سیاست کے حمام میں سب ننگے ہیں

سیاست کے حمام میں سب ننگے ہیں
سیاست کے حمام میں سب ننگے ہیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میری ایک داڑ ھ میں کیڑا لگ گیا جو مجھے طرح طرح سے پریشان کرتا، دن کے ہنگاموں میں اطمینان سے بیٹھ جاتا اور رات کی خاموشیوں میں جب دندان ساز خواب و راحت کے مزے میں سرشار ہوتے اور دوا خانے بند.... بے قرار ہو کر اٹھ بیٹھتا، ایک دن جبکہ میرے صبر کا پیمانہ بالکل لبریز ہوگیا تو میں ایک دن دندان ساز کے پاس گیا اور کہا اس داڑھ کو نکال دیجئے، اس نے نیند کی لذت مجھ پر حرام کررکھی ہے اور میرے رات کے سکون و اطمینان کو آہ و کراہ میں بدل دیا ہے“

ڈاکٹر نے اپنا سر ہلایا اور جواب دیا” جہالت ہوگی اگر ہم نے داڑھ کو نکال دیا جبکہ اس کا علاج ہوسکتا ہے“
اس نے داڑھ کو اِدھر ادھر سے کھرچنا شروع کیا اور اس کی جڑوں کو صاف کردیا، عجیب عجیب طریقوں سے روگ کو دور کرنے کے بعد جب اسے یقین ہوگیا کہ داڑھ میں اب ایک کیڑا بھی باقی نہیں رہا تو اس کے سوراخوں کوایک خاص قسم کے سونے سے بھردیا اور فخر آمیز لہجے میں کہنے لگا” اب یہ تمہاری داڑھ تندرست داڑھوں سے زیادہ مضبوط ہوگئی“، میں نے تائید کی اور اس کی جیب روپوں سے بھر کر خوشی خوشی چلاآیا لیکن ابھی ایک ہفتہ گزرنے نہ پایا تھا کہ کم بخت داڑھ میں پھر تکلیف شروع اور اس نے میرے روح کے نغموں کو پھر قریب المرگ لوگوں کی خرخراہٹ اور دوزخ کی چیخ و پکار سے بدل دیا، اب میں دوسرے ڈاکٹر کے پاس گیا اور محتاط لہجے میں اسے کہا
”اس خطرناک سنہری داڑھ کو نکال پھینکئے.... تکلف بالکل نہ فرمائیے اس لیے کہ کنکریاں چبانے والا انہیں شمار کرنیوالوں سے مختلف ہوتا ہے“

