اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 144
ایک دن حضرت شیخ جلال الدین محمد کبیر الاولیاؒ دریا کے کنارے تشریف لے گئے۔ وہاں ایک جوگی آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔
آپ کے وہاں پہنچنے پر جوگی نے آنکھیں کھولیں اور آپ کو سنگ پارس دیا۔ آپ نے اس پتھر کو دریا میں پھینک دیا۔ چوگی خفا ہوا۔
آپ نے جوگی سے فرمایا ”دریا میں جاکر اپنا پتھر لے آئے لیکن اس کے علاوہ او رکوئی پتھر لے۔“ جب جوگی دریا میں گیا تو اس نے وہاں ہزاروں اس قسم کے پتھر پائے۔ اس نے اپنے پتھر کے علاوہ ایک اور پتھر اٹھایا اور باہر چلا آیا۔
آپ نے اس سے فرمایا کہ وہ دوسرا پتھر کیوں چھپا کر لایا۔ جوگی نے یہ سنا تو اس نے دونوں پتھر نکال کر آپ کے سامنے رکھ دئیے پھر تائب ہوا اور آپ کا مرید ہوگیا۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 143 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک سال ماہ رمضان میں حضرت شیخ جلال الدین بخاریؒ نے اُچ کی جامع مسجد میں اعتکاف فرمایا۔ ایک دن اُچ کا حاکم جس کا نام سومرہ تھا، جامع مسجد میں آیا۔ اس وقت آپ کے پاس بہت سے لوگ جمع تھے۔ حاکم نے اس سب کو جامع مسجد سے باہر نکال دیا۔ آپ کو یہ بات ناگوار گزری۔ آپ نے سومرہ سے فرمایا ”اے سومرہ!کیا تو دیوانہ ہوگیا ہے کہ درویشوں کو تنگ کرتاہے۔“
آپ کا یہ فرمانا تھا کہ سومرہ دیوانہ ہوگیا۔ سومرہ کی ماں اس کو آپ کے پاس لائی اور آپ سے معافی کی درخواست گار ہوئی۔
آپ نے اسے ہدایت فرمائی کہ سومرہ کو غسل دے اور کپڑے پہنا کر حضرت جمال الدین خنداںؒ کے مزار پر لے جائے اور پھر آپ کے پاس لائے۔
اس کی ماں نے ایسا ہی کیا ”سومرہ جب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے آپ سے اور درویشوں سے معذرت چاہی۔ اپنا سر آپ کے قدموں پر رکھا۔ آپ کی دعا سے وہ بالکل اچھا ہوگیا۔
٭٭٭
ایک مرتبہ حضرت ابو بکر شبلیَ ہاتھ میں آگ لیے ہوئئے پھررہے تھے۔ لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ آگ کیوں لے رکھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس سے کعبہ کو پھونک دینا چاہتا ہوں، تاکہ مخلوق کعبہ والے کی جانب متوجہ ہوجائے۔
ایک دن آپ نے فرمایا ”خدا شناس کبھی خدا کے سو اکسی سے نہیں ملتا۔ عارف وہی ہے جو نہ تو خدا کے سوا کسی کا مشاہدہ کرے اور نہ کسی سے محبت اور بات کرے اور نہ کسی کو اپنے نفس کا محافظ تصور کرے۔
٭٭٭
ایک مرتبہ حضرت جلال الدین محمد کبیر الاولیاؒ کا گزر ایک گاﺅں سے ہوا۔ آپ نے دیکھا کہ گاﺅں والے اپنا سامان اٹھائے چلے جارہے ہیں۔
آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا کہ گاﺅں میں ژالہ زوگی کی وجہ سے فصل خراب ہوگئی ہے۔ لگان ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ حاکم سخت ہے۔
آپ نے فرمایا ”اگر اس گاﺅں کو ہمارے ہاتھ فروخت کرو اور ہمارے نام سے اس کا نام جلال آباد رکھو تو تمہارا لگان بھی ادا ہوج ائے اور تم لوگوں کو اچھی خاصی رقم بھی بچ جائے جس سے تم اپنے کھیتوں خو درست بھی کرسکتے ہو۔“
