غزہ میں سسکتی انسانیت اور بے حس حکمران
کرہ ارض پر بڑھتی ہوئی مشکلات اورجاری خونی جنگیں، یوں لگتا ہے کہ انسان کی تباہی قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ تقریبا ًآج سے اڑھائی سال پہلے روس اور یوکرائن کی نہ ختم ہونے والی جنگ اور اس میں انسانیت کا قتل، ایک کھیل بنتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس کھیل میں اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی دفاعی صلاحیت کانہ صرف مظاہرہ کیا، بلکہ عالمی بندشوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری میں نمایاں مقام بھی حاصل کیا،جس کی تفصیلات میں نہیں جانا چاہتا، لیکن میں اپنے ذہن کے کسی بھی گوشے سے پردہ اٹھاؤں تومنظر مجھے یاد دلاتا ہے کہ روس اور یوکرائن کی جنگ، جس میں امریکہ برطانیہ جرمنی فرانس اور دیگر یورپی اور نیٹو ممالک حصہ بن گئے تھے، اس وقت بھی راقم الحروف نے پیشین گوئی کی تھی کہ اب ایک اور بڑی جنگ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے سر پر آن کھڑی ہے، جس میں ایران روس چین کوریا اور دیگر ممالک کی یہ خواہش تھی کہ امریکہ کو ایک اور جنگ میں دھکیلا جائے تاکہ اس کی معاشی و دفاعی قوت کمزوراور جدید ٹیکنالوجی کونقصان پہنچایا جائے۔ میرا آج کا موضوع اسرائیل فلسطین جنگ اور خاص طور پر فلسطین کا وہ حصہ جسے غزہ کی پٹی کہا جاتا ہے، اس پر کچھ کہنے کی کوشش ہے۔
7۔ اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کی ٹیکنالوجی اور سکیورٹی کے خوف کے بت کو توڑ دیا اورایک بڑا حملہ کر کے دنیا کو چونکا کر رکھ دیا۔ یہ حملہ اتنا خوفناک تھا کہ اسرائیل کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ حماس کے مجاہدین نے اسرائیل میں گھس کر ایک دن میں سینکڑوں صیہونی واصل جہنم کئے۔ اس کے دو تین دن بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر حماس کو ختم کرنے کے ہدف سے بے دریغ اور ظالمانہ حملہ کیا۔ جس میں غزہ کے اوپر بمباری کی وجہ سے کافی جانی اور مالی نقصان ہوا لیکن حماس کے مجاہدین نے اسرائیل کو اتنا مجبور کیا کہ اسے امریکہ برطانیہ اور یورپی ممالک سے ہر قسم کی مدد مانگنا پڑی۔امریکہ نے فوری طور پر اسرائیل کی حالت کو دیکھتے ہوئے جنگی جہازوں سے لیس بحری بیڑا،غاصب صیہونی ریاست کی بحری حدودمیں لا کھڑا کیا۔ اس بحری بیڑے میں نہ صرف سینکڑوں ایئر کرافٹ،اورجدید میزائل سسٹم شامل ہے، بلکہ انتہائی تربیت یافتہ کمانڈوز بھی اسرائیل میں اتار دیے ہیں۔
میں سلام پیش کرتا ہوں غزہ کے مجاہدین کو جنہوں نے کسی قسم کا خوف اور کمزوری نہیں دکھائی اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ یقینا اسرائیل کے فضائی حملوں سے غزہ میں عمارتیں اور جانی نقصان دیکھنے میں آیا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ آزادی قربانی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی۔دوسری طرف مسلمان عرب ممالک نے اپنے اجلاس بلائے اور فلسطین کے مسئلے پر حماس کی حمایت میں قراردادیں منظور کیں۔ اسی دوران غزہ میں خوراک کی قلت بھی ہو گئی۔ ہسپتال ادویات سے خالی ہوگئے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو بجلی، پانی، گیس اورخوراک کی فراہمی کو بند کر دیاہے۔لیکن افسوس کسی بھی عرب ملک نے عملی طور پر حماس کے مجاہدین کی مدد نہیں کی، لیکن پھر مجھے دوبارہ مجاہدین کے حوصلہ کو سلام پیش کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ آج بھی بڑی بہادری سے میدان میں موجود ہیں اور شہادت کو سینے سے لگانے کے لئے اسرائیل کے اندرونی علاقوں میں بھرپور حملے کر رہے ہیں۔ اس جنگ کا اختتام میں نہیں سمجھتا کہ مذاکرات کی میز پر ہو گا۔ یقینا فلسطینیوں کے حقوق اور خطے میں امن،بیت المقدس کی آزادی سے مشروط ہیں۔
مجھے دکھ ہوتا ہے کہ عرب حکمران،جو فلسطین کی آزادی کی زبانی حمایت تو کرتے ہیں،انہوں نے عملی اقدامات کے لیے کوئی پیشرفت نہیں کی۔گزشتہ چند دن پہلے قاہرہ میں عرب ممالک کی کانفرنس میں بھی ”نشستند، گفتند اور برخاستند“ کے علاوہ کچھ نہیں ہوا۔ مجاہدین کی حمایت کے لیے جو بڑی قوت نظر آرہی ہے وہ لبنان کی حزب اللہ،شام اورعراق کے مجاہدین اور یمن کے حوثی بہادر قبائل پر مشتمل ’انصار اللہ‘ عملی اقدامات سے ثابت کر رہے ہیں کہ وہ فلسطین کی آزادی تک حماس کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر امریکی مسلح افواج کا مقابلہ کریں گے۔ امریکہ کا خوف پوری دنیا میں پایا جاتا ہے،حوثی مجاہدین نے اس خوف کو ختم کرنے کے لیے امریکی بحری بیڑے پر حملے کئے۔ اس وقت عرب ممالک اور لفظی طور پر فلسطین کی حمایت کرنے والے دیگر ممالک نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جبکہ امریکہ اور برطانیہ کے مقابلے میں چین اور روس نے بھی امریکی بحری بیڑے کے قریب اپنے ایئر کرافٹ کیریئر لاکھڑے کئے ہیں۔روس کے جدید ترین جنگی جہاز امریکی بحری بیڑے کے اوپر فضائی گشت کرتے بھی دکھائی دیے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ جنگ بے نتیجہ نہیں ہوگی بلکہ اس میں ان شاء اللہ 1967ء کی جنگ میں جو علاقے عرب ممالک گنوا بیٹھے تھے وہ بھی واپس ہوں گے۔ اس حوالے سے ایران کی فلسطین کے لئے حمایت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔جبکہ یہ بات تو واضح ہے کہ ایران کے حماس سے تعاون کے بغیر یہ جنگ لڑی نہیں جا سکتی تھی،بلکہ ایران اپنا سیاسی اثرو رسوخ جہاں فلسطین کے لئے استعمال کررہا ہے، اسی طرح وہ حزب اللہ، شام، عراق اور یمنی قبائل کی تنظیم’انصاراللہ‘ کی عسکری مدد بھی کررہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای ہر وقت فلسطین پر مسلط کردہ جنگ پر نظر رکھے ہوئے ہیں،جبکہ لاکھوں ایرانی جاں نثار فلسطین کی جنگ میں شریک ہونے کے لئے تیار ہیں۔البتہ میں شرمندہ ہوں کہ ہمارے ایٹمی صلاحیت کے حامل ملک پاکستان کے عوام تو حماس کے مجاہدین کے ساتھ مل کر جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانے کا جذبہ رکھتے ہیں، لیکن ہمارے حکمران بے حس اورخاموش ہیں۔البتہ ہماری دفاعی فورسز حالات کا تجزیہ کرنے کے لیے اجلاس کر کے کہتے ہیں کہ ہم فلسطین کے معاملے سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ ہیں اور صیہونی قوت اسرائیل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ امت مسلمہ کی حمایت، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو ہے۔ اس لئے ہمیں اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔
غزہ کے مسلمانوں نے بڑی قربانی دی ہے۔ اب ان قربانیوں کو ضائع نہیں جانا چاہیے۔اس کی عملی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ عرب ممالک اپنا پیسہ،اسلحہ افرادی اور فوجی قوت فلسطین کی مجاہدین کے ساتھ لگا دیں۔جیسے برطانیہ امریکہ اور دیگر ممالک اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔ اسی انداز سے عرب مسلم ممالک بھی فلسطین کی مدد کریں گے تو بیت المقدس آزاد ہوگا۔