ڈاکٹر نے داڑھ نکال دی وہ گھڑی اگرچہ دردو تکلیف کی بنا پر بڑی ہولناک تھی لیکن در حقیقت مبارک تھی، داڑھ نکال دینے اور اچھی طرح دیکھ بھال کرلینے کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ آپ نے بہت اچھا کیا.... کیڑوں نے اس داڑھ میں اچھی طرح جڑ پکڑ لی تھی اور اس کے اچھے ہونے کی کوئی امید نہ تھی۔
سماج کے منہ میں بہت سی داڑھیں ہیں جن میں کیڑا لگا ہوا ہے اور یہ روگ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ انتہا کو چھونے لگا ہے لیکن انسانی سماج اس کی تکلیف سے بچنے کیلئے داڑھ نکلواتا بلکہ محض لیپاپوتی پر اکتفا کرتا ہے اور تکلیف سے بچنے کیلئے انہیں باہر سے صاف کرا کے سوراخوں کو چمکدار سونے سے بھروا دیتا ہے اور بس!
پاکستانی سیاستدان اس وقت وہی کررہے ہیں جو میری داڑھ کے ساتھ پہلے والے ڈاکٹر نے کیا تھا ،مرض کرپشن ہے جس کا علاج شفاف تحقیقات کرکے عمل کے ذریعے خاتمہ ممکن ہے لیکن ایک دوسرے پر الزامات،گالم گلوچ کے ذریعے لیپا پوتی کی جارہی ہے،مسئلہ دبتا جارہا ہے اور سیاست کی بدنما گولڈن چمک اور عیاں ہوتی جارہی ہے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں کرپشن کے خاتمے کے نعرے بلند کرتی ہیں،تمام لیڈرزعوام کانام استعمال کرکے فرماتے ہیں کے شفاف احتساب اور تلاشی ملنی چاہیے،اس دوڑ میں سب سے پرانا مطالبہ جماعت اسلامی کا ہے،اس جماعت کا مطالبہ ہے کہ جو بھی چو ر اور بدعنوان ہے اسے کٹہرے میں لایا جائے،کرپشن کے خلاف سرگرم دوسری جماعت تحریک انصاف ہے جو بظاہرسب سے زیادہ اس معاملے میں جارحانہ دکھائی دیتی ہے،مشرف کے نعرے ”سب سے پہلے پاکستان“کی طرح ان کامطالبہ ہے سب سے پہلے وزیر اعظم۔نواز شریف کی تلاشی یا استعفیٰ ان کیلئے زندگی ،موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے،تحریک انصاف کی کزن پارٹی پاکستان عوامی تحریک ان کے شانہ بشانہ ہے،پیپلز پارٹی ،شیخ رشید،ق لیگ بھی یہی چاہتی ہے کہ پانامہ پیپرز میں جن کا نام آیا احتساب ہونا چاہیے۔
حکمران پارٹی کے قائد نواز شریف نے پارلیمنٹ کے باہر اور اندر دونوں جگہوں پر اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کرکے شفاف تحقیقات کا وعدہ کیا ،جب معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے ٹی اوآرز کا آیا تو وزیر اعظم کا نام گم ہے ،قومی خزانے سے اس کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے لیکن نتیجہ صفر نکلا۔
حقیقت یہ ہے کہ سب کریڈٹ اور سیاست بچانے کے چکر میں ڈگڈگی بجارے ہیں،معصوم ووٹرز درد کی دوا کیلئے اس ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں،خیبر پختونخوا میں عمران خان کے اتحادی سراج الحق کہتے ہیںکہ اسلام آباد دھرنا اور جارحانہ احتجاج ان کی جماعت کا ذاتی فیصلہ ہے ہم اپنا مارچ کرینگے،عمران خان پوری حزب اختلاف کو نظر انداز کرکے کریڈٹ لینے کے چکر میں اکیلے پرواز کررہے ہیں،پیپلز پارٹی اپنے ”لاڈلے “کو لیڈر بنانے کیلئے تماشا لگائے ہوئے ہے حالانکہ اس لاڈلے کو اپنے ابے سے پوچھنا چاہیے کہ لوگ ان کو ”مسٹر ٹین پرسنٹ“ کیوں کہتے ہیں؟شیخ رشید ہر بیگانی شادی میں ”جگت بازی“کرکے شریفوں کے لگائے زخموں کا بدلہ لے رہے ہیں،ڈاکٹر طاہر القادری ایک کینڈین شہری ہیں ان کو پاکستانی عوام سے کوئی سروکار نہیں،ماڈل ٹاﺅن سانحہ کا قصاص لینا ہوتا توپہلے دھرنے میں ہی مل جاتا،افسوس کہ ڈاکٹر صاحب نے ”دیت“پر ہی اکتفا کرلیا،دھرنے میں شرکت عوام کی محبت میں نہیں ہوگی بلکہ پرانی رشتہ داری نبھائی جائے گی۔
عوام اور ملک کے نام نہاد خیر خواہوں کا مسئلہ کبھی بھی کرپشن نہیں رہی ،جو بھی اقتدار میں آیا اس گنگا میں نہایا،اگر کوئی نہیں بھی آیا تو اس نے بھی خوب کمایا ہے،کرپشن صرف پیسے کی نہیں ہوتی اخلاقیات کے نام پر بھی کرپشن ہوتی ہے،داڑھ کی باہر سے لیپا پوتی کرنے والے یہ ڈاکٹرز ہیں،جو مرض کی جڑ نہیں اکھاڑتے بلکہ لیپا پوتی کرکے اپنی دکان داری چمکائے ہوئے ہیں،یہ پرکشش نعرے دینے والے ملک کو لگے مرض کا علاج نہیں کرتے ،ووٹوں سے اپنی سیاست چمکاتے اور نوٹوں سے جیبیں بھرتے ہیں،2نومبر کو کچھ بھی نہیں بدلنے والا،کچھ نیا نہیں ہونے والا کیوں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ایم فل ،صحافی اور کالم نگار ہیں،www.umatti.wordpress.com پر اپنا بلاگ لکھتے ہیں،سماجی تنظیم پاکستان گلوبل انشیٹو کے ایڈیٹر ریسرچ اینڈ پبلیکیشز ہیں،ان سے،ٹوئٹر اور فیس بک پرazhar.thiraj@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مزید :

بلاگ -