جنات کا غلام ۔۔۔ چھتیسویں قسط

جنات کا غلام ۔۔۔ چھتیسویں قسط
جنات کا غلام ۔۔۔ چھتیسویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

معروف صحافی اور محقق ’’شاہد نذیر چوہدری ‘‘ کی اپنے سحر میں جکڑ لینے والی تحقیق پر مبنی سچی داستان ’’جنات کا غلام ‘‘

پینتیسویں قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں

غازی سے اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ ان کا بتدریج ذکر کروں گا۔ تاہم اپنی اس غیر سنجیدگی اور بے احتیاطی کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا تھا جس طرح کہ واقعی اگر ایک عام اور غریب انسان کے پاس ہیرے جواہرات آ جائیں تو وہ ان کی قدر و قیمت کا اندازہ کئے بغیر انہیں بیچنے نکل پڑتا ہے اور اپنی بے احتیاطی اور کم علمی کی وجہ سے لٹ جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا! میں زعم اور تکبر میں مبتلا ہو گیا حالانکہ اس وقت میں ریاضت اور انکساری سے کام لیتا تو اسرار قدرت کے خزانے سے اپنی جھولی بھر لیتا۔ لیکن میں ایک مادہ پرست شخص بن گیا۔ ان علوم سے اپنی دنیا کو سنوارنے کا کام لینے لگ پڑا جس کی وجہ سے میں روحانیت کا وہ احساس اپنے اندر پیدا نہ کر سکا جو میری روح کو بالیدگی بخش سکتا تھا۔
غازی کی تعلیمات نے مجھے جس احساس سے دوچار کیا تھا اس کا نتیجہ پہلے پہلے تو یہ نکلا کہ میں راتوں کو اٹھ کر اسم اعظم بناتا اور اس کا ذکر کرتا رہتا۔ ان دنوں میں امتحانات سے فارغ ہو چکا تھا۔یہ میرا فارغ البالی کا سال تھا۔ ذہن پر تفکرات بھی تھے بابا جی کی قربت پانے کی جستجو بھی تھی۔ میں اپنے لئے اسم اعظم بنا کر اس کا ذکر تو کرتا رہتا تھا لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے اندر سے اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ میں باباتیلے شاہ اور ٹاہلی والی سرکار سے ملنے کیلئے ان تمام مقامات پر گیا جہاں ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ایک سچے عامل کی تلاش میں بھی بھٹکتا رہا۔ انہی دنوں حضرت جی کا وصال ہو گیا ۔ان سے ملنے کی تمناہی رہی۔ ملکوال جانا چھوٹ گیا۔ زلیخا کے شوہر کی پوسٹنگ کوئٹہ ہو گئی تھی اس سے پھر ملنا نصیب نہ ہوا۔ صحافت کا نشہ بہرحال ابھی تک قائم تھا۔ میں سیالکوٹ شہر روزانہ جایا کرتا تھا ۔ میں نے وہاں ایک ہاسٹل میں رہائش رکھ لی۔ یہ ہاسٹل سیالکوٹ کے سول ہسپتال کے قریب تھا اس کے پیچھے سے ایک گندہ نالہ گزرتا تھا اور اس کے پاس ہی ایک قبرستان تھا۔ جس ہاسٹل میں مقیم تھا اس سے ملحقہ پوسٹ مارٹم کا شعبہ تھا اس سے چند گز کے فاصلہ پر دو سینما تھے اور آگے سیالکوٹ صدر اور کینٹ کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ اب تو برسوں ہو گئے اس طرف نہیں گیا۔ لیکن اس وقت پوسٹ مارٹم کے شعبہ کے پاس سے جو سڑک گزرتی تھی اس پر ریلوے پل تعمیر ہو گیا ہے۔ یہ پل جناح اسٹیڈیم کے پاس نیچے اترتا تھا۔ سنا ہے اب اس علاقے میں خاصی ترقی ہو چکی ہے لیکن سولہ برس پہلے کا ذکر کر رہا ہوں۔ ان دنوں میں ذہنی افتراق میں مبتلا تھا اور آہستہ آہستہ مجھ میں لابالی پن بھی آ گیا تھا۔
صحافت میں مصروف ہونے کی وجہ سے دن رات تقریبات میں شمولیت رہتی ۔گویا ایک طرح سے ٹہکا جمانے کے شوق نے مجھ سے میری روحانی تعلیمات چھیننی شروع کر دی تھیں۔میں بہت سے اسباق بھول گیا۔ نماز میں باقاعدگی ختم ہو گی ،نماز تہجد تو بالکل ہی چھوٹ کر رہ گئی۔ پینے پلانے کا دور شروع ہوگیا تھا،جوانی کے قیمتی ہونے کا احساس ہونے لگا ۔دن بھر کی مصروفیات کے باعث رات جب ہاسٹل آتا تو آتے ہی بستر پر گر کر ایسا سویا پڑا رہتا کہ صبح دس گیارہ بجے ہی آنکھ کھلتی تھی ۔خود فراموشی کا دور تھا یایہ قدرت کیطرف سے مصلحت کہ میری بصیرت اندھی ہو گئی ۔ دنیا داری رنگ و بو کی محفلیں اور روپے پیسے کی لذت نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ میں اس خزانے کو بھول گیا تھا جس کی ایک کنجی قدرت نے مجھے تھما دی تھی۔
یہ ایک سال بعد کا ذکر ہے۔
مجھے اطلاع ملی کہ سیالکوٹ کے ایک عامل کو پولیس نے ہسپتال کے پیچھے واقعہ گندے نالے والے قبرستان سے گرفتار کیا ہے اورایک بری شخصیت کے کہنے پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے۔ عام صحافیوں کیلئے شاید یہ خبر دل کشی نہیں رکھتی تھی لیکن نہ جانے مجھے کیوں اس خبر میں دلچسپی ہو گئی۔ یہ قبرستان میرے قریب تھا۔ میں نے اطلاع ملتے ہی اس قبرستان میں جانے کا فیصلہ کیا۔ ہسپتال کی پچھلی آبادی سے گزر کر میں وہاں پہنچا تو پورا قبرستان اجڑے ہوئے دیار کی عکاسی کررہا تھا۔ کیکر کے درخت سوکھے پڑے تھے حتی کہ کئی قبریں گڑھوں میں تبدیل ہو چکی تھیں اور ان سے مردوں کی ہڈیاں جھانک رہی تھیں ۔کتے بلیاں اور چوہے ان گڑھوں میں گھس کر خوراک حاصل کر تے اور وہیں بسیرا کرتے تھے۔
میں قبرستان کے گورکن کو تلاش کرنے لگا۔ وہ ایک خستہ حال چھوٹی سی جھونپڑی میں رہتا تھا۔ پچاس ساٹھ کے درمیان اس کی عمر تھی۔ بڑے بڑے گھنے سیاہ اور تیل میں چپڑے بال۔ بدن ٹھوس‘ آنکھیں سیاہ اور گہری۔ اس کی شکل دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ گورکن ہے۔ ناجانے مجھے کیوں لگا کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ وہ گھاک اور سفاک قسم کا انسان لگتا تھا۔ میں نے اسے اپنا تعارف کرایا تو مجھے سرسے پاؤں تک دیکھنے لگا۔ میں نے مدع بیان کیا اور اس سے پوچھا کہ جو عامل پکڑا گیا تھا وہ کیا حرکت کر رہا تھا۔ گورکن نے پہلے تو اس واقعہ سے ہی اپنی لاعلمی ظاہر کر دی اور بہانہ بنایا کہ ان دنوں وہ یہاں نہیں تھا ۔اس نے مجھے کھڑے کھڑے فارغ کر دیا تھا۔ واپس آنے ہی لگا تھا کہ چند قدم چلنے کے بعد مجھے کچھ یاد آیا اور میں نے کہا’’ بابا۔ نہ جانے کیا بات ہے لگتا ہے تمہیں کہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’دیکھا ہوگا یقیناً دیکھا ہوگا، لیکن کہاں۔۔۔ یہ تو مجھے بھی لگتا ہے۔‘‘ اس کے چہرے پر استہزائیہ مسکان تھی۔
’’تمہارا نام کیا ہے بابا۔۔۔‘‘ میں نے نہایت تمیز سے دریافت کیا تو وہ سخت انداز میں بولا’’ جاؤ اپنا کام کرو۔۔۔ میرا نام پوچھ کر کیا کروں گے‘‘۔ یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پرناگوار اورقہر سے بھرے تاثرات نمایاں ہو گئے تھے۔ ’’بابا۔۔۔‘‘ میں نے اس کے انداز کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا ’’میں ایک صحافی ہوں یہ مت سمجھنا کہ ڈر جاؤں گا۔ میں اوپر والوں سے بات کرکے تمہاری پیشی کرا دوں گا تو۔۔ بھلا نام بتانے میں کیا حرج ہے۔‘‘
’’اوپر والے۔ کون اوپر والے۔ کیا تیرے اوپر والے میرے اوپر والے سے زیادہ بڑے ہیں۔‘‘
’’نہیں۔ اوپر والا زیادہ تگڑا ہے‘‘ میں نے دوستانہ انداز میں ہنس کر کہا تو گورکن کو شاید میرا یہ انداز اچھا لگا اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے اور بولا۔ ’’پتر مجھے موتی ملنگ کہتے ہیں۔میں ہی یہاں کاگورکن ہوں۔۔۔‘‘
’’موتی ملنگ۔۔۔‘‘ میرے ذہن میں جیسے بلب روشن ہو گئے۔
’’تم کہیں مکھن سائیں کے دربار کے ملنگ تو نہیں ہو۔۔۔‘‘
’’توآخر پہچان لیاناں تم نے۔۔۔‘‘ موتی ملنگ بے رحمانہ انداز میں مسکرایا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا برگد کے ایک بوڑھے درخت کے پاس جا ٹھہرا‘ درخت کے نیچے اس نے تھوڑے سے قطعہ زمین کو صاف کیا ہوا تھا اور درخت میں ایک کھوہ بناکر اس میں دیا رکھا تھا۔ کھوہ دیا جلتے رہنے سے سیاہ ہو چکی تھی اس کے گرد سینکڑوں رنگدار کپڑوں کی ’’ٹاکیاں‘‘بندھی تھیں۔ زمین کے گرد اس نے اینٹوں کے ساتھ دائرہ سا بنایا ہوا تھا۔ یہ مکھن سائیں کے آستانے کا ہی ایک انداز تھا جوموتی ملنگ نے قبرستان میں اپنی ریاضت کیلئے بنایا ہوا تھا۔
***
اس نے مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ میں پاس پہنچا تو اس نے کھوہ میں ہاتھ ڈال کر کسی پرندے کے پر، پیروں کی ہڈیاں اور ایک قلم نکال کر اپنے سامنے رکھ لیا۔ اس نے قلم کی نوک بائیں کلائی پر رکھی اور مجھے عجیب سی تمسخرانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا حرکت کرے گا۔ لیکن جب اس نے قلم کی نوک سے کلائی چھید کر اپنا خون نکالا تو میرے ذہن میں دھماکے ہونے لگے۔ یہ عمل ریاض شاہ نے میرے ساتھ بھی کیا تھا۔ زلیخا کو سحری قوتوں سے آزاد کرانے کے لئے اس نے میرا خون حاصل کر کے عملیاتی کلمات لکھے تھے۔
موتی ملنگ نے قلم کو ایک طرف رکھا اور پرندے کا پر خون میں ڈبو کر اسے ہڈیوں پر یوں پھیرنے لگا جیسے کسی دیوار پر چونا لگانے کے لئے برش پھیرا جاتا ہے۔ میں خاموشی سے اور گہری نظروں کے ساتھ اس کو دیکھنے لگا۔ وہ اپنے زخم سے بیگانہ ہو کر یہ عمل کر رہا تھا۔ ہڈیوں پر خون کی تہہ لگانے کے بعد وہ استہزائیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگا اور پھر نہایت متکبرانہ انداز میں بولا۔
’’یہ پولیس مکھن سائیں کے ملنگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ سائیں سرکار کے جوتوں میں بیٹھنے والے افسر بھلا ہمارے لوگوں کو ہاتھ تو لگا کر دیکھیں‘‘۔
میں نہیں سمجھا کہ وہ مجھے کیا سمجھانا چاہتا تھا لہٰذا میں نے کہا۔ ’’سائیں یہ کیا کر رہے ہو۔‘‘
’’حیرت ہے بھئی۔ ابھی تک تمہیں یہ معلوم نہیں پڑا میں کیا کر رہا ہوں۔ مولا خوش رکھے۔ میں عمل باندھ رہا ہوں۔‘‘
’’تم تو گورکن ہو۔ تمہارا عملیات سے کیا کام‘‘۔ میں نے معصومانہ انداز میں کہا تو وہ فلک شگاف قہقہہ لگانے کے بعد بولا۔
’’لو جی۔ یہ بھی کیا خوب کہی ہے۔ بھلے مانسو مکھن سائیں کے ملنگ گورکن بن کر زندگی نہیں گزارتے۔ ہم تو قبرستانوں کے شہنشاہ ہوتے ہیں۔‘‘ یہ کہنے کے بعد اس نے مجھے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش ہو جانے کا اشارہ کیا اور خود چوکنا ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ وہ اپنی سماعت میں ان دیکھے وجود کی سرسراہت محسوس کرنے لگا تھا۔ میں نے غور کیا۔ مجھے نالے سے پار گاڑیوں کے شور کے سوا کچھ سنائی نہ دیا لیکن وہ نہایت ارتکاز کے ساتھ یوں کسی انجانے قدموں کی چاپ سن رہا تھا جنہیں میں نہیں محسوس کر پا رہا تھا۔ چند ثانیے بعد ہی مجھے برگد کے اوپر تھوڑی سی ہلچل محسوس ہوئی۔ موتی ملنگ نے اوپر کی جانب دیکھا اور پھر ایک دم اس نے جھولی پھیلا دی۔ اچانک ایک سرخ رنگ کا دوپٹہ اس کی گود میں آ گرا۔ کسی نے اسے نہایت سلیقے سے تہہ کیا ہوا تھا اور اس پر سیاہ رنگ کے دھاگے باندھے ہوئے تھے۔
موتی ملنگ نے خون آلود ہڈیاں دوپٹے کے اندر اسکی تہوں میں چھپا دیں اور دوپٹہ برگد کی کھوہ میں رکھ دیا۔ پھر زیرلب کچھ بڑبڑانے کے بعد اس نے کھوہ کے گرد حصار باندھا اور اٹھ پڑا۔
’’آؤ جی۔۔۔ اندر حجرے میں چلتے ہیں۔‘‘
وہ جسے حجرہ کہہ رہا تھا لکڑیوں اور کچے گارے سے بنی ایک جھگی تھی۔ باہر سے اسکی حالت بہت خراب تھی لیکن اندر داخل ہونے پر اس کی حقیقت سامنے آتی تھی۔ ایک طرف کدال، بیلچہ اور کھرپہ رکھا تھا۔ پاس ہی کچا گھڑا تھا جس میں پانی بھرا ہوا تھا۔ اس کے پاس بھنگ گھوٹنے کے لئے بڑا سا ’’کونڈا ڈنڈا‘‘ اور بھنگ کا سامان تھا۔ ایک طرف جہازی سائز کی چارپائی تھی۔ نیچے بوسیدہ سا قالین بچھا ہوا تھا۔مردوں کی ہڈیاں، کافور اور مختلف قسم کی خوشبویات حجرے میں پھیلی ہوئی تھیں۔
موتی ملنگ کے ماتھے پر اب پسینے کے قطرے نظر آ رہے تھے۔ وہ چارپائی پر یوں بیٹھا جیسے دن بھر کی مشقت سے ہارا ہوا شخص بے سدھ ہو کر گر پڑتا ہے۔
’’امرت کا پیالہ پلا دے کاکا۔‘‘ اس نے بھنگ کے کونڈے کی طرف اشارہ کیا۔ یہ تو میں جانتا ہی تھا کہ یہ ملنگ لوگ بھنگ میں چاروں مغز ملا کر اسے امرت کے نام سے پکارتے ہیں۔ وہ سادہ پانی کی بجائے یہی امرت پیتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کے جسم بے جان ہو جاتے ہیں۔ میں نے پیالہ بھر کر اسے دیا تو ایک ہی سانس میں سارا پیالہ پی گیا۔
’’تم بھی پیؤ‘‘۔ اس نے پیالہ میری طرف بڑھایا۔
’’نہیں شکریہ۔ میں اس نعمت سے محروم ہوں۔‘‘ میں نے پیالہ کونڈے کے پاس رکھ دیا۔
’’پی لے کاکا۔ ترے سارے غم دور ہو جائیں گے۔‘‘
’’سرکار۔ آپ اور پی لیں‘‘۔ میں نے پیالہ بھر کر ۔ میرے دماغ میں عجیب سی چمک پیدا ہو گئی تھی۔ میں نے سوچا اسے بھنگ پلا کر اس سے بہت سی باتیں معلوم کی جا سکتی ہیں۔ شراب اور بھنگ پینے والے کی ذہنی رو بھٹک جاتی ہے۔ اس نے دوسرا، تیسرا اور پھر چوتھا پیالہ میرے ہاتھوں سے پی لیا۔ جب میں پانچواں پیالہ اسے پلانے لگا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’دیکھ ترے ہاتھوں سے چار پیالے پی لئے ہیں۔ اب ایک تو پئے گا۔‘‘
میں نے کلائی چھڑوانے کی کوشش کرنے لگا تو وہ ایک دم جلالی انداز میں بولا۔ ’’اب اگر تو نے میری بات نہ مانی تو مار کر اس قبرستان میں دفن کر دوں گا۔‘‘
میں جس مقصد کی خاطر اس سے ملا تھا اگر بھنگ نہ پیتا تو وہ ناراض ہو جاتا اور میرا مقصد فوت ہو جاتا۔ میں نے اس کے ہاتھوں سے پیالہ لیا اور قدرے ناگواری کے ساتھ پینے لگا لیکن پہلا ہی گھونٹ پینے کے بعد اسکے ذائقہ نے مجھے اطمینان کے ساتھ امرت پینے پر مجبور کر دیا۔ یہ ذائقہ میرے لئے نیا نہیں تھا۔ میں جب آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا ان دنوں مجھ پر پہلوانی کرنے کا جنون طاری ہو گیا تھا۔ میرے علاقے میں بہت سے نامی گرامی پہلوان رہتے تھے۔ گونگا پہلوان رستم ہند کا پوتا میرا کلاس فیلو تھا۔ میرے کچھ دوست بھی اس ورزش سے مستفیض ہو چکے تھے۔ پہلوانی کے دوران ریاضت کے بعد بادام، خشخاش اور مغزیات کے ساتھ کونڈے میں گھوٹ کر جو سردائی بنائی جاتی تھی موتی ملنگ کے امرت کا ذائقہ بالکل ایسا تھا۔ نہایت ٹھنڈا، شیریں۔
’’سواد آیا‘‘۔ موتی ملنگ نے میرا ہاتھ دباتے ہوئے پوچھا۔
’’جی بہت آیا۔‘‘ میں نے پیالہ ایک طرف رکھ دیا تو اس نے مجھے بھی چارپائی پر بٹھانے کے لئے کہا۔
بھنگ پینے کا اثر یہ ہوا کہ موتی ملنگ میرے ساتھ کھل کر باتیں کرنے لگا۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ نے پرندے کے پیروں کی ہڈیاں اپنے خون میں بھگونے کے بعد دوپٹے میں کیوں چھپا دیں۔ میرا ذہن ابھی تک الجھا ہوا ہے‘‘۔
موتی ملنگ نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور سرگوشی کے انداز میں بولا: ’’یہ بات تمہارے لئے بڑی عجیب ہو گی۔ حیرت سے مر جاؤ گے تم۔ اس لئے نہ ہی پوچھو تو اچھا ہے‘‘۔ لیکن میں بچوں کی طرح مچل کر اس کی خوشامد کرنے لگا تو وہ بولا۔’’ کاکے۔ یہ ایک ادھورا عمل تھا جسے میں نے پورا کرنا ہے۔ اگلی جمعرات کو نوچندی ہو گی اور میں اس رات اس عمل کو پورا کر دوں گا۔ پھر تمہارے ریاض شاہ کی مصیبت ٹل جائے گی‘‘۔
’’کک۔۔۔ کیا۔۔۔ ریاض شاہ کا نام سنتے ہی میں اچھل پڑا۔‘‘ تم کیا کہہ رہے ہو۔
’’کاکے۔۔۔ میں نے کہا تھا کہ تم پریشان ہو جاؤ گے۔ اب ایک اور بات سنو گے تو تمہاری پریشانی اور بڑھ جائے گی لیکن پہلے مجھے ایک پیالہ اور پلاؤ۔‘‘ موتی ملنگ کی آنکھیں خمار کے بوجھ سے کھینچی چلی جا رہی تھیں اور وہ ترنگ میں آ رہا تھا۔ میں چارپائی سے اٹھا تو مجھے احساس ہوا میرا پورا بدن آسمان پر اڑتے بادلوں کی طرح ہلکا پھلکا ہو گیا ہے۔ یہ بھنگ کا اثر تھا۔ موتی ملنگ کو ایک اور پیالہ پلانے کے بعد اس کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’تم میرے پاس آئے تھے کہ تم جان سکو وہ عامل کون تھا جسے پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ اور وہ کیا کرنا چاہتا تھا۔۔۔ ہیں۔ یہی پوچھنا چاہتے تھے ناں تم۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ عامل۔ تمہارا ریاض شاہ تھا۔‘‘
’’کک کیا‘‘ میں ہکلا کر رہ گیا۔
’’یہ سچ ہے کاکے‘‘۔ موتی ملنگ زور دیکر بولا۔ ’’مکھن سائیں نے اپنے اثر و رسوخ کے زور پر اسے پولیس سے چھڑوا لیا تھا‘‘۔
’’وہ کیا کرنے آیا تھا یہاں‘‘۔ میں نے پوچھا۔
’’آہا۔ ہوس کی آگ مارا ہوا تھا۔ بڑا زخمی تھا۔ وہ کیا نام تھا اس لڑکی کا‘‘۔
’’زلیخا۔‘‘ میرے منہ سے نکلا۔
’’ہاں زلیخا اور ایک وہ تھی۔ ہاں بلقیس۔‘‘ وہ دونوں لڑکیوں کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ مکھن سائیں نے اسے سمجھا دیا تھا کہ اب وہ زلیخا کی پرچھائیں کی طرف بھی نہ دیکھے۔ کیونکہ اس کی نگرانی بزرگ کر رہے ہیں۔ پھر وہ بلقیس کے پیچھے پڑ گیا۔ مکھن سائیں نے اس کی یاری میں اسکے حقوق اسکو دے دیئے تھے۔ بڑی باغی ہرنی تھی وہ۔ یہ دوپٹہ جو ادھر میں نے کھوہ میں دبایا ہے یہ بلقیس کا تھا۔
’’وہ کیوں۔‘‘
’’وہ اس لئے کہ بلقیس کسی اور سے پیار کرتی تھی۔ ریاض شاہ نے عملیات کے زور پر اس کے دل کو جیتنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ لڑکی اس کو حاصل نہیں ہو سکی۔ اسی لئے وہ ایک عمل کرنے کے لئے یہاں آیا تھا اور مخبری ہونے پر پکڑا گیا۔ وہ پکڑا نہ جاتا لیکن اس روز میں یہاں نہیں تھا۔‘‘
’’لیکن موتی بادشاہ ریاض شاہ کو اس طرح ایک عمل کرنے کے لئے قبرستان کیوں آنا پڑا۔ اس کی روحانی قوتیں تو بہت زیادہ تھیں۔ بابا جی اور غازی سمیت بہت سے جنات اس کا پانی بھرتے تھے۔‘‘
’’کہتے تو ٹھیک ہو۔ مگرریاض شاہ سے بابا جی روٹھ گئے تھے۔ وہ پہلے بھی کالا علم کرتا تھا لیکن بعد ازاں اس نے نوری علم سیکھ لیا تھا اور اسی کے زور پر بابا جی اس کے پاس آ جاتے تھے لیکن اس کی حرام زدگیاں بابا جی کو گوارہ نہیں تھیں۔ وہ اس کی ماں اور بھائی کی لاج رکھتے تھے۔ پچھلے سال زلیخا کی شادی ہو گئی تو ریاض شاہ مکھن سائیں کے آستانے پر چلہ کرنے گیا تھا۔ اس نے زلیخا اس کے والدین اور تمہیں مارنے کے لئے مکھن سائیں کے ساتھ مل کر چلہ کاٹا تھا لیکن وہ تمہارے حضرت جی کی روحانی قوتوں نے ان سب کو بچا لیا۔ ریاض شاہ اپنی ناکامی پر تلملا اٹھا اور اس نے بلقیس کو حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ بلقیس کے والدین کو ریاض شاہ کی حقیقت معلوم ہو گئی تھی۔ وہ اس طرح کہ ایک روز وہ ملکوال گئے تو ملک صاحب نے انہیں ریاض شاہ کی اصلیت بتا دی تھی۔ ریاض شاہ مکھن سائیں کے آستانے سے بلقیس کے گھر میں منتقل ہو گیا تھا۔ وہ بے چارے اس سے ڈرتے تھے لیکن بلقیس بڑے پکے ارادے والی تھی۔ اس کے باوجود اس کی ہوس کا شکار ہو گئی۔ ریاض شاہ نے اس کے التفات کو اپنی طرف پورے کا پورا موڑنے کے لئے یہ چلہ کیا تھا۔ دراصل اب ریاض شاہ کسی قسم کی حکم عدولی نہیں چاہتا۔ اپنی خواہش کے مطابق سارے کام کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سارا سارا دن قبرستانوں، گندے نالوں اور ایسے مقامات پر بیٹھ کر کالا علم کے لئے چلے کاٹتا ہے۔
’’استغفراللہ۔ لاحول ولا قوۃ‘‘۔ میں زیرلب بڑبڑایا۔ ’’کیا میں اسے مل سکتا ہوں۔‘‘
’’کاکے۔ اگر حوصلہ ہے تو مل لو۔ لیکن میرا مشورہ ہے کہ اسے نہ ہی ملو تو اچھا ہے۔ ورنہ وہ تمہیں اپنے غضب کی آگ میں جلا ڈالے گا۔‘‘ تمہیں دیکھتے ہی اس کے زخم ہرے ہو جائیں گے۔ موتی ملنگ اب مجھ پر مہربان ہو چکا تھا اور مجھے ریاض شاہ سمیت اپنی دنیا کے کرتوتوں سے آگاہ کرتا چلا جا رہا تھا۔
موتی ملنگ کے منہ سے بلقیس کا نام سن کر میرے بدن میں سوئیاں سی چبھنے لگی تھیں۔ وہ لڑکی مجھ سے پیار کرنے لگی تھی۔ لیکن میں عشق کی منزل کا راہی نہیں تھا۔ اسے اس کی دیوانگی اور نادانی اور اپنے لئے اس کے دل میں احترام کو اندھی عقیدت سمجھتا تھا۔ میں نے اس پر احسان کیا تھا لیکن بدلے میں وہ مجھ سے متاثر ہو کر مجھ سے روح کا رشتہ قائم کرنا چاہتی تھی۔ اسی لئے میں اس سے دور ہو گیا تھا لیکن اب ریاض شاہ کے ہاتھوں اس کی پائمالی کی داستان سن کر میرے رونگٹھے کھڑے ہو گئے تھے۔ غم و غصہ نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ میں خود کو قصوروار سمجھنے لگا کہ بلقیس جیسی شرم و حیا والی لڑکی کو ایک کتے سے بدتر انسان کے ستم کا نشانہ بننے کے لئے تنہا کیوں چھوڑ دیا۔
مجھے یقین تھا کہ موتی ملنگ اپنے مرشد کے دوست کے خلاف میری مدد نہیں کرے گا۔ لہٰذا میں نے ریاض شاہ سے نپٹنے کے لئے کسی دوسرے طریقے پر غور شروع کیا۔ لیکن میں جو بھی سوچتا میرا ذہن اس طریقے کو اختیار کرنے سے گریز کرتا۔
میں موتی ملنگ سے معلومات لے کر واپس آ گیا تھا۔ کالج میں طلبا سیاست اور صحافت کی وجہ سے میرے بہت سے سیاسی ورکروں اور پولیس والوں سے رابطے تھے۔ میں نے چند خاص دوستوں سے مشورہ کیا کہ ریاض شاہ کے خلاف کس طرح سخت کارروائی کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اگر بلقیس اور اس کے والدین پولیس میں رپورٹ درج کرا دیں تو اس پر سخت ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے۔ ہم اس معاملے کو اخبارات میں اچھال کر اس کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں۔ یہی امید لیکر میں بلقیس سے ملنے چلا گیا تھا۔ لیکن اس کے گھر کے دروازے پر تالہ پڑا ہوا تھا۔ ہمسایوں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ چند روز پہلے اپنا سامان لے کر کہاں گئے ہیں یہ کسی کو علم نہیں ہے۔ ہمسایوں کو ریاض شاہ کا حلیہ بتا کر اس کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ وہ شخص بھی انکے ساتھ ہی چلا گیا ہے۔
ریاض شاہ آناً فاناً سیالکوٹ سے غائب ہو گیا تھا۔ نہ جانے وہ بلقیس اور اس کے والدین کو کہاں لے گیا تھا۔ میں مکھن سائیں کے پاس نہیں جا سکتا تھا لہٰذا میں نے موتی ملنگ سے دوستی گانٹھ کر اس سے ریاض شاہ کا پتہ کرانے کی کوشش کی تو اس نے صرف دو باتیں بتائیں کہ ریاض شاہ گوجرانوالہ اور ایمن آباد کے درمیان ایک کالی گھاٹ نامی خفیہ جگہ پر چلہ کرنے گیا تھا۔ یہ جگہ سفلی علوم کرنے والوں کے لئے جنت کا درجہ رکھتی تھی۔ کالے عملیات کرنے والوں نے اس جگہ کا خفیہ کوڈ نیم کالی گھاٹ رکھا ہوا تھا۔ اسے تلاش کرنا بڑا مشکل تھا۔ دوسری بات اس نے یہ بتائی کہ ریاض شاہ لاہور چلا گیا ہے۔ وہ اس کے گھر کا پتہ نہیں دے سکا تھا۔
بلقیس کی بربادی اور ریاض شاہ کی سفاکی نے میرے دل و دماغ میں تلاطم برپا کر دیا تھا۔ لاچارگی اور غصہ کی ملی جلی کیفیات نے مجھے مہینوں اپنے کمرے میں بند رہنے پر مجبور کر دیا۔ کبھی کبھار میں بابا تیلے شاہ بیری والی سرکار حتیٰ کہ پیر کاکے شاہ کے دربار پر بھی گیا لیکن ایک عام زائر کی طرح واپس آ جاتا تھا۔ سارے سلسلے بند ہو گئے تھے۔
میں نے بی اے کا امتحان اچھے نمبر لیکر پاس کر لیا تھا۔ میں مزید پڑھنا چاہتا تھا۔ والد محترم نے اپنے تعلقات استعمال کر کے مجھے نائب تحصیلدار بھرتی کرانے کی کوشش کی لیکن میں نے اب فیصلہ کر لیا تھا کہ سوائے صحافت کے میں کسی دوسرے شعبے میں نہیں جاؤں گا۔ سیالکوٹ سے باہر نکلنے کے لئے میرے پاس اب یہی راستہ تھا کہ میں وکالت میں داخلہ لے کر لاہور آ جاؤں۔ پس میں نے تدبیر کی اور لاہور آ گیا۔ جس روز میں نے داتا کی نگری میں قدم رکھا میری آرزوؤں کے گلشن آباد ہوتے نظر آنے لگے۔ میرے عزیز رشتہ دار لاہور میں رہتے تھے۔ لیکن میں جس مقصد کی خاطر لاہور آیا تھا اس کیلئے میں ان کے ہاں نہیں رہ سکتا تھا۔ یتیم خانہ میں ان دنوں حمایت اسلام لاء کالج کی کافی شہرت تھی۔ میں نے وہاں داخلہ لے لیا۔ انہی دنوں فیملی میگزین کا آغاز ہو چکا تھا۔ چونکہ تحریر و تصنیف سے وابستگی تھی لہٰذا میں فیچر نگار کے طور پر فیملی میگزین کے لئے فیچر لکھنے لگا۔ اس دوران میں نے لاہور کے تمام عاملوں، مزاروں اور ایسے مقامات کی خاک چھان ماری جہاں جہاں عامل حضرات کے ملنے کی توقع ہوتی۔ میں لوگوں کو ریاض شاہ کا حلیہ بتاتا رہا لیکن کوئی بھی اس شخص کو نہیں جانتا تھا۔ اس تلاش بسیار میں میری حالت دگرگوں ہو گئی۔ بھوک اور افلاس سے نڈھال ہو گیا۔ داتا دربار پر جا کر لنگر سے پیٹ بھرتا، چوبرجی چوک کے لان میں رات گزارتا، رہنے کے ٹھکانے بھی چھن گئے تھے۔ بے کسی اور نامرادی کے باوجود میں نے دل نہیں چھوڑا۔ راتوں کو سٹریٹ لائٹس کی روشنی میں پڑھتا۔ اکثر رات گئے داتا دربار چلا جاتا اور صاحب مراد کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک پڑھتا رہتا۔ میرے کان ہر وقت بابا تیلے شاہ کی آواز سننے کے لئے بے چین رہتے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ اگر اب مجھے ملے تو یہیں کہیں ملیں گے۔ داتا دربار کے اندر بہت سے سفید باریش اور نورانی چہروں والے بزرگوں کو غور سے دیکھتا رہتا کہ نہ جانے ان میں سے کوئی ایک میرے مطلوبہ بزرگ ہوں۔ اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ پھر ایک روز میرے بہنوئی لاہور آئے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ریاض شاہ کے بڑے بھائی سید اقبال حسین شاہ لاہور میں فلاں جگہ رہتے تھے۔ تم ان سے کیوں نہیں ملے۔ امید کے ہزاروں چراغ روشن ہو گئے اور میں اگلے ہی روز سید اقبال حسین شاہ کی تلاش میں نکل پڑا لیکن وہ اس جگہ سے کہیں دور جا چکے تھے۔ مجھ پر مایوسی کا شدید دورہ پڑا۔ کئی روز تک میری حالت بھی خراب رہی۔ لیکن پھر مجھے فیملی میگزین کے مستقل رکن بننے کا موقع مل گیا تو میرے دن رات صحافتی ذمہ داریوں میں غرق ہو گئے اور وقت تیزی سے گزرتا چلا گیا لیکن اب میرا دل بازاری عاملوں سے شدید ترین نفرت کرنے لگا تھا۔ میں ان لوگوں کے گھناؤنے کرتوتوں سے آگاہ تھا لہٰذا میں نے کئی بار ایسے ایسے مضامین اور فیچر لکھے جس سے ان کی اصلیت سامنے آ جاتی تھی اور پولیس ان عاملوں کے پیچھے پڑ جاتی۔ حتیٰ کہ اعلیٰ سطح پر بھی ان کے خلاف کارروائیاں ہوتیں۔ انہی دنوں ایک معروف عامل سے میری ملاقات ہو گئی۔ میں نے سید اقبال حسین اور ریاض شاہ کو تلاش کرنے کے لئے ان سے مدد مانگی۔ 1999ء میں بالآخر ہم سید اقبال حسین کا گھر تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں اپنے ایک دوست ظفر سجاد کے ساتھ ان کے گھر گیا۔ تو وہ غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے ملے۔ تعارف ہوا۔ تو بولے۔
’’خدائے لم یزل کی قسم۔ کوئی مجھے اس بے غیرت کا پتہ دے میں اس کو سونے میں تول دوں۔ اس نے ہمارا ایمان خراب کر دیا ہے۔ میں اس کو ختم کر ڈالوں گا۔ اس نے میرے نام پر میرے عقیدت مندوں کو لوٹا ہے‘‘۔ سید اقبال حسین ایک حلیم الطبع اور شریف النفس انسان تھے۔ کہنے لگے۔ ’’اس کی وجہ سے ہم برباد ہو گئے ہیں‘‘۔
ان دنوں وہ شدید ترین بحران کا شکار تھے۔ گویا وہ سخت ترین سزاؤں سے گزر رہے تھے۔ ان کا ایک بیٹا جو ریاض شاہ کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ ناگہانی آگ لگنے سے جھلس گیا تھا اور دوسرا بیٹا خطرناک حادثے کے بعد شالیمار ہسپتال میں پڑا تھا۔ سید اقبال شاہ نے کہا۔ ’’میرے بھائی۔ جنات کی غلامی کا طوق گلے سے اتارنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ نیک و بد جنات سے جب جان چھڑانی ہو تو یہ سزائیں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے انہیں گلے سے لگا لیا۔ میں ان کے بیٹے کی تیمارداری کے لئے شالیمار ہسپتال چلا جاتا۔ ان سے پھر میرا مستقل رابطہ رہنے لگا لیکن میں نے ایک بات صاف محسوس کی تھی کہ وہ مجھ سے کھل کر باتیں کرنے اور ملاقات سے گریزاں ہونے لگے تھے۔ انہوں نے جواہرات کا کاروبار بھی شروع کر دیا تھا چند مہینے بعد ان کے دونوں بیٹے صحت یاب ہونے لگے تھے تو وہ پھر کاروبار پر نکلنے لگے۔ موچی گیٹ کے باغ میں وہ جواہرات لیکر جاتے اور نگینے بیچنے لگے۔ ایک روز میں ان کے گھر گیا تو وہ قدرے خوش دکھائی دے رہے تھے۔ میرے سامنے جواہرات کا صندوق کھول کر کہنے لگی۔ ’’بھائی۔ اس میں سے اپنی پسند کا نگینہ اٹھا لو۔‘‘ ان کے پیار بھرے انداز سے میں متاثر ہوا۔ میں نے کہا۔ ’’نگینہ تو میں لے لوں گا لیکن اس کے پیسے دوں گا۔‘‘
’’ارے آپ سے پیسے لینے ہیں۔ بالکل نہیں۔ فی الحال مجھے حکم ہوا ہے کہ تمہیں تمہاری مرضی کا نگینہ دے دوں‘‘۔ ان کے چہرے پر اس روز بڑا سکون نظر آیا۔
میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھا اور مجھے لگا جیسے ہزاروں آنسو میرے حلق میں آ ٹھہرے ہیں اور ایک میٹھا گداز احساس نمو پانے لگا ہے۔ ’’شاہ صاحب۔ کس نے آپ سے کہا ہے نگینہ دینے کو بابا جی نے ۔اگر انہوں نے کہا ہے تو مجھے بابا جی سے ملا دیں‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میری آواز بھرا گئی اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’برسوں بیت گئے ان کے ہجر میں۔ بہت کچھ لٹ گیا ہے میرا۔ میں ان سے ملنے کی تمنائیں لیکر یہاں آیا تھا‘‘۔
’’شاہد‘‘۔ ان کے چہرے پر ایک دم اکتاہٹ اور سختی پیدا ہو گئی‘‘! بابا جی کو بھول جاؤ۔ اگر تم پر ان کی اصلیت کھل گئی تو تم تڑپ تڑپ کر مر جاؤ گے‘‘۔ میرے آنسو پلکوں میں ٹھہر گئے اور میں شاہ صاحب کی طرف حیرت آمیز مگر ملتجی نظروں سے دیکھنے لگا۔
’’سنو۔ اگر سن سکتے ہو تو سنو۔ جنہیں تم بابا جی کے برگزیدہ جنات کہتے ہو، سمجھتے ہو۔ وہ جن نہیں تھے‘‘۔
’’کک۔۔۔ کیا۔ شاہ صاحب۔ آپ کیا فرما رہے ہیں۔ وہ جنات نہیں تھے تو کیا تھے‘‘۔ شاہ صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری اور کمرے کے روشندان کی طرف دیکھنے لگے اور جب وہ بولے تو میری سماعت پر ہزاروں ٹن جلتا ہوا بارود گرنے لگا۔

آخری قسط پڑھنے کے لئے کلک کریں