پردیسیوں کی زندگی
پردسیوں کی بھی کیا زندگی ہے۔۔۔جواپنوں کی خاطرسالوں پردیس میں رہتے ہیں اوربڑھاپے کی دستک دیتےہی گزری جوانی کی یادیں بھی محو ہوجاتی ہیں۔۔۔بہن بھائیوں کےاچھے مستقبل۔۔۔بچوں کی بہترین پرورش اورماں باپ کےارمان پورےکرتے کرتے کتنے بھائی، بیٹےاور باپ اپنی جوانی پردیس کےنام کرجاتےہیں۔۔۔۔۔بعض افراد توایسے بھی ہیں جودیارغیرمیں ہی دارفانی سےکوچ کرجاتے ہیں اور وہیں منوں مٹی تلےدبا دیے جاتے ہیں جنکی میتیں بھی اپنے وطن کی مٹی میں بسنےسے رہ جاتی ہیں۔۔۔ایسےہی کئی افراد اور خاندانوں کے قصے ،کہانیاں ہم برسوں سے دیکھ اورسن چکے ہیں جنہیں یہ تو خبر تھی کہ انکا پردیس میں رہنے والا بیٹا، بھائی، باپ یا شوہرانتقال کر گیا لیکن ان کی میت آ ئے گی بھی یا نہیں یہ معلوم نہیں۔۔۔۔ہمارے ارگرد ایسی درجنوں اور سینکڑوں کہانیاں ہیں جن پرکتابیں بھی لکھی جائیں تو کہیں اوراق کم پڑھ جائیں یا پھر قلم کی سیاہی ختم ہوجائے لیکن دیار غیر میں اس پر گزرے سخت حالات اور غربت کے ہاتھوں مجبور ماں باپ،بہن بھائی یا بیوی بچوں پر گزرے جدائی کے دن رات کے قصے،کہانیاں ختم نہ ہو پائیں۔۔۔
سب رشتے ناطے،غمی خوشی اور خاندان کو چھوڑ کر رزق کی تلاش میں پردیس آنے والوں پرعام طور پر گزرتے دن رات،مہینے اور سال ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔سال کیسے گزرا،کیا کھویا اور کیا پایا۔۔۔۔انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔۔۔۔انہیں غرض ہے تو صرف پیچھے رہ جانے وا لے کنبے کی۔۔۔ جنہیں ایک مکمل زندگی دینے کی تگ ودو میں وہ اپنی زندگی کے قیمتی سال اور مہینے بلکہ یوں کہیں کہ اپنی پوری زندگی ہی پردیس کے نام کر دیتے ہیں۔۔۔لیکن کبھی اف تک نہیں کرتے۔۔۔مزدوری کرو اور وقت لگاؤ۔۔۔دن ہو کہ رات بس کام کرتے جاو اور کماتے جاؤ تاکہ اپنوں کی زندگی سنوار سکے۔۔۔
میں جب بھی دیار غیر میں بڑی بڑی عمارتوں میں تعمیراتی کام کے دوران سخت گرمی میں پسینے سے شرابور مزدوروں کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ ایک ایسا شخص جو اپنے خاندان اور بچوں کے روشن مستقبل کیلئے اپنی ساری زندگی پردیس کے نام کردیتا ہے۔۔۔ کیا ان کے بچے بھی بڑھاپے میں اپنے والد کیلئے ایسی قربانی دے سکیں گے یا نہیں ؟؟؟
میں آپ کو ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت سے آشنا کرتی جاوں ۔۔۔کہ ہمارے ہاں درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے بیشتر گھروں میں کمانے والا ایک ہی شخص۔۔۔با پ ،بڑا بیٹا یا پھر بڑا بھائی ہی ہوتا ہے جو ازل سے سب کی خواہشات پوری کرتے کرتے اپنے خواہشات کو دفن کر جاتا ہے جہاں اس کے علاوہ کسی اور کو جھانکنے کی نہ توضرورت ہوتی ہے اورنہ ہی کوئی ضروری سمجھتا ہے۔۔۔
دوسرا یہ کہ ہمارے ہاں بیرون ملک مزدوری کی خاطر جانے والوں کا شمار امیروں میں ہی کیا جاتا ہے۔۔۔اورہمیشہ یہی کہا اور سمجھا جاتا ہے کہ فلاں کا بھائی یا بیٹا بیرون ملک سے ڈھیروں کما کر لایا ہوگا۔۔۔لیکن وہ نادار اس حقیقت سے آشنا ہی نہیں کہ دیار غیر میں تن تنہا محنت مزدوری سے پیسے کمانا کس قدرمشقت کا کام ہے؟؟؟
