اسلام کا معاشی نظام: منڈی میں بولی دینے کا طریقہ کار
کوثر عباس
نبی کریم ﷺ نے جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی تو ایک جامع معاشی نظام بھی متعارف کرایا۔ اس حوالے سے آپ نے جو اصطلاحات متعارف کرائیں وہ آج کے جدید دور میں نافذالعمل ہیں اور دنیا انھیں فالو کر رہی ہے، ان میں بعض اہم چیزوں کا بیان سابقہ کالموں میں ہو چکا ہے۔آج کے اس کالم میں محض یہ بیان کیا جائے گا کہ حضور نبی کریم ﷺ کے دور میں منڈی میں بولی لگانے کا کیا طریقہ کار تھا؟ سنن ابو داؤد شریف (حدیث نمبر: 1641)، سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر: 2198) اور ترمذی شریف (حدیث نمبر:1218) میں ہے کہ ایک انصاری صحابی نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں سائل بن کر حاضر ہوا۔آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تمھارے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: ہمارے گھر میں لکڑی کا ایک پیالا ہے جس سے ہم پینے کا کام لیتے ہیں اور ایک کمبل ہے جس کا آدھا حصہ اوڑھنے اور آدھا حصہ بچھونے کے طور پر کام آتا ہے۔یہ سن کر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔ وہ سائل اپنے گھر گیا اور پیالا اور کمبل اٹھا لایا۔ صحابہ بھی موجود تھے۔ آپ نے دونوں چیزیں سامنے رکھیں اور فرمایا: کوئی ہے جو ان چیزوں کا خریدار ہو؟ یہ سن کر ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: میں ان دونوں چیزوں کاایک درہم دیتا ہوں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا: کوئی اور ہو جو ایک درہم سے زیادہ دینا چاہے؟یہ سن کر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا: میں ان دونوں چیزوں کے دو درہم دیتا ہوں۔ اسی حدیث میں مزید یہ درج ہے کہ آپ نے دونوں چیزیں اسے دیں اور درہم مالک کو دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک درہم کا گھر کے لیے راشن لے لیں اور ایک درہم کی کلہاڑی لے لیں اور پھر اسے لکڑیاں کاٹ کر بیچنے کے کاروبار کا مشورہ دیااور یوں اس شخص کی حالت پندرہ دن میں بدل گئی۔اس حدیث میں بولی دینے کا جامع تصور موجود ہے۔ بولی کیا ہے؟مشہورزمانہ انگریزی لغت (Dictionary) میں بولی کی تعریف یوں ہے۔
Bidding is an offer (often competitive) to set a price tag by an individual or business for a product or service or a demand that something be done
اب آ جائیں مذکورہ حدیث میں اس فقرے کی جانب جو بطور خاص بولی پر دلالت کرتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جب ایک صحابی نے مذکورہ سامان کی قیمت ایک درہم لگائی تو آپﷺ نے”کوئی ہے جو ایک درہم سے زیادہ قیمت دے“ یہ فقرہ دو تین مرتبہ دہرایا۔ حضور ﷺ نے جب یہ بات کی تو ایک صحابی نے اٹھ کر دو درہم کی بولی لگائی۔آپ موجودہ دور میں بھی دیکھیں کہ بولی کا یہی طریقہ کار ہے مثلاً آپ منڈی میں جاتے ہیں اور ایک پیٹی سیبوں کی خریدنا چاہتے ہیں۔بولی دینے والا صدا لگائے گا اور خریدار اس کی قیمت مقرر کریں گے۔ فرض کریں کہ کسی آدمی نے پیٹی کی قیمت پندرہ سو روپے مقرر کی۔ اب بولی دینے والا صدا لگائے گا کہ ”پندرہ سو ایک، پندرہ سو دو، پندرہ سو تین“۔ اس کے تین گننے تک اگر کسی دوسرے نے پہلی بولی سے زیادہ قیمت لگا دی تو پہلی بولی منسوخ سمجھی جائے اور دوسری بولی اس پیٹی کی نئی قیمت سمجھی جائے گی۔اس قیمت پر بھی ایک دو تین کی گنتی کی جائے لیکن اگر تین گننے کے بعد بھی کسی نے بولی نہیں لگائی تو وہی بولی اس پیٹی کی قیمت سمجھی جائے گی اور مذکور پیٹی اس انسان کے حوالے کر دی جائے گی۔ یہی کلیہ باقی دوسری چیزوں کا بھی ہے۔اس طریقہ کار میں کسی بھی چیز کی زیادہ سے زیادہ قیمت کا تعین ہو جاتا ہے اور حتمی قیمت وہی ہوتی ہے جس سے اوپر کوئی بولی نہ لگائی جائے۔ حدیث شریف میں بھی یہی ہے کہ آپ نے دونوں چیزیں سب کے سامنے رکھیں اور کہا ہے کہ کون خریدے گا؟ ایک آدمی نے سامان کی قیمت ایک درہم مقرر کی تو آپ نے اس پر اسی طرح دو تین بار اضافے کی صدا لگائی اور اسی دوران ایک اور صحابی نے قیمت بڑھا دی اور یوں پہلے کی قیمت منسوخ ہو گئی اور چونکہ کسی تیسرے نے دو دورہم سے زیادہ بولی نہیں دی تھی لہذا آپ نے وہ سامان اس کے حوالے کرد یا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ریاست مدینہ کی منڈیوں اور بازاروں میں بولی کا ایک ایسا جامع طریقہ کار متعارف کرایا جو آج بھی کم و بیش پوری دنیا میں لاگو ہے لیکن ایک فرق ہے کہ آج منڈیوں میں بکنے والی چیز پیٹیوں میں بند ہوتی ہے اور یوں اندھیرے میں وہ چیز خرید لی جاتی ہے اور جب دکاندار اسے کھولتا ہے تو وہ نقصان عوام سے پورا کرتا ہے جس سے مہنگائی سمیت کئی ایک قباحتیں جنم لیتی ہیں۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ بولی کا وہی شفاف طریقہ کار اپناتے ہوئے سامان کو گاہکوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ کوالٹی اور کوانٹٹی کو دیکھتے ہوئے انھیں قیمت کا تعین کرنے میں کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ صرف یہی ایک حدیث نہیں بلکہ کتب احادیث میں ایسی کئی ایک احادیث ہیں جن میں بولی کا باقاعدہ بیان ہے جس کی تفصیل کے لیے ان سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