"دھرنا ڈرامہ طویل"ناظرین اکتا گئے
مذاکرات کو انگلش میں ڈائیلاگ کہتے ہیں یہ لفظ آج کل ہر شخص کی زبان پر کسی ورد کی طرح چڑھاہو ا ہے۔آج کل ان دھرنوں میں اتنی ’رونق ‘موجود ہے کہ عوام ڈرامے دیکھنے کی بجائے دھرنوں میں جاری بیان اوربجتے گانے سن کا کافی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ڈرامہ پروڈیو سرز کا آج کل کام ٹھپ نظر آ رہا ہے کیو ں کہ ہر روز ساڑھے نو بجے ایک نئی قسط چلتی ہے۔یہ ایک ایسا ڈرامہ ہے جس کو دکھانے کے لیے ہر ٹی وی چینل بڑھ چڑھ کر حصہ ڈ ال رہا ہے تاکہ اس ڈرامے کی قسط HDمیں دکھائی جا سکے اور اب اس کی تقریباً 44اقساط مکمل ہو چکی ہیں۔کئی موڑ ایسے آئے جہاں ایسا محسوس ہو تا تھا کہ شائد آخری قسط آنے والی ہے اور پھر یہ ڈرامہ اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ شکر ہے ’پیارے افضل ‘اس سیریل کے شروع ہونے سے قبل ختم ہو گیا ورنہ اس کی وجہ سے پیارے افضل کے شائقین بھی دوسری جانب منتقل ہو جاتے۔پچھلی اقساط میں جو باتیں زیر غور رہیں ان کا کچھ احوال یوں ہے ، پہلے قادری صاحب اور کپتان صاحب دونو ں ایک ہی رات اسلام آباد پہنچتے ہیں اور اس کہ بعد دو مختلف جگہوں پر ڈیرہ ڈالتے ہیں اور پھر روزانہ ایک مخصوص وقت (ایک دوسرے کے ٹی وی حقوق کا خیال رکھتے ہوئے) میں عوام سے مخاطب ہو تے ہیں اور اپنے مطالبات کی پیش کرتے ہیں اور جب ان کی پیش کردہ مطالبات پر کوئی غور کرنا ضروری نہیں سمجھتا تو پھر ’کرن اور ارجن‘کی طر ح پالیمنٹ پر دھاوابولا جاتا ہے لیکن اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا تو گاو ¿ں واپس (پرانی جگہ)آ جاتے ہیں۔مگر اب عوام تنگ آ چکی ہے کے کوئی تو اس ڈرامے کا آخری سین لکھ سکے۔کیو ں کہ پاکستانی ڈرامے عام طور پر 28سے 30اقساط پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن یہ ڈرامہ تو 44اقساط کا ہو چکا ،لوگو ں نے اسے دیکھنا تقریباً چھوڑ دیا ہے بس جھلکیوں میں دیکھ کر پوری قسط کا اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کیا ہو ا ہو گا ،اس دوران ٹی وی چینلز کی تو مو ج لگی ہو ئی ہے اشتہاروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اب تو چینلز کو یہ سمجھ نہیں آتا کہ قسط چلائیں یا اشتہار۔ میں ایک بچے سے ملا تو وہ بھی دھرنوں میں چلنے والا پشتون گانا بہت شوق اور مزے سے سن رہا تھا میں نے اس سے پو چھا کہ تمہیں پشتو سمجھ آتی ہے تو اس نے جواب میں منہ پر انگلی رکھ کر مجھے چپ رہنے کے لیے کہا میں اس وقت خاموش ہو گیا اور چند منٹ کے بعد جب گانا ختم ہو گیا تو اس بچے نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا کہ سمجھ تو نہیں آتی لیکن میوزک بہت مزیدار ہے۔ اس دوران کپتا ن صاحب نے خطاب دینا شروع کر دیا تو اس بچے نے زور سے چلا کر کہا کہ یہ کیا مذاق ہے گانا تو پورا چلنے دیتے اب مجھے نیٹ پر سرچ کر کہ یہ گا نا سننا پڑے گا۔میں اس بات سے بہت حیران اور پریشان بھی ہوا، اب اس سب کو ختم ہو جانا چاہیے اور یہ صرف مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔امید ہے جلد ہی ہم سب اس بحران سے باہر نکل آئیں گے۔