نا محض کہا نی لکھنے کیلئے ہی نہیں تھا۔وہ پیچھے مڑ کر پرانے زما نے کے کسی خاص پہلو کو دیکھتے مگر اس خاص پہلو کیلئے نئے زما نے میں گنجا ئش نہ ہو تی۔ انتظار کے ہاں پرانے زما نے میں چیزوں کے رشتے  مضبوط تھے۔ گھر میں املی یا نیم کا پیڑ تھا کہیں کتوبر تھے، کہیں بہرو  پئے تو کہیں پر عطر فروش۔ شہر کی سانسوں میں ایک تہذیب کروٹ لیتی تھی۔جو کہیں نہ کہیں، مذہبی حکا یا ت، مہا بھارت کے کرداروں، الف لیلہ یا پھر مہا تما بدھ کی کہا نیوں سے جا کر مل جا تی تھی۔


انتظار حسین کی شخصیت یادگار زمانوں میں پلی بڑھی تھی۔بڑا اور حساس ذہن رکھنے کے با عث انھوں نے ان یادگار زما نوں کو قلم کے ذریعے محفوظ کر کے امر کر دیا۔اردو کے بہت کم فکشن لکھا ری ہوں گے جن کو بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا ہو۔ان کے با عث اردو  ناول(بستی) کو بھی اس قابل سمجھا گیا کہ اسے عالمی بکر انٹر نیشنل پرائز کے لئے نامزد کیا  جا سکے۔دنیا بھر میں مو جود اردو ادب پڑھنے والے مدتوں اپنے اس محسن کو یا د ر کھیں گے۔

مزید :

رائے -کالم -