ہماری پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام کیوں ہیں؟            (آخری قسط)

ہماری پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام کیوں ہیں؟            (آخری قسط)
ہماری پرائس کنٹرول کمیٹیاں ناکام کیوں ہیں؟            (آخری قسط)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 موجودہ سسٹم کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ چند انتظامی افسروں کو چھوڑ کر دیگرمحکموں کے مجسٹریٹس صاحبان کو پولیس کا ایک کانسٹیبل تک بھی مہیا نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں بعض اوقات گراں فروش ان کے ساتھ مزاحمت بھی کرتے ہیں، جرمانہ دینے سے انکار بھی کرتے ہیں، گرفتار شدہ ملزمان کو چھڑوا بھی لیتے ہیں اگر وہ کسی ملزم کے خلاف استغاثہ برائے اندراج مقدمہ متعلقہ تھانہ میں جمع کرواتے ہیں تو اس پر بھی ایس ایچ او صاحبان اپنی مرضی سے کاروائی کرتے ہیں، ان صاحبان کو بعض اوقات جرمانہ وصول کرنے اور دیا گیا ٹارگٹ پورا کرنے کے لئے ملزمان کے ترلے بھی کرنا پڑتے ہیں۔اب بندہ ہوم ڈیپارٹمنٹ والوں سے یہ پوچھے کہ آپ جن افسروں کو اندھا دھند مجسٹریٹ کے اختیار بانٹ رہے ہوتے ہیں کبھی سوچا ہے کہ انکی کیپیسٹی کیا ہے؟ان کے پاس قانون کا کیا علم ہے؟انھیں پولیس فورس کون دے گا؟ جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آج کل اضلاع کے ڈی پی او صاحبان تو اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ وہ ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو بھی پولیس ملازمین مہیا کر کے اپنی دانست میں بہت بڑا احسان کر رہے ہوتے ہیں،رہے باقی مجسٹریٹس صاحبان، انھیں تو ایس ایچ اوز صاحبان گھاس ہی نہیں ڈالتے۔

 اب ہم ان مسائل کے کے حل کے لئے کچھ تجاویز دیتے ہیں، جہاں تک منصوبہ بندی کے فقدان کا تعلق ہے، حکومت کو چاہئے کہ اس سلسلے میں محکمہ زراعت، محکمہ خوراک اور محکمہ ریونیو کی مشترکہ ٹیمیں تشکیل دے جو حکومت وقت کو اشیائے ضروریہ کی طلب و رسد کے صحیح اعدادو شمار مہیا کریں۔ان اعداد و شمار کی بنیاد پر وفاقی حکومت ان اشیاء کی برآمدو درآمد کا فیصلہ کرے۔تاکہ ملک میں اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا نہ ہو سکے۔ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ اشیائے ضروریہ کے وہ نرخ مقرر کریں جن پر عمل درآمد ممکن ہو اور وہ تاجران کو بھی قابل ِ قبول بھی ہوں۔ حکومت انجمن تاجران کے انتخابات کے حوالے سے کوئی موثر قانون سازی کرے۔صرف رجسٹرڈ انجمن ہائے تاجران کے منتخب نمائندوں کو ہی پرائس کنٹرول کمیٹیوں میں شامل کیا جائے، اس طرح تاجران کے حقیقی نمائندے کمیٹی کا حصہ ہوں گے تو وہ ذمہ داری کا مظاہرہ بھی کریں گے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ممد و معاون بھی ثابت ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ صاحبان کو اختیارات تفویض کرنے میں احتیاط برتی جائے۔ صرف ان افسروں کو یہ اختیار دیا جائے جو اس کی اہلیت بھی رکھتے ہوں اور تربیت یافتہ بھی ہوں۔تاریخ گواہ ہے کہ 2001ء سے قبل کے نظام میں گرا ں فروشی کی شکایات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مجسٹریٹ صاحبان جب اپنے دفاتر سے باہر نکلتے تھے تو علاقہ میں تھر تھلی مچ جاتی تھی اور اس ریڈ کا اثر مہینوں تک رہتا تھا اس کی یہ وجہ تھی کہ وہ مجسٹریٹ علاقہ مجسٹریٹ بھی ہوا کرتے تھے۔ وہ باہر نکلنے سے پہلے وائرلیس پر پولیس کنٹرول کو پیغام دے کر پولیس کوموقع پر طلب کر لیا کرتے تھے۔ پولیس کی موجودگی میں ان کی ریڈ موثر اور کامیاب ہوتی تھی۔ اب کا مجسٹریٹ تو ایسا ہے جیسے ایک نہتا سپاہی ہو اور اس کا مقابلہ مسلح ا فوج سے ہو، اس لئے میں اپنے سابقہ تجربہ کی بنیاد پر بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ موجودہ نظام کی موجودگی میں حکومت جتنے چاہے جتنے مرضی مجسٹریٹس مقرر کر دے اورجتنی چاہے سخت قانون سازی کر لے، گراں فروشی کا جن قابو میں نہیں آ سکے گا۔

قصہ مختصر!اگر حکومت واقعی عوام کومقررہ نرخوں پر اشیائے خوردونوش مہیا کرنے میں مخلص ہے تو اسے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ کے اختیارات کی تقسیم کو محدود کرنا ہو گا اور صرف تربیت یافتہ اور قانون کو سمجھنے والے افسروں کو ہی یہ اختیارات سونپنے ہوں گے،جن میں صرف اور صرف ڈپٹی کمشنرز، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز، اسسٹنٹ کمشنرز، اور تحصیلدار شامل ہوں اور انہیں پولیس کے وائرلیس نیٹ ورک کے ساتھ منسلک کر نا ہو گااگر پولیس کو ایسا کرنے پر کوئی اعترا ض ہو، جو یقینا ہو گا،تو ان کا چینل نمبر پولیس سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ جس مجسٹریٹ کے علاقہ میں اشیائے خورد و نوش مہنگی فروخت ہوں اسے اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ جیسے آج کل پتنگ بازی پر متعلقہ ایس ایچ او کوذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ جرمانہ کی وصولی کو کارکردگی کا معیارہر گز نہ بنایا جائے،بلکہ اشیا، کا مقررہ نرخوں پر فروخت ہونے کو اس کا معیار بنایا جائے۔مجسٹریٹ کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے یہ کام خفیہ خریداری کے ذریعے سر انجام دیا جا سکتا ہے۔ مجسٹریٹس کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ہر تحصیل میں ایک ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر تعینات کیا جائے۔ نئے بھرتی ہو کر آنے والے پی ایم ایس یا پی اے ایس افسران کو ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر تعینا ت کیا جائے اور ایک مقررہ مدت کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد ہی انہیں اسسٹنٹ کمشنر مقرر کیا جائے۔ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر کا گریڈ17،اسسٹنٹ کمشنر کا 18، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا 19، ڈپٹی کمشنر کا 20 اور کمشنر کا 21 کر دیا جائے اور کسی بھی جونیئر اور من پسند افسر کو سینئر پوسٹ پر تعینات نہ کیا جائے،تو معاملات میں بہتری کے قوی امکانات ہیں۔(ختم شد)

مزید :

رائے -کالم -