معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چوبیسویں قسط

معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چوبیسویں قسط
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چوبیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دیگر تفریحات
مذکورہ بالا کشتی کے علاوہ بھی یہاں دیگرکئی تفریحات اور سہولیات مہیا کی گئی تھیں۔رہائش کے لیے بڑے بڑے ہوٹل تعمیر کیے گئے تھے۔ایک بہت بڑا کیسینو بھی بنا ہوا تھا۔ اسکائی لون نامی ایک بڑا ٹاور تھا۔ جس پر 775فٹ کی بلندی سے نیاگرا فالز کا مشاہدہ کرنے کے لیے ، سردی کے لحاظ سے شیشہ بند اور گرمی کے لحاظ سے کھلی ہوئی، مشاہدہ گاہیں بنی ہوئی تھیں۔ ایک بہت بڑا پارک نیاگرا پارک کے نام سے تھا۔جس میں پھولوں کاایک باغ، پھولوں سے بنی ہوئی گھڑی ، گولف کا میدان، شاپنگ سنٹرز اور ریسٹورنٹ وغیرہ بنے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ کلنٹن ہل نامی جگہ میں بھی بہت سی تفریحی چیزیں موجود تھیں۔ دیگر تفریحات میں ایرو کار یعنی فضا میں موٹے تارپر چلنے والی ٹرالی، وہیل مچھلی کا میوزیم، مختلف قسم کے جھولے اور رائڈز میری لینڈ نامی تفریح گاہ میں تھے۔ایک اور اچھی مگر مہنگی تفریح ہیلی کاپٹر کے ذریعے آبشار کا نظارہ تھی۔ آبشار کو قریب سے دکھانے کا ایک اور ذریعہ بھی تھا۔ جسے Journey Behind The Falls کہتے ہیں۔ اس سفر میں کھائی میں نیچے بنی سرنگوں کے ذریعے لوگو ں کو آبشار کے بالکل قریب لے جایا جاتا۔ جہاں وہ اوپر سے گرتی آبشار کو دیکھ سکتے تھے۔ ڈبل دیکر بسوں میں بٹھاکر پورے علاقے کا چکر دلانے کا بھی انتطام تھا۔ جس میں ایک آدمی باقاعدہ کمنٹری کرکے لوگوں کو تمام اہم جگہوں کی تفصیلات سے آگاہ کرتا جاتا۔ اس کے علاوہ ہر جمعے کی رات آتش بازی کا مظاہرہ کیا جاتاہے۔ امریکا اور کینیڈا کے اہم دنوں کے موقع پر بھی یہ مظاہرہ ہوتا ہے۔

معلوماتی سفرنامہ۔۔۔تئیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان تفریحات کی مزید تفصیل بھی ہے مگر میں اسی پر بس کررہاہوں۔ دراصل مغرب میں سیاحت ایک بڑی صنعت بن چکی ہے۔ چنانچہ یہ لوگ ہر اس جگہ جہاں سیاح آتے ہیں اضافی تفریحات اور ہر طرح کی سہولیات مہیا کردیتے ہیں۔دنیابھر سے لوگ کھنچ کھنچ کرنیاگرا فالز آتے ہیں۔ آنے والے ہماری طرح صرف چند گھنٹوں کے لیے نہیں آتے بلکہ دور دراز ملکوں سے کئی کئی دنوں کے لیے بھی آتے ہیں۔اس لیے یہاں ہر ذہن و مزاج کے لوگوں کے لیے تفریحات مہیا کردی گئی ہیں۔ بچے ، بوڑھے، مرد، عورت اور ’’بالغان ‘‘سب کی تفریح کا انتظام ہے۔ ایک شخص کب تلک آبشار دیکھے گا۔ چنانچہ لوگ ان تمام تفریحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
پاکستان کاامریکا میں اثر و رسوخ
ہم نے خدا کی صناعی کے سامنے غیر اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں پر نگاہ ڈالنا شانِ توحید کے خلاف سمجھا۔ تاہم ہمارے اس استغنا کا ایک اہم سبب ہماری جیب کی تنگی بھی تھی۔ ہمارے گروپ کے اکثر لوگ بیروزگار تھے۔ یہ چیز اچھی معلوم نہیں ہوتی تھی کہ ایک شخص یہ سارے مزے کرے اور باقی لوگ اس کی شکل دیکھیں۔ لیکن خدا کی شانِ کریمی کو ہم پر رحم آیا اور اس نے ہمارے لیے ایک بہت اچھی تفریح کا مفت میں انتظام کردیا۔گھر سے چلتے وقت فہیم نے ہم سے کہا تھا کہ اپنے پاسپورٹ ساتھ ر کھ لیں۔ ہم امریکا میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔ جانے دیا تو مرحبا ورنہ ہمارا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم جب کینیڈین حصے سے فارغ ہوگئے تو سرحد کا رخ کیا۔ ویسے بھی دھوپ کی شدت نے ہمیں نڈھال کردیا تھا جس کے بعد آبشار کا منظر اپنا ابتدائی تاثر کھوچکا تھا۔
دریائے نیاگرا امریکا اور کینیڈا کے در میان حد فاصل کا بھی کام کرتا ہے۔ اس کے اوپر متعدد پل بنے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ایک پل پرسے میں ریل کے ذریعے امریکا گیا تھا۔ آبشار کے پاس جو پل تھا اس کانام رینبو برج (Rainbow Bridge) تھا۔ ہم گاڑی میں بیٹھ کر پل کی طرف روانہ ہوئے۔ پل پر متعدد گیٹ بنے ہوئے تھے جن میں موجودامیگریشن اہلکار جانے والوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کررہے تھے۔ ان میں سے چند ہی اس وقت کھلے ہوئے تھے۔ سرحد عبور کرنے کا دارومدار بڑی حد تک قسمت پر ہوتا ہے۔ امیگریشن افسر بادشاہ ہوتا ہے۔ چاہے تو بغیر چیکنگ کے چھوڑ دے اور چاہے تو بغیر وجہ بتائے داخلے کی اجازت دینے سے انکار کردے۔ ہم دیکھ رہے تھے کہ اگلی گاڑیوں میں سے بعض کو مکمل طور پر چیک کیا جارہا ہے اور بعض کو لوٹایا بھی جارہا ہے۔ ہمیں چونکہ کوئی خوف نہ تھا اس لیے آرام سے بیٹھ کر اپنے نمبر کا انتظار کرتے رہے۔ گیٹ پر پہنچے تو افسر نے سوال کیا :’’سٹیزن شپ؟‘‘ ، ہم نے جواب دیا : ’’پاکستانی‘‘۔ دوسرا سوال کیا : ’’کیوں جارہے ہو ؟‘‘، ہم نے کہا : ’’آبشار دیکھنے‘‘۔ اس نے تیسرا سوال کیے بغیر کہا کہ جاؤ۔ ہم خوشی خوشی آگے بڑھ گئے۔ میں نے اپنے عرب ساتھیوں سے ہنستے ہوئے کہا کہ دیکھا آپ نے پاکستان کا امریکا میں کتنا اثر ورسوخ ہے۔
امریکی نیاگرا فال
یہ بات مجھے معلوم تھی کہ نیاگراآبشار امریکہ اور کینیڈا دونوں جگہ گرتی ہے۔لیکن سنا تھا کہ اصل آبشار کینیڈا کی سمت سے ہی نظر آتی ہے اور دنیامیں شہرہ بھی اسی کا ہے۔ اس لیے امریکی سائڈ پر آتے ہوئے ہم زیادہ پرجوش نہ تھے۔ مگرواپسی کے وقت ہم پانچوں کی ، جو پہلی دفعہ یہاںآئے تھے، متفقہ رائے تھی کہ آبشار کا امریکی حصہ کئی اعتبار سے کینیڈین حصے سے بہتر ہے اور یہاں زیادہ ورائٹی پائی جاتی ہے۔ بلکہ ہم لوگوں کو تو اصل مزہ ہی یہیںآیا۔ تاہم امریکی حصے کی ایک کمی یہ تھی کہ یہاں وہ اکثر اضافی تفریحات نہیں تھیں جو کینیڈین حصے میں موجود تھیں۔ اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ امریکی سائڈ پر اتنے لوگ نہیں آتے۔ اس وقت صرف گیس کا ایک بڑا غبارہ ہوا میں اڑرہا تھا جس کے نیچے لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ یہ ایک رسی کے ذریعے زمین سے بندھا تھا۔ رسی کو ڈھیلا چھوڑا جاتا تو یہ غبارہ بلند ہوجاتا اور لوگ فضا سے آبشار کا نظارہ کرتے۔غبارے کو نیچے اتارنے کے لیے رسی کو کھینچ لیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ہیلی کاپٹر سروس بھی چل رہی تھی۔ سرنگوں سے لوگوں کو برساتی پہناکر آبشار کے بالکل قریب بھی لے جایا جارہا تھا۔ کچھ ہوٹلز بھی تھے۔ہوسکتا ہے ا ور چیزیں بھی ہوں مگر میں انہی کو دیکھ سکا۔
امریکی آبشار کا نقشہ
کینیڈا کی طرف سے جب امریکی آبشار کو دیکھا تھا تو پانی کے دو دھارے نیچے گرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ مگر درحقیقت ایسا نہ تھا بلکہ یہاں سے پانی کئی شاخوں میں بٹ کر نیچے گر رہا تھا۔ لیکن دونوں کناروں کے درمیان فاصلہ کافی زیادہ تھا اس لیے دو ہی دھارے نمایاں طور پر نظر آتے تھے۔ یہاں کنارے کے بالکل قریب ایک بہت بڑا اور وسیع سبزہ زار تھا۔ اس میں موجود رنگ برنگے پھولوں، بلند درختوں اور گھاس کے مخملی فرش نے ماحول کو بہت دلکش بنادیا تھا۔ جبکہ کینیڈین سائڈ پر سبزہ کچھ دور تھا۔ اس طرح کہ کنارے پر لگی ریلنگ کے ساتھ لوگوں کے کھڑے ہونے کے لیے کافی بڑا پکا فرش تھا۔پھر ایک روڈ اور پھر تھوڑا سا سبزہ تھا۔ یہاں پارکنگ بھی مفت میں مل گئی۔ گاڑی کھڑی کرکے ہم پارک میں داخل ہوئے۔ اس میں امریکی فوجیوں کی یادگاریں تعمیر کی گئی تھیں۔ اور بھی مختلف قسم کے خوبصورت اسٹیچو خوبصورتی کی غرض سے لگائے گئے تھے۔ یہ پارک کافی طویل تھا۔ یہ اس جگہ سے شروع ہوتا تھا جہاں سے گھوڑے کی نعل والی بڑی آبشار کا پانی زمین پر گرتا ہے اور رینبو برج تک چلتا چلاگیا ہے۔ یہ فاصلہ دو کلومیٹر سے کم نہیں ہوگا۔ یہاں سے چونکہ وہ پانی بھی گزرتا ہے جو کئی شاخوں کی شکل میں نیچے جارہا ہے اس لیے ان کے اوپر چھوٹے چھوٹے پل بنادیے گئے ہیں۔
امریکی شادی
پارک میں ایک جگہ ایک دولہادلہن بہت سارے لوگوں کے ساتھ گرو پ فوٹو بنواتے ہوئے نظر آئے۔ پہلے میں سمجھا کہ شادی کی کوئی باقاعدہ تقریب ہورہی ہے کیونکہ ہمارے ہاں شادی، گھر اور مسجد کے علاوہ ، ہر جگہ ہوتی ہے۔ مگر خیال آیا کہ یہ لوگ عیسائی ہیں اور ان کے ہاں شادی کی تقریب صرف چرچ میں ہوتی ہے۔ میں نے فہیم سے اس بارے میں دریافت کیا۔وہ کافی سال شکاگو میں قیام کرچکے تھے۔ انہوں نے بتایاکہ یہاں دستور ہے کہ صبح چرچ میں شادی کی تقریب ہوتی ہے۔جس کے بعد دولہا دلہن تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں اور مختلف جگہوں پر گھومتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ ہمارے یہاں تو دولہا دلہن شادی کے بعد حجلۂ عروسی میں جاتے ہیں۔ فہیم نے برجستہ جواب دیا کہ ہمارے دولہا دلہن جس مقصد کے لیے کمرے میں جاتے ہیںیہ لوگ شادی کے تکلف میں پڑنے سے پہلے ہی اس سے فارغ ہوجاتے ہیں۔ اس پر ایک زو ر دار قہقہہ بلند ہوا۔
