آئینی ترمیم اور سیاسی استحکام: ہنوز دلی دور است

   آئینی ترمیم اور سیاسی استحکام: ہنوز دلی دور است
   آئینی ترمیم اور سیاسی استحکام: ہنوز دلی دور است

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تصنیف و تالیف کی دنیا ہو یا تقریر اور اداکاری کا فن،ہر شعبہ ہائے زندگی میں معروف افراد اپنی مخصوص اداؤں اور تحریروں کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد کی تحریریں ہوں یا سید مودودی کی تصانیف، احراری علماء کی تقریریں ہوں یا ہماری پنجابی فلموں کی بڑھکیں،یہ سب کچھ آنکھ بند کرکے پہچانا جا سکتا ہے بغیر نام و نشان کے تحریر بتا دیتی  ہے کہ یہ کس کے قلم سے نکلی ہے، تقریر کا متن دیکھ کر بتایا جا سکتا ہے کہ ایسے الفاظ و انداز کس مقرر کے ہوں گے۔ڈائیلاگ سن کر بآسانی بتایا جا سکتا ہے کہ یہ ڈائیلاگ سلطان راہی کے ہیں یا مصطفی قریشی کے۔ برٹرینڈرسل، کارل مارکس، فریڈرک اینجلز، دوستووسکی اور ایسے ہی معروف افراد کی تحریریں بغیر ٹائٹل کے بھی بتا دیتی ہیں کہ یہ فلاں کی ہیں انداز، افکار، طرز تحریر و گفتگو خود بولتا ہے کہ اُس کا تعلق کس کے ساتھ ہے۔

اسلام آباد یونیورسٹی تعلیم حاصل کرنے کے دوران شیخ عبداللہ غرام شہید(بانی القاعدہ) سے تعلق پیدا ہوا۔ عربی زبان سیکھی۔ دین کا گہرائی سے مطالعہ کیا تو ایسی شدبد حاصل ہوئی کہ مکی اور مدنی شہروں کے باسیوں کی پہچان کرنا آسان ہوا۔ نشست و برخاست کے انداز سے لے کر اندازِ تکلم کو دیکھ کر بآسانی پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ کون مکے کا باسی ہے اور کس کا تعلق مدینہ سے ہے۔ اسی طرح مختلف اقوام کے بارے میں بات کہی جا سکتی ہے۔

ہمارے سیاسی کلچر میں تحریک انصاف ایک خاص کلچر کانام ہے،ایک خاص سوچ کا نام ہے، ایک مخصوص طرزِ فکر و عمل کا نام ہے۔ ہزاروں افراد میں ہم انصافی مرد و خواتین کو بڑی آسانی سے پہچان سکتے ہیں ان کا گفتگو کا انداز، ان کی فکر اور ان کی رائے ماشاء اللہ بڑی نمایاں، نرالی اور شدید چبھنے والی ہوگی جو بھی وکھری اور نرالی ٹائپ کا ہوگا۔ لڑکا ہو یا لڑکی، عورت ہو یا مرد، حتیٰ کہ درمیانہ یا درمیانی بھی ہو جو بآسانی سب میں نمایاں ہو، منفرد ہو، وکھری ٹائپ کا ہو وہ یقینا تحریک انصاف کا تربیت یافتہ ہوگا پیر و مرشد عمران خان کا مرید ہوگا۔ عمران خان کو جن مخصوص مقاصد کے تحت میدان سیاست میں اتارا گیا تھا ایسے کلچر کا فروغ ان عظیم مقاصد میں شامل ہے یہ کلچر، مخصوص کلچر نہ صرف پھیل چکا ہے بلکہ معاشرے میں جڑیں بھی پکڑ چکا ہے ایک پوری نسل اس کلچر میں رنگی جا چکی ہے سوشل میڈیا کے ذریعے اس کلچر کی جڑیں خاص گہری اور مضبوط ہو چکی ہیں اس کلچر کے خاتمے کی کوئی شکل نظر نہیں آتی ہے نہ فکری طور پر اور نہ ہی عملی طور پر۔ یہ معاشرے میں ہر سطح پر اور ہر مکتبہ فکر و عمل میں تقسیم انہی مقاصد میں شامل ہے۔ آپ  کسی بھی شعبے کو اٹھا کر دیکھ لیں چاہے عدلیہ ہو یا انتظامیہ، صحافت ہو یا سماجی شعور اور اس سے جڑی تنظیمیں اور شخصیات، سب میں تقسیم ہے اختلاف رائے میں شدت ہے عمران خان فوج میں بھی تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں انہوں نے اس قومی ادارے کو تقسیم کرنے اور پھر اس پر حملہ آور ہونے میں بھی دیر نہیں کی۔ ہمارے دشمن جو ایک عرصے سے ہمیں کمزور کرنے اور جھکانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ تحریک انصاف کے ذریعے قومی اتفاق و اتحاد کی جڑوں میں بیٹھ چکے ہیں ہر سطح پر تقسیم نمایاں ہے یہ تقسیم عمومی نہیں ہے اور نہ ہی یہ اختلاف رائے کی عکاسی ہے بلکہ یہ تقسیم، حقیقی تقسیم ہے نفاق ہے، انتشار ہے، تفرقہ ہے جو ہماری قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کر گیا ہے ہمیں دو دہائیاں یا اس سے قبل بتایا گیا تھا کہ دشمن نے ہمارے خلاف ”ففتھ جنریشن وار“ لانچ کر دی ہے اسی دور میں عمران خان کی تحریک انصاف قائم کی گئی اور عمران خان بڑے طمطراق سے میدان سیاست میں اتارے گئے۔ پھر 2011ء میں انہیں اقتدار میں لانے کے منصوبے کا آغاز ہوا۔ ریاست کے تمام ستون اس کارِ خاص میں جُٹ گئے۔ آئین، قانون، سماجی اور اخلاقی روایات کی ایسی تیسی پھیر کر رکھ  دی گئی انہیں اقتدار میں لایا گیا 44ماہ کے دوران انہوں نے جو گل کھلائے، وہ ہمارے سامنے ہیں معیشت کا بھی بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ گو اب معیشت کسی نہ کسی حد تک سنبھل چکی ہے ہمارے سفارتی معاملات بھی بہتری کی طرف گامزن ہیں لیکن جوتباہی پھیلائی جا چکی ہے اسے ابھی تک سمیٹا نہیں جا سکا۔