سعودی عرب ہو یا قطر،عمان ہو یا دبئی جب بھی کوئی اپنی اور اپنے اہل وعیال کی بہتر زندگی کی کنجی بیرونی ممالک کو سمجھتے ہیں تو وہ پاسپورٹ ،ٹکٹ اور بیگ میں کپڑوں کیساتھ ساتھ ڈھیروں خواب آنکھوں میں سجھائے بیرون ملک پرواز کر جاتے ہیں اور بلکل اسی طرح بیرونی ملک سےجب کوئی پاکستانی مزدور سفید کپڑے اور چمکدار جوتے پہن کر،بال سنوار کر،خوشبولگا کر اپنے آبائی وطن لوٹتے ہیں تو انکی ظاہری چمک دمک دیکھ کرسب یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی نسبت خلیجی ممالک میں مزدور زیادہ اجرت کیساتھ ساتھ خوشحال زندگی بھی گزار رہے ہیں لیکن ان پر یہ حقیقت عیاں ہی نہیں کہ اپنوں کے بغیر پردیس میں زندگی گزارنا کس قدر مشقت آمیز ہے۔۔۔بلکہ میں تو یہی کہوں گی کہ ایسی مشقت آمیز زندگی سے واقفیت تو صرف اسی عاجز کو ہی ہوگی جواس سے دوچار ہے۔۔۔
متحدہ عرب امارت میں کام کرنے والے اکثریتی پاکستانیوں کا تعلق مزدور طبقے سے ہے۔۔۔ جنہوں نےخود تو ڈھیر ساری محرومیوں کو گلے لگا کر یہاں کا رخ کرلیا تاکہ اپنےاہل وعیال کوشاندار زندگی اور بہتر مستقبل فراہم کرسکیں۔
انہی مزدوروں کا جب ائیرپورٹ سے نکلتے ہی آسمان سے باتیں کرتی خوبصورت چمکدارعمارتوں ،صاف ستھرے ماحول،سڑکوں پرمہذب اندازمیں گزرتی گاڑیوں،لوگوں کا زیبرا کراسنگ اورلال بتی جلتے ہی سڑک پار کرنے اورہرمقام پرلگے کیمروں کیساتھ ساتھ سخت گرمی سے واسطہ پڑتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ بھلے یہاں سورج کی تپش قہرڈھانے والی ہے لیکن یہی وہ سرزمین ہے جہاں سےا نکے کنبے کے دن رات پھرنے والےہیں۔۔۔
پاکستان کی نسبت متحدہ عرب امارات میں بھلے مزدور کی اجرت کافی بہترہے لیکن قہرڈھانے والی گرمی میں ورکشاپ ، دکانوں، زیر تعمیر عمارات اور ہوٹلوں سمیت مختلف مقامات پر کام کرنے والوں کو دیکھتی ہوں تودل ڈوب سا جاتا ہے اورذہن میں نہ ختم ہونے والے سوالات جنم لیتے ہیں۔۔۔
یہی پردیسی مزدور جب تھک ہار کر اپنے اپنے مقامات پر پہنچتے ہیں تو ایک ہی چھت تلے جہاں انکی ذاتیات کسک جاتی ہے تو وہی سے دنیا بھرکی ثقافتوں سے آشنائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔۔۔
روشنیوں اور کبھی نہ سونے والے شہر دبئی میں مزدور کی مزدوری کافی سخت ہوتی ہے جس کا اندازہ اگر ہم سب لگا لیں تو دیار غیر میں ہماری زندگی سنوارنے کی غرض سےآباد اپنوں کے کمائے ہوئے پیسوں سے ایک نوالہ بھی حلق میں نہ اترے۔۔۔
لب لباب یہ کہ جتنا ہوسکے اپنے پیاروں کو خود سے دور نہ کیجئے.. یہ جو پیسے ویزوں ،ٹکٹوں پر خرچے کیے جاتے ہیں اگر انہی پیسوں سے سے اپنے گھر، محلے یا گلی کے نکڑ پہ کوئی چھوٹی سی دکان کھول دیں یا اپنے ہی ملک میں بڑے شہر جاکر کسی دوسرے دوست یا رشتہ دار کے ساتھ شراکت کر کے کاروبار شروع کیا جائے صد ہا بہتر رہے گا۔۔۔کم خرچ بالانشین کے مصداق... بیشک کم کماؤ مگر اپنوں کے پاس رہ کر۔۔۔اپنوں کے درد وغم میں شریک ہوکر۔۔۔عید کی خوشیاں ایک ساتھ منانے اور اتفاق و اتحاد اور سلیقے سےرہنے کا موقع تو نصیب ہوگا۔۔۔.
یونان میں پیش آنے والے حالیہ واقع کو مد نظر رکھ کر کبھی اپنے پیاروں کو بے روزگاری کا طعنہ مت دیجئے۔۔۔ان کو کسی بھی طرح سے پیسے کمانے کے چکر میں پھنسا کر ہرجائز و ناجائز طریقے کواپنا نے پرمجبورنہ کیجیے ... لاکھوں روپوں کے عوض موت خریدنے سے بہتر ہے کہ اپنے لئے زیست کا سامان مہیا کیا جائے اور حلال طریقے سے کمانے کا درس دیا جائے۔۔۔بہتر اور خوشحال زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنوں کے آس پاس رہ کر جو ملے اس پر شکر ادا کیا جائے ۔۔۔.
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