تاہم ان کے اس طرز عمل کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ یہ لوگ باہر گھوم پھر کر شادی کے انتہائی مہنگے کپڑوں کی پوری قیمت وصول کرلیتے ہیں۔ کیونکہ دولہا دلہن کچھ ایسی چیز ہوتے ہیں کہ ہر شخص انہیں ضرور دیکھتا ہے۔ دولہا دلہن کو تو چھوڑیے ہمارے ہاں تو لوگ دولہا کی سجی ہوئی کار کو بھی گردن گھماگھماکر دیکھتے ہیں۔ کچھ تاسف اور ہمدردی کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ وہ بیچارے ہوتے ہیں جنہوں نے یہ لڈو نگل لیا ہوتا ہے۔ کچھ پر شوق نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ وہ حسرت زدہ ہوتے ہیں جنہوں نے ابھی تک اس لڈو کو نہیں چکھا ہوتا۔بقیہ لوگ اپنی معاشرتی ذمہ داری سمجھ کر اسے دیکھتے ہیں۔
ویسے فہیم کی بات بالکل درست تھی۔ اس معاشرے کا عام رجحان یہی ہے کہ لڑکا اور لڑکی کافی عرصے تک میاں بیوی کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ اگر باہمی تعلقات درست رہتے ہیں تو پھر یہ شادی کے مذہبی بندھن میں بندھتے ہیں۔ شادی اب ایک مذہبی اور کسی درجے میں معاشرتی تکلف ہے وگرنہ قانونی حیثیت تو کامن لا (Common Law) کی صورت میں بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ ہم باتیں کررہے تھے کہ تھوڑی دیر میں دیکھا تو ساری بھیڑ غائب اور دولہا دلہن ایک تیسرے صاحب کے ہمراہ چلے جارہے ہیں۔ میں نے کہا یہ تو تین ہی رہ گئے۔ فہیم نے کہا کہ یہ صاحب چلے جائیں گے تو صرف یہ دونوں بچیں گے۔ اس پر میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ تھوڑا عرصہ گزرے گا تو صرف ایک ایک ہی رہ جائیں گے اور پھر نئے سرے سے تلاش (Hunting) شروع ہوگی۔ یہی مغرب ہے اور یہی اس کا دستورِ حیات۔
نیچے سے آبشار کا نظارہ
امریکی آبشار کینیڈا کی سمت سے اتنی بڑی نہیں لگتی مگر یہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ یہ بھی کافی بڑی ہے۔ اس کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ آبشار کے بالکل برابر میں کھڑے ہوکرایک بہت بڑی دھار کی شکل میں گرتے ہوئے پانی کو دیکھ سکتے ہیں۔ جبکہ کینیڈین سائڈ پر جس جگہ لوگ کھڑ ے ہوتے ہیں وہاں سے پانی اتنی موٹی دھار کی شکل میں نہیں گرتا۔ بلکہ اصل موٹی دھار امریکا کی طرف سے گررہی ہے مگر یہ مقابل سمت میں ہونے کی بنا پر دور ہے اور اس کا وہ تاثر نہیں بن پاتا جویہاں سے محسوس ہورہا تھا۔ دوسرے یہ کہ پانی کا جو بادل بنتا ہے وہ کسی حد تک خود ایک رکاوٹ کا کام کرتا ہے اور سامنے کے منظر کو دھندلادیتا ہے۔جبکہ یہاں پانی کی انتہائی موٹی دھارجو برف کی طرح سفید اورزور دار آواز سے بالکل برابر سے گررہی تھی اس کو دیکھنے کا اپنا لطف تھا۔