ہماری عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ نے جو فساد مچا رکھا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ عظمیٰ میں تقسیم بڑی واضح ہے ایک وقت تھا کہ جج دیکھ کر فیصلوں کی پیش گوئی کی جاتی تھی کس بنچ میں کون بیٹھا ہے، بنچ کی کمپوزیشن دیکھ کر ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کی جاتی تھی کہ فیصلہ موافق ہوگا یا مخالف،یہ اعزاز بھی عمران خان کو جاتا ہے کہ انہوں نے عدلیہ میں بھی تقسیم اس حد تک پھیلا دی ہے کہ جج اپنے فرائض منصبی کے تقاضوں کے برعکس شخصیات کو دیکھ کر فیصلے کرنے لگے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب، سابق جسٹس اعجاز الاحسن اور دیگر ججوں کا کنڈکٹ کیا ان کے منصب سے موافقت رکھتا ہے؟ ویسے مقدمے میں ایک فریق کے حق میں اور دوسرے کے خلاف بھی فیصلہ ہوتا ہے یہ بھی جج کا استحقاق ہوتا ہے کہ وہ کسی کو ریلیف دے یا نہ دے۔ لیکن یہ کسی جج کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ جس فریق کو ریلیف دے اسے دادِ تحسین بھی دے اور دوسرے فریق کو تکلیف پہنچانے کا نہ صرف اعلان کرے بلکہ یقینی بھی بنائے کہ اسے تکلیف پہنچے۔ ہمارے ججوں نے اپنے فیصلوں کے ذریعے ایسا کیا۔ کسی ایک فریق کو یعنی عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو فائدہ پہنچانے کے لئے ریلیف دیا اور اس طرح دیا کہ اندھوں کو بھی نظر آیا کہ ریلیف آئین اور قانون کے قطعاً منافی تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ چیف کا عہدہ حاصل نہیں کر سکے آئینی اور قانونی طو رپر وہ اس حوالے سے بولڈ ہو چکے ہیں ان کا جھکاؤہی نہیں بلکہ پورا تعلق عمران خان ٹولے کے ساتھ تھا اور ہے ان کا کنڈکٹ بھی ویسا ہی ہے وہ انکار اور انتشار کی پٹڑی پر رواں دواں ہیں عام اخلاقی روایات کے برعکس انہوں نے نہ تو نئے چیف جسٹس کو مبارکباد دی ہے (بلکہ آفریدی صاحب خود ان کے کمرے میں گئے تھے) اور نہ ہی رخصت ہونے والے جسٹس قاضی کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے میں شرکت کی۔ یہ ان کی تنگ نظری کا اظہار ہے کیونکہ ان کا تعلق ہی ایسے لوگوں کے گروہ سے ہے جنہیں کسی قسم کی اخلاقیات و روایات کا رتی برابر بھی پاس نہیں ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا 26ویں آئینی ترمیم کے بعد حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟تو میرا جواب ہے عمران خان نے جہاں تک ہمیں پہنچا دیا ہے وہاں سے فوری یا مستقبل قریب میں واپسی ممکن نظر نہیں آ رہی، انہوں نے جو کانٹے بوئے ہیں ہمیں انہیں ابھی اور کاٹنا ہوگا۔

مزید :

رائے -کالم -