امن و امان کی صورتحال، خرابی کہاں ہے؟

 امن و امان کی صورتحال، خرابی کہاں ہے؟
 امن و امان کی صورتحال، خرابی کہاں ہے؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


خیرو شر کی قوتوں کا ٹکراؤازل سے جاری ہے۔ اس ٹکراؤ میں کبھی خیر کا پلڑا بھاری ہوتا ہے اور کبھی شر کا۔ بد قسمتی سے آج کل پاکستا ن میں شر کا پلڑاخیرکی نسبت بھاری ہے اور خاصا بھاری ہے اس شر میں امن و امان کا مسئلہ سرِفہرست ہے۔کسی بھی ملک میں امن و امان کی عمارت چار بنیادی ستونوں پر قائم ہوتی ہے قانون اور قانون دینے والے لوگ یا ادارے یعنی پارلیمنٹ،،قانون کی حکمرانی قائم کرنے والے ادارے یعنی ریاست، پولیس وغیرہ،قانون شکنوں کی جزا و سزا کرنے والے ادارے،یعنی عدالتیں اب کھلی بات ہے کہ جس قدر یہ چاروں ستون مضبوط اور مستحکم ہوں گے اتنی ہی امن و امان کی صورت حال اچھی ہوگی اور جس قدر یہ ادارے کمزور ہوں گے امن وامان کی صورت حال اتنی خراب ہو گی۔ اس تناظر میں جب ہم پاکستان پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ افسوس ناک صورت حال سامنے آتی ہے کہ پاکستان کے اندر یہ چاروں ستون انتہائی کمزور ہو چکے ہیں اور امن و امان کی بھاری اور بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھالادینے کے قابل نہیں ہیں، جہاں تک پہلے ستون، قانون اور قانون دینے والوں کا تعلق ہے، قانون تو موجود ہے، مگر روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے بے شمار معاملات ایسے ہیں، جہاں معاشرے کے کسی فرد کو ذہنی، جسمانی یا مالی نقصان پہنچتا ہے تو قانون میں اس کا کوئی مداوا نہیں، موجودہ حالات میں ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں اس سے پہلے ستون کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے پھر نتیجہ کیا نکلتا ہے افراد خود ہی اپنا حساب کتا ب چکانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور یوں ایک چھوٹی شکایت، زیادتی یا جرم اس سے کئی گنا بڑے یا زیادہ جرائم کو جنم دینے کا باعث بن جاتی ہے۔

دوسری طرف قانون دینے والے جو پارلیمنٹ کے مختلف ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور جن سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ملک کے فرسودہ اور ناقص قوانین کی اصلاح کریں گے یا اس کی جگہ نیا قانون لائیں گے، ان کی غالب اکثریت اس کا شعور اور اہلیت ہی نہیں رکھتی اور اگر رکھتے بھی ہوں تو وہ اصلاح چاہتے ہی نہیں کیونکہ قانون جتنا واضح، جامع اور سخت ہوگا انکی تھانے کچہری کے معاملات میں مداخلت کے مواقع کم ہوجائیں گے۔ عوام کا ان پر انحصار کم ہوگا جو کہ انہیں کسی طرح قبول نہیں، کیونکہ ان کی سیاست کی بنیاد ہی تھا نے کچہری کے مسائل ہیں اور انہی مسائل کے ستائے لوگ ان سے رجوع کرتے ہیں او ر انہیں اپنی سیاست چمکانے اور لیڈری کا موقع ملتا ہے۔ جہاں تک دوسرے ستون کا تعلق ہے، جس نے قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہوتی ہے اس کا حال بھی پہلے والے ستون سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ریاست اور حکومت کے ایوانوں کو چلانے والے منتخب اور غیر منتخب نمائندے قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ہیں۔ امن عامہ کا بھاری بوجھ اٹھانے والا سب سے اہم ستون، قانون نافذکرنے والے ادارے، یعنی پولیس وغیرہ، سب سے زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔ سفارشی بھرتیوں اورتعیناتیوں، کمزور ٹریننگ، کمزورکمانڈ اینڈ کنٹرول، ناموافق ماحول،مراعات اور سہولیات، ناقابل برداشت سیاسی اور سماجی دباؤ نے اس اہم ترین ستون کو کھوکھلا کر دیا ہے۔آخر علاقے کا ایس ایچ او، ڈی ایس پی، ایس پی، ڈی آئی جی، ڈپٹی کمشنر، کمشنر وغیرہ کسی وزیر، مشیر، ایم این اے یا ایم پی اے وغیرہ کی مرضی کا کیوں لگے؟ اگر لگے گا تو وہ اسی کا وفادار ہو گا نہ کہ اپنے محکمے اور محکمے کے سربراہ کا۔ اس صورت حال میں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں میں چند آفیسرز ایسے بھی موجود ہیں جواپنے فرائض منصبی کوآئین اور ملک کی طرف سے ایک امانت اور فرض کے طور پر لینے اور نبھانے کا جذبہ اور حوصلہ رکھتے ہیں،لیکن اکثر ایسے آفیسرز بھی حالات و واقعات کے جبر کے سامنے بہت دیر تک کھڑے نہیں رہ پاتے،چوتھے ستون یعنی عدلیہ کی صورت حال گوپہلے تین ستونوں سے قدرے بہتر ہے، خصوصاًاعلیٰ عدلیہ کی، تاہم چھوٹی عدالتیں کم و بیش اسی طرح کی تمام خرابیوں کی شکار ہیں جس طرح کہ اوّل الذکر تین ادارے۔

.اعلیٰ عدلیہ نے ایک اعصاب شکن جھٹکے اور پھر غیر معمولی عزم اور جدوجہد کو بروئے کار لاکر اپنے آپ کو سنبھال لیا ہے اور ریاستی اداروں اور ان اداروں کے بدعنوان عناصر پر گرفت کرنے کی روایات قائم کرنا شروع کر دی ہیں۔امن و امان سے متعلق اداروں کا بوجوہ اپنی اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنا آج کی بدامنی کی بنیادی وجہ ہے او ر آج بھی اگر صورت حال میں بہتری مقصود ہے تو یہ لازم ہے کہ یہ تمام ادارے اپنی اپنی استعداد، خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیں اور انہیں بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کوئی فورس، ادارہ یا دباؤایسا موجود ہو جو ان سب کو راہِ راست پر رکھے، جیسے آجکل عدلیہ، میڈیا اور اہل دانش یہ فرض نبھا رہے ہیں۔اگر بات کی جائے پولیس کی صوبہ بھر میں کچھ ایسے بھی پولیس آفیسرز ہیں جو خود کو تو بڑا تمن خان سمجھتے ہیں لیکن ذمہ داریوں اور پیشہ وارانہ مہارت کے حوالے سے ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن اور غیر معیاری ہے نہ وہ خود کسی ظرف کے مالک ہیں کہ اپنے کام یاکردار کو اس قابل بنا لیں کہ ادارے کی ساکھ متاثر نہ ہو ایسے افسروں کو صرف ایک ہی کام ہے کہ وہ خود بھی اور ان کے ماتحت بھی لوٹ مار میں ملوث ہیں اگر ادارے کاسربراہ ڈاکٹر عثمان انور ایک سپاہی سے ملنے عام آدمی کی بات سننے میں اپنی توہین نہیں سمجھتا تو یہ آفیسرز آئی جی پولیس پنجاب سے کیا عہدے میں بڑے یا اتنے زیادہ قابل ہیں کہ ان کے بغیر کام نہیں چلتا اگر لاہور پولیس کے افسران کی بات کی جائے تو بیشتر ڈویژنل ایس پی صاحبان تکبر اور غرور میں ڈوبے ہوئے ہیں جنہیں آئی جی اور لاہور پولیس کے سربراہ کی عذت کا بالکل خیال نہیں ہے وہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار اور پراپرٹی کے کاروبار میں ملوث ہیں۔جس فورس کا سربراہ کمپلیکس سے آزاد، صاف گو، راست باز، منافقتوں سے کوسوں دور ایک ہمدرد اور ماتحت پرور جو اپنے جونیئرز کی عزت آبرو کا ہمیشہ خیال رکھے، جونیئرز کو سمجھانا ہو یاکسی سے بات کرنا ہمیشہ اچھے الفاظ کا چناؤ کرے اور پہلی فرصت میں یاد کرنے والوں کے ساتھ رابطے میں آ ئے جس نے اپنے دروازے ماتحت عملہ سمیت سب کے لئے عملی طور پر کھول رکھے ہیں اگر یہ افسران بھی ادارے یا آئی جی پولیس سے مخلص یا ان میں رتی بھر بھی خوف خدا ہے تو انہیں اپنے معاملات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

مزید :

رائے -کالم -