ہم ریلنگ کے ساتھ کھڑے اس منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ اتنے میں دیکھا کہ کچھ لوگ آبشار کے نیچے کی طرف کھڑے ہیں۔ دراصل نیچے جو دریا بہہ رہا تھا، اس کے ساتھ کنارے پر کچھ بلند جگہ تھی جس کے ارد گرد ریلنگ لگاکر اسے باقاعدہ نیچے سے آبشار کے نظارے کی ایک جگہ بنادیا گیا تھا۔ وہاں جانے کے لیے سیڑھیاں بھی نظر آرہی تھیں۔ چنانچہ ہم اس طرف لپکے۔ ان سیڑھیوں کا راستہ ایک پل سے آتا تھا۔ یہ پل کیا تھا ایک پلیٹ فارم ساتھا جو دریا کے اوپر کافی آگے تک گیا ہوا تھا۔ اس پر کھڑے ہوکر امریکی اور کینیڈین نیاگرا فالز کا نظارہ بیک وقت ممکن تھا۔ اس پلیٹ فارم پر ایک لفٹ بھی تھی جو نیچے دریا کے پاس لے جاتی تھی۔ اور وہاں سے وہ سیڑھیاں آتی تھیں جنہیں ہم نے اوپر سے دیکھا تھا۔
اس پلیٹ فارم پر جانے کے لیے 50امریکی سینٹ دینے تھے جو ہم نے اپنے پاس موجود کینیڈین کرنسی میں ادا کیے۔ پہلے اوپر سے آبشار کا نظارہ کیا پھر لفٹ میں بیٹھ کر نیچے گئے۔ لفٹ نے ایک ڈیک کے پاس اتارا جہاں سے ، سیزن کے دنوں میں، لوگ کشتیوں پر سوار ہوکر آبشار کے قریب جاتے ہوں گے مگر اس وقت یہ جگہ خالی پڑی تھی۔ ہم سیڑھیوں کی طرف بڑھے اور ان پر چڑھ کر گرتی ہوئی آبشار کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ سر اٹھاکر اوپر دیکھا تو پانی ایک بہت موٹی دھار کی شکل میں گرتا نظر آیا۔ ہم ایسے زاویے پر تھے کہ پانی کی بوچھاڑ سے محفوظ تھے البتہ کبھی کبھار ہوا کے تیز جھونکے کے ساتھ ہم پر پھوار برسنے لگتی۔ ابھی تک ہم نے اوپر سے ہی آبشار دیکھی تھی۔ مگر اب اندازہ ہوا کہ اس طرح نیچے اور اتنے قریب سے جھاگ اڑاتے شور مچاتے پانی کو دیکھنے کا اپنا مزہ تھا۔ بالخصوص کنارے سے جو پانی گررہا تھا وہ بالکل برف کی طرح سفید تھا اور موٹائی میں بھی بہت زیادہ تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر کوئی شخص اس کے نیچے آجائے تو اس کا قیمہ بننے میں ذرا دیر بھی نہیں لگے گی۔ اس تصور سے ہی مجھے جھرجھری آگئی۔
ہم دیر تک وہاں کھڑے مفت کی اس Journey Behind The Falls کو دیکھتے رہے۔ عبدالطیف کے بھائی کے پاس وڈیو کیمرہ تھا جس سے وہ اس سارے منظر کی مووی بنارہا تھا۔ اسی نے ہم سے کہا کہ آگے کی طرف اس آبشار کے اور بھی اچھے مناظر ہیں اس لیے واپس چلتے ہیں۔ لہٰذا ہم واپس اوپر آگئے۔ اس پلیٹ فارم کا مرکزی حصہ مزیدچھ سات منزل بلند تھا۔ میں او ر فہیم وہاں بھی چلے گئے اور بہت بلندی سے ساری آبشار کا نظارہ کیا جو بہت دلکش لگا۔ یہ ہمارے لیے فری کا اسکائی لون ٹاور تھا۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔)