اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 143
سلطان غیاث الدین خلجیؒ نے حضرت خواجہ حسین ناگوریؒ کو کئی مرتبہ بلایا لیکن آپ تشریف نہیں لے گئے۔ سلطان غیاث الدین خلجی کے پاس سرور عالم حضرت محمد مصطفی ﷺ کا موئے مبارک کہیں سے آیا۔ سلطان نے آپ کو خبر کرائی۔ آپ منڈو تشریف لے لیے اور موئے مبارک کی زیارت سے مشرف ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ کے دیکھتے ہی موئے مبارک آپ کے ہاتھ میں آگیا۔
٭٭٭
ایک مرتبہ حضرت سلیم چشتیؒ اپنے حضرہ سے نماز کے واسطے مسجد جارہے تھے کہ ایک فقیر کو سوتے ہوئے دیکھا
آپ نے اسے جگا کر فرمایا ”فقیروں کو کسی سے لڑنا نہیں چاہیے۔“
وہ فقیر یہ سن کر شرمندہ ہوا اور اقرار کیا کہ واقعی وہ خواب میں لڑ رہا تھا۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 142 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت عون بن عبداللہؒ کا غلام جب بھی نافرمانی کرتا تو آپ ہمیشہ اسے یہی کہتے ”تو نے بھی اپنے آقا کی یعنی میری عادت اختیار کرلی ہے کہ جس طرح مَیں اپنے مولا کا گناہ گار ہوں، تو بھی مجھ سے ایسا ہی کرتا ہے۔
٭٭٭
ایک شخص نے عبداللہ بن مبارکؒ سے کہا کہ میرا ہمسایہ میرے غلام کی شکایت کیا کرتا ہے۔ اب اگر بلا وجہ غلام کو پیٹوں تو گنہگار ہوں گا اور چپ رہوں تو ہمسائے کی تکلیف کا موجب بنوں۔ آخر کروں تو کیا کروں؟“
آپ نے فرمایا ”تھوڑا انتظار کرو تاآنکہ غلام سے کوئی ایسی حماقت سرزد ہوجائے۔ جو قابل سزا ہو اور پھر سز ادینے میں تم صبر کرو، تاکہ ہمسایہ پھر اس کی شکایت کرے۔ تب اسے سزا دے لینا اور اس طرح دونوں کے حقوق کا فرض ادا ہوجائے گا۔“
٭٭٭
شیخ کبیرؒ جن کا نام جوہر بھی ہے۔ کسی زمانے میں غلام تھے۔ جب آزاد ہوئے تو بازاروں میں خرید و فروخت کا دھندا شروع کردیا اور فقراءکی مجلسوں میں آتے جاتے تھے او ران سے اعتقاد رکھتے تھے۔ وہ اَن پڑھ تھے۔
جب شیخ کبیرؒ حضرت سعد حدادؒ کی وفات کے وقت اُن کے قریب پہنچے تو آپ نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کے بعد شیخ کون ہوگے؟“
حضرت سعد حدادؒ نے فرمایا ”میری موت کے تیسرے دن جس کے سر پر سبز پرندہ گرے گا وہی شیخ ہوگا۔“
اس کے بعد حضرت سعد حداد وفات پاگئے۔ تیسرے دن تمام فقراءعبادت و ذکر سے فارغ ہوکر بیٹھ گئے کہ دیکھیں شیخ کے فرمانے کے مطابق قدرت کی طرف سے کیا ظہور میں آتا ہے۔ فقراءاسی انتظار اور تمنا میں تھے کہ ایک سبز پرندہ شیخ کبیرؒ کے سر پر آکر گرا۔ حالانکہ انہیں اپنی ذات کے بارے میں ایسا کوئی خیال نہیں تھا کہ وہ شیخ بنیں گے۔
فقراءیہ دیکھ کر آپ کی طرف دوڑے تاکہ انہیں سجادہ نشین کریں اور شیخ بنائیں۔ آپ روتے ہوئے کہنے لگے
”میں شیخ بننے کے قابل نہیں ہوں۔ مَیں ایک بازاری آدمی ہوں او راَن پڑھ ہوں، فقراءکے طور طریقوں سے بے گانہ ہوں۔ میں بازاروں میں لین دین کا دھند اکرتا ہوں۔ اس کے سوا مجھے کچھ نہیں آتا۔“
انہوں نے کہا ”یہ حکم آسمانی ہے جو نازل ہوا ہے۔ حق تعالیٰ تیری تعلیم میں معاونت اور سرپرستی کریں گے۔ وہی ذات پاک بزرگوں کی سرپرست ہے۔“
اس پر انہوں نے فرمایا ”تھوڑی دیر کے لیے مجھے چھوڑ دو تاکہ اپنے مکان پر جاکر لوگوں کے حق سے بری ہو آﺅں۔ انہوں نے چھوڑ دیا۔اس کے بعد آپ نے اپنے مکان پر جاکر جملہ حق داروں کا حق ادا کیا۔ پھر بازار چھوڑ کر گوشہ نشین ہوگئے اور ان کے پاس فقراءبھی آگئے۔ حتیٰ کہ اپنے نام کے مثل جوہر ہی ہوگئے۔ آپ کا مدفن عدن میں ہے۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 144 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں