حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسویؒ نے خرقہ خلافت پہننے سے پہلے رسول اللہﷺ سے اس بات کا عہد لیاتھا کہ ۔۔۔
اولیائے کرام میں سے ایک درخشندہ ستارہ پیر کامل،صوفی باصفاء،غوثِ زماں حضرت خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی المعروف پیر پٹھان آف تونسہ شریف کااسمِ گرامی بھی نظر آئے گا۔ آپؒ کے والدِ گرامی کا نام ذکریا بن عبدالوہاب جبکہ والدہ محترمہ کا نام زلیخا تھا نسبتی اعتبار سے آپؒ قبیلہ جعفر،قوم افغان سے تعلق رکھتے تھے۔آپؒ کی ولادت باسعادت۱۱۸۳ھ بمطابق ۱۷۶۹ء کو تونسہ شریف کے علاقہ موضع گڑگوجی میں ہوئی ۔
آپؒ مادر زاد ولی تھے ،منقول ہے کہ آپؒ کی پیدائش سے قبل ،آپؒ کی والدہ ایک چشمہ سے مشکیزہ میں پانی بھر کر اپنے گھر کی طرف آ رہی تھیں،ایک درویش،جس کا لباس بھی ہندوستانی تھا اور زبان بھی ہندوستانی،ایک عجیب عالم میں راستہ میں کھڑا تھا،جونہی اُس درویش کی نظر آپؒ کی والدہ محترمہ پر پڑی کہنے لگا ’’سبحان اللہ!اس میں شکم میں بادشاہِ دوجہاں ہے،جواپنے زمانہ میں سلیمانِ زماں بنے گا،ہزار ہا مخلوق کو فیض پہنچائے گا اور تمام جن و انس اُسکی تعظیم بجا لائیں گے ۔‘‘آپؒ سلسلہ چشتیہ کے عظیم روحانی پیشوا قبلہ عالم حضرت خواجہ نورمحمد مہارویؒ (چشتیاں شریف)کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئے اور اُنہی سے خلافت کی عظیم نعمت سے فیض یاب ہوئے ۔خلافت کے حوالے سے مولوی غلام رسول چنڑ،جو خواجہ شاہ سلیمان کے یارانِ مجاز میں تھے،فرماتے تھے کہ حضرت غوثِ زماں نے اپنی زبان مبارک سے اپنی خلافت کا واقعہ مجھ سے اِس طرح بیان فرمایاتھا کہ۔۔۔’’جب حضرت قبلہء عالم نے مجھے خلافت عطا کی تو میں نے انکار کیا،اور عرض کیا کہ قبلہ یہ بارِگراں مجھ سے نہیں اُٹھایا جائے گا ،اِس زمانہ میں لوگ خدا کی نافرمانی میں مشغول ہیں،میں کِس طرح مخلوق کے اِس بوجھ کو اپنی گردن میں ڈالوں ۔حضرت قبلہء عالم نے فرمایا کہ مجھے خدا اور رسولﷺ کا حکم ہوا ہے کہ اپنی خلافت محمد سلیمان کو دے دو ،مَیں اپنی طرف سے نہیں دے رہا ۔مَیں نے پھر معذرت چاہی کہ یا حضرت یہ بارِگراں مجھ سے نہیں اُٹھایا جائے گا۔یہاں تک کہ مَیں نے دیکھا کہ آنحضرت ؐ تشریف لے آئے ہیں اور فرماتے ہیں کہ، تُوخلافت کیوں نہیں لیتا ،میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ؐمیں اِس کام کے لائق نہیں ہوں،آپؐنے فرمایا کہ تُو اِس لائق ہے ،اِسی لیے تمہیں حکم دے رہا ہوں ،ہم تمہیں اپنی جانب سے خلافت دے رہے ہیں ،مَیں نے عرض کیا کہ حضور!مَیں آپؐ کے حکم سے خلافت قبُول کرتا ہوں مگر یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ اُس وقت مخلوق کو مرید کروں گا جب مجھے یقین ہوجائے کہ حق تعالیٰ میرے مریدوں کو بخش دے گا ۔آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ تیرے مریدوں کی شفاعت مَیں کروں گا،اور حق تعالیٰ اُنہیں بخش دے گا ۔اس کے بعد مَیں نے حضرت قبلہء عالم سے خلافت لے لی،آپؒ نے مُسکراکر فرمایا کہ اب آنحضرت ؐ کے فرمان کے مطابق لی ہے ،اِس کے بعد مَیں نے لوگوں کو مرید کرنا شروع کردیا۔‘‘
آپؒ نے لاکھوں لوگوں کو مشرف بہ اِسلام کیا اور اُن کے دلوں کو ایمان کے ’’نور‘‘ سے منور فرمایا ۔خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ اپنی ذات میں ایک ادارہ کی سی حیثیت رکھتے تھے آپؒ نے اُس دور میں تونسہ شریف میں دارلعلوم کی بنیاد رکھی ،جب مسلمانانِ برصغیر کی تعلیمی،مُعاشی،معاشرتی اور اخلاقی حالت ناگفتہ بہ تھی ۔بالخصوص تعلیمی میدان میں تو مسلمان،یہاں بسنے والی دوسری قوموں سے کوسوں دور تھے ، اس دارالعلوم میں تمام روحانی علوم کیساتھ علوم قدیم و جدید کا بھی اہتمام کیا گیاتھا ،پچاس کے قریب اساتذہ و علمائے کرام قرآن وحدیث اور شریعت وطریقت کا درس دینے مصروف رہتے ،ہزاروں کی تعداد میں تشنگانِ علم و سلوک یہاں آکر علم کی روشنی سے اپنے قلب واذہان کو منور کرتے اور توحید ورسالت کے نور سے سینوں کوسیراب کرتے ،خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ کی حیاتِ پاک کا ایک ایک ورق تعلیم و عمل اور جہدِ مسلسل اور عشقِ رسول ؐ سے عبارت ہے۔
آپؒ کی شخصیت کے بارے میں سر سید احمد خاں لکھتے ہیں کہ ’’آپؒ روحانی اور تعلیمی میدان غیرمعمولی شہرت کے حامل تھے کیوں کہ آپؒ صحیح معنوں میں دینِ متین کی خدمت فرمارہے تھے۔سر زمینِ تونسہ شریف پر ہی آپ ؒ نے دارالعلوم کے اساتذہ کرام ،طلباء اور عوام الناس کی صحت کے پیش نظر ایک ہسپتال کی بھی بنیاد رکھی اور دار العلوم اور ہسپتال کی تمام تر ذمہ داریوں کو اپنی پوری حیاتِ مبارکہ میں بطریقِ احسن نبھایا ۔‘‘ ایک مرتبہ سر سید احمد خاں ،شاہ اسماعیل کی وساطت سے تونسہ شریف خواجہ شاہ سلیمان ؒ تونسوی کے درِ دولت پر حاضر ہوئے اور جہاد بالسیف اور مسلمانوں کی عسکری اور تنظیمی بنیادوں پر اصلاح کی خاطر خواجہ شاہ سلیمان ؒ سے مدد کی درخواست کی ، تو آپ ؒ اُنہیں ہدائیت اور نصیحت فرمائی کہ بے شک جہاد کرنا مسلمانوں پر فرض ہے مگر مسلمانوں کے اصل مرض کا پہلے علاج بے حد ضروری ہے ۔مسلمانوں کو قرآن و حدیث اور دوسرے علوم کی تعلیم سے آراستہ ہونا چاہیے ،اتباعِ رسولؐ اور احیاء دین کا جذبہ بیدار ہونا چاہیے،مزید فرمایا کہ امتِ مسلمہ کو اتفاق و اتحاد کی جتنی ضرورت اس وقت ہے وہ شاید اس سے پہلے نہ تھی کیونکہ اس وقت امت کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار بڑھتا چلا جارہا ہے،میں آپ کے لئے دعا گو ہوں اور ہر ممکن مدد کے لئے تیار ہوں مگر مجھے نظر آرہا ہے کہ یہ وقت جہاد کے لئے موزوں نہیں ،اتفاق و اتحاد اور اتباعِ سنت ؐ پر عمل کیا جانا میرے نزدیک ابھی زیادہ ضروری ہے ،یہ فرمانے کے بعد آپؒ اُٹھ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ’’ یہ بوڑھا اس جہاد کے لئے حاضرہے۔‘‘
آپؒ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں نے احسن اعمال ،حقوق العباد اور سنتِ رسولؐ کو چھوڑ دیا ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان پر کافروں کو مسلط کردیا ہے ۔ آپؒ نے اپنی تمام ترسعی جمیلہ کامرکزومحور ،درستی اعمال ،اصلاح احوال اور اتباع رسول ؐقراردیا،آپؒ فرماتے ہیں کہ جب حکومت و سلطنت چھین لی جاتی ہے تو قوموں کے اخلاق وعادات اور سیرت و کردار کے بگاڑکا آغازہوجاتاہے اورذہنی وفکری انتشار،جسمانی انتشار سے زیادہ مہلک ہوتا ہے
پاکستان میں بابا فریدالدین گنجِ شکرؒ اور قبلہء عالم خواجہ نور محمد مہارویؒ کے بعد خواجہ شاہ سلیمان تونسویؒ ہی کی ذاتِ گرامی ہے کہ جس کی نظرِ عنایت سے سلسلہ چشتیہ،نظامیہ کو بے حد فروغ ملا۔آپؒ کے آستانہء عالیہ سے فیض پانے والے حضرت خواجہ شمس الدین سیالویؒ ،خواجہ قمرالدین سیالویؒ ،سیال شریف۔۔۔سید پیر مہرعلی شاہؒ ،گولڑہ شریف۔۔۔پیر کرم شاہ الازہرؒ ی،بھیرہ شریف۔۔۔سید اسماعیل شاہؒ ،کرمانوالے ۔۔۔ابو مختارحضرت خواجہ صوفی جمال الدین چشتی تونسوی مغل پٹھانؒ ،(خانقاہ دارالجمال)دیپال پور۔۔۔خواجہ محمد اکبرؒ ،بصیر پور۔۔۔جلال پور شریف۔۔۔کوٹ مٹھن شریف۔۔۔گڑھی اختیارخان شریف۔۔۔میرا شریف۔۔۔حضرت خواجہ جان محمد کریمی تونسوی،انتالی شریف۔۔۔اورخواجہ حسن نظامیؒ کی خانقاہوں سے آج بھی روحانیت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔
اس وقت آپؒ کی مسندِ سجادگی پر حضرت خواجہ عطاء اللہ خاں تونسوی سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور جلوہ افروز ہیں جبکہ دوسری گدی پرحضرت خواجہ نصرالمحمود نظامی تونسوی جلوہ گر ہیں
آپؒ کا سالانہ عرسِ مقدس 5-6-7صفر کو انتہائی عقیدت و احترام اور شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے،جس میں نہ صرف پاکستان ،بلکہ افغانستان،ہندوستان اور ایران سے زائرین جوق در جوق حاضری دینے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔دعاہے کہ ربِ کریم ہم کو تمام تر خرافات سے بچتے ہوئے قرآن وسنت اوراولیائے کرام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی کے شب وروز گزارنے کی توفیق وہمت عطافرمائے ۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