آپ کی اس بات سے لوگ راضی ہوگئے۔ آپ نے ان لوگوں سے لوہا اور لوہے کا سامان لانے کو فرمایا اور لکڑی جمع کرنے کی تاکید فرمائی۔
ان لوگوں نے حکم کی تعمیل کی۔ پھر آپ نے لکڑی کے جلانے اور لوہا اس میں ڈالنے کی ہدایت فرمائی۔ آپ نے یہ بھی تاکید فرمائی کہ صبح کو آکر دیکھیں کہ اس میں کیا موجود ہے۔ اسی رات کو آپ اس گاﺅں سے چل دئیے۔
صبح کو جب گاﺅں والے وہاں گئے تو ان کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سارا لوہا زر خالص بنا ہوا ہے۔ انہوں نے اس سے اپنا اپنا لگان ادا کیا اور باقی روپیہ اپ نے خرچ میں لائے اور اپنے گاﺅں کا نام جلال آباد رکھ دیا۔
٭٭٭
حضرت شیخ کبیر عارف ربانی مربی عیسیٰ تہاریمنیؒ کا گزر ایک طوائف کے مکان کے پاس سے ہوا۔ آپ نے اس طوائف سے فرمایا ”ہم بعد نماز عشاءتمہارے پاس آئیں گے۔“
طوائف یہ سن کر بہت خوش ہوئی اور خوب بناﺅ سنگھار کرکے شیخ کے انتظار میں بیٹھ گئی۔ جن لوگوں نے یہ سنا، تعجب ہوا۔ حسب وعدہ آپ اس کے ہاں تشریف لائے اور دو رکعت نماز اس کے مکان میں ادا کرکے نکل کھڑے ہوئے۔
اس طوائف نے کہا ”آپ تو جارہے ہیں۔“
اس پر آپ نے اس کی جانب دیکھ کر فرمایا ”نیک بخت میرا مقصد حاصل ہوگیاہے۔“ آپ کا اتنا فرمانا تھا کہ اس طوائف کی حالت بدل گئی۔ اس نے اسی وقت شیخ کے ہاتھ پر توبہ کی اور کل اپنا مال و اسباب چھوڑ دیا۔ حضرت نے اس کا نکاح ایک فقیر سے کردیا اور فرمایا کہ ولیمہ میں صرف روٹیاں پکواﺅ، سالن کی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے حسب الارشاد روٹی پکوا کر شیخ کے پاس حاضر کی۔ اس طوائف کا ایک امیر یار تھا۔ اس سے ایک شخص نے جاکر کہا ”فلاح رنڈی نے توبہ کرلی ہے اور اس نے ایک شخص کے ساتھ نکاح بھی کرلیا ہے اور اس کا آج اس وقت ولیمہ بھی ہے جس میں صرف روٹیاں ہیں سالن نہیں ہے۔“
وہ امیر آدمی یہ سن کر بڑا حیران ہوا پھر اس نے فقیر کا مذاق اور انہیں شرمندہ کرنے کی غرض سے اس شخص کو شراب کی دو بوتلیں دیتے ہوئے کہا ”تو جاکر شیخ کبیر عارف ربانیؒ کو میرا سلام کہیو۔ اس کے بعد یہ کہنا کہ میں نے طوائف کی توبہ کا واقعہ سنا جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ولیمہ میں سالن کا انتظام نہیں ہے۔ اس وجہ سے یہ شراب روانہ کررہا ہوں۔ اس کو آپ سالن کی جگہ استعمال میں لاسکتے ہیں۔“
وہ شخص شراب کی بوتلیں لے کر جب شیخؒ کی خدمت میں پہنچا تو شیخؒ نے اسے دیکھ کر فرمایا ”تم نے آنے میں بہت دیر لگادی۔“ اس کے بعد انہوں نے شراب کی ایک بوتل لے کر اسے خوب ہلایا اور اسے ایک پیالے میں انڈیل دیا۔ پھر دوسری بوتل کو بھی ایسا ہی کیا۔ پھر اس شخص سے کہا کہ تو بھی بیٹھ کر کھالے۔
اس شخص نے بیٹھ کر کھایا تو وہ ایسا عمدہ گھی بن گیا تھا کہ اس سے قبل اس نے کبھی نہیں کھایا تھا۔ اس نے یہ سارا قصہ جاکر امیر کو سنایا تو وہ سن کر بڑا حیران ہوا۔ اس نے جاکر شیخؒ کے ہاتھ پر توبہ کی۔ یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطا فرمائے۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 145 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